تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     25-12-2016

کیا یہ ہے قائدؒ کا پاکستان ؟

کرپشن میں لتھڑا آج کا پاکستان کیا قائد کا پاکستان ہو سکتا ہے؟ یہ سوال ہر سچے پاکستانی کے ذہن میں سر اٹھاتا ‘ پریشان کرتا اور مجھے تو ایک گہرے ملال سے دوچار کردیتا ہے۔ منیر نیازی نے اس کیفیت کے لیے کہا تھا۔۔۔ ''اس کے بعد اک گہری چپ اور تیز ہوا شور‘‘۔ تیز ہوا کے اس شور میں کچھ سنائی نہیں دیتا‘ صرف آواز آتی ہے کہ ہم نے قائدؒ کے اثاثے کو سنبھالا نہیں۔ برصغیر کے عظیم رہنما محمد علی جناحؒ جو دیانت اور اخلاص کا پیکر تھے‘ ہم نے ان کے اثاثے کو اپنایا ہی نہیں۔ حکمرانوں کی صورت میں ہم پر ہوس پرستوں کا ٹولہ چہرے بدل بدل کر حکمرانی کرتا رہا۔ یہ ٹولہ‘ پاکستان کے شہری کے روپ میں کسی نہ کسی مفاد کی ٹوہ میں لگا رہا... شارٹ کٹس کے دلدادہ‘ فرائض سے غافل یہ ٹولہ ذمہ داریوں کو بھلا کے‘ جھوٹ، غفلت اور بے حسی کے دائروں میں سفر کرتا رہا۔ اس کا نتیجہ آج کا پاکستان ہے، جس کے چپے چپے پر کرپشن اور بددیانتی کی داستانیں تحریر ہیں۔ ایسا پاکستان قائد کا پاکستان نہیں ہو سکتا!
آج 25 دسمبر ہے‘ قائد کا یوم ولادت۔ سرکاری سطح پر یہ دن منایا جا رہا ہے۔ اخبارات نے خاص ایڈیشن شائع کیے ہیں۔ خوب صورت مضامین تحریر کیے گئے ہیں۔ ٹی وی چینلز تمام دن قائد کو خراجِ تحسین پیش کرتے رہیں گے اور سرکاری ٹی وی پر تو کئی دنوں سے پاکستان کا لوگو (Logo) چل رہا ہے۔ یہ سب دیکھ کر خیال آتا ہے کہ کرپشن میں لتھڑا آج کا پاکستان تو اس اخلاص‘ دیانت اور ریاضت سے کوسوں دور ہے جو قائد اعظم محمد علی جناح تعمیر کرنا چاہتے تھے ؎
میں نے پوچھا تھا کہ اخلاص کسے کہتے ہیں
ایک بچہ تیری تصویر اٹھا لایا ہے!!
یہ سادہ سا شعر قائد کی شخصیت ‘ کردار اور جدوجہد کو کس خوبی کو آشکار کرتا ہے۔ لیکن افسوس! لفظ اخلاص سے آج کا پاکستان محروم ہے۔ استثنیٰ موجود ہیں مگر مجموعی طور پر یہی حالتِ زار ہے۔ قائد کا اثاثہ ہم نے سنبھالا ہی نہیں۔ بدقسمتی یہ کہ قائد کی زندگی میں ہی غلط روش کا آغاز ہو گیا تھا۔ اُجلی دیانت اور بے مثال اخلاص قائدؒ کے ساتھ ہی رخصت ہو گیا۔ اب یہاں کرپشن اور بددیانتی کا راج ہے۔ کرپشن دراصل ہر طرح کی بددیانتی‘ حرام خوری کے لیے ایک چھتری ہے۔ دہشت گردی کے عفریت نے گھر گھر ماتم برپا کیا ہوا ہے۔ اس کی شدت اور وحشت اس لیے بھی دو چند ہو جاتی ہے کہ یہاں اخلاص عنقا ہے۔۔۔۔ اخلاص اپنے وطن‘ اپنی مٹی ‘ اپنے لوگوں کے ساتھ، اپنے فرائض اور ذمّہ داریوں کے ساتھ۔ اس کی جگہ بد دیانتی‘ رشوت خوری ‘ ہوس زر اور مفاد پرستی نے دلوں میں نقب لگا لی ہے۔ سانحہ کوئٹہ پر جسٹس فائز عیسیٰ کی رپورٹ کیا اسی احساسِ زیاں کا ماتم نہیں ہے؟ بلوچستان کے قابل وکلاء کی ایک پوری کھیپ کو چشم زدن میں ختم کرنے کا سانحہ جس نے سخت جان علی احمد کرد کو آن سکرین رُلا دیا۔ اس بدترین سانحے کے محرکات جاننے کے لیے کوئٹہ کمیشن بنا۔ جسٹس فائز عیسیٰ کا اخلاص اس رپورٹ میں نظر آتا ہے۔ انہوں نے ایک دردمند پاکستانی کی حیثیت سے اس کی انکوائری کی اور اس سانحے کے ایک ایک پہلو پر سیر حاصل بحث کی۔ اس کو کھوجا اور جواب وہی کہ اخلاص نہیں تھا۔ دیانت داری کے ساتھ ذمّہ داری نبھانے کا جذبہ نہیں تھا۔ صوبائی حکومت ہو یا وفاقی‘ نیکٹا ہو یا دوسرے ادارے‘ اپنی ذمّہ داریاں نبھانے میں مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوئے۔ اسی لیے تو بار بار عدالتیں‘ سکول‘ یونیورسٹیاں اور بازار مقتل بنتے رہے۔
صرف نعرے، دعوے اور وعدے مسئلوں کا حل نہیں ہو سکتے۔ کرپشن کے خلاف کروڑوں روپے کے ٹی وی اور اخبار کے اشتہارات کیا کرپشن روک دیں گے؟ یہ صرف ایک گھنائونا مذاق 
ہے پاکستان کے ساتھ، کیونکہ اب این آر او کی طرح قومی خزانے کے لٹیروں اور چور اچکوں کو شرافت اور نجابت کا سرٹیفکیٹ دینے کے لیے پلی بارگین ایک قانون کی شکل میں متعارف ہو چکا ہے۔ اربوں کی کرپشن دیدہ دلیری سے کرو اور پھر اس کا ایک قلیل حصّہ دے کر چھوٹ جائو۔ باقی رقم سے عیاشی کرو اور کرپشن سے پاک معاشرے کا نعرہ لگانے والوں کا مذاق اڑائو۔ ایک طرف بلوچستان کی حالت زار یہ ہے کہ غربت اور بے روزگاری کے لحاظ سے پاکستان کے چاروں صوبوں میں یہ سرفہرست ہے۔ بلوچستان میں کوئٹہ کے سوا کہیں روزگار کے مواقع ہی موجود نہیں ہیں۔ بلوچستان کی آدھی آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ایک سروے کے مطابق52 فیصد گھرانے معاشی اعتبار سے انتہائی دگرگوں حالات سے دوچار ہیں۔ دوسری طرف اس صوبے کا ایک بیورو کریٹ اربوں روپے کی کرپشن کا مرتکب ہوتا ہے، اس کے گھر سے کروڑوں روپیہ برآمد ہوتا ہے۔ اربوں روپے مالیت کے ہیرے جواہرات اور 12لگژری بنگلے اس سے الگ اس بیورو کریٹ کے نام پر نکلے۔ بلوچستان میں جہالت‘ عدم تحفظ‘ غربت، بے روزگاری کا راج ہے اور ادھر مشتاق رئیسانی کی اربوں روپے مالیت کی کرپشن دو انتہائیں ہیں! اس سے بلوچستان کی حالتِ زار کی وجوہات کا بھی پتا چلتا ہے۔ اتنے بڑے قومی مجرم اور خزانے کے لٹیرے کو 2 ارب لے کر چھوڑ دینا پوری قوم کے ساتھ گھنائونا مذاق ہے، کُھلا 
دھوکہ ہے۔ رئیسانی کی میگا کرپشن اس ملک کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے مگر اس سے بھی بڑا دھوکہ اور دھچکا احتساب کے نام پر بنائے گئے قومی ادارے کی کارکردگی ہے‘ جس نے پلی بارگین کے نام پر لٹیروں کو شرافت کے سرٹیفکیٹ دینا شروع کر دیتے ہیں ؎
مصائب اور تھے پر جی کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے
افسوس! پاکستان کا نعرہ جمہوریت‘ جمہوریت اور جمہوریت کی بجائے اب کرپشن کرپشن اور کرپشن بن چکا ہے۔ یقین نہ آئے تو ایک منظر اور دیکھ لیں۔ گزشتہ آٹھ برس سے پاکستان پیپلز پارٹی کے زیر حکومت صوبہ سندھ مسائل کی آماجگاہ بنتا چلا گیا۔ کراچی‘ کچراچی ہو گیا۔ تھر کے بدقسمت باسی چپ چاپ مرتے رہے۔ ایک طرف قحط‘ بھوک، بیماری اور دوسری طرف بے حسی، عیاشی اور کرپشن۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی ڈور مفاہمت کی جن انگلیوں سے بندھی ہے ان کے اشارے پر کٹھ پتلیاں رقص کرتی ہیں۔ زرداروں کا زرداری سب پر بھاری ہے۔ ان کا استقبال قومی خزانے سے کروڑوں روپیہ لگا کر کیا گیا۔ بریانی کی ایک پلیٹ کے لیے ناچتے ہوئے جیالے اور جواب میں مفاہمت کی سیاست کے جادوگر کی فضا میں اٹھی ہوئی دو انگلیاں ... فتح کا نشان بناتی ہوئی۔۔۔۔ چہرے پر دائمی مسکراہٹ، ایک اطمینان کہ اس سرزمین پر حکومت کرنا کتنا آسان ہے۔ یہاں این آر او میسر ہے اور پلی بارگین بھی۔ یہاں کرپشن کا علاج مزید کرپشن سے ممکن ہے۔
کیا یہ قائدؒ کا پاکستان ہے؟ نہیں ہرگز نہیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved