تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     26-12-2016

ملتان کے انتخابی جوڑ توڑ اور شاہ جی کی شرط

ملتان میں بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کے انتخاب میں وہی کچھ ہوا جس کی امید تھی۔ چیئرمین ضلع کونسل اور میئر کے عہدوں پر مسلم لیگ ن کے امیدوار بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گئے۔ پاکستان کی بلدیاتی سیاست میں یہ کوئی خلاف معمول قسم کا واقعہ نہیں۔ آزاد کشمیر میں عموماً اس پارٹی کی حکومت بنتی ہے جس پارٹی کی اسلام آباد میں حکومت ہو۔ یعنی پاکستان میں وفاقی حکومت بنانے والی پارٹی کی کشمیر برانچ مظفر آباد میں اپنی حکومت بناتی ہے۔ سب کو معلوم ہوتا ہے کہ سارے فنڈز اسلام آباد سے آتے ہیں، لہٰذا لوگ سمجھدار ہیں، وہ اسلام آباد کی حکومت کی پیروی کرتے ہوئے آزاد جموں و کشمیر میں اسی پارٹی کو کامیاب کرواتے ہیں اور من کی مراد بصورت ترقیاتی و غیر ترقیاتی فنڈز پاتے ہیں۔
اِدھر بھی یہی حال ہے۔ بلدیاتی اداروں کی تشکیل میں صوبائی حکومت کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے اور انتخابی مہم‘ جوڑ توڑ‘ انتخابی نشان‘ انتظامیہ کی مدد‘ آزاد امیدواروں کی بعد از الیکشن سرکاری پارٹی میں شمولیت‘ ترقیاتی فنڈز کی امیدیں اور ہمارا ازلی لوٹاپن۔ یہ سارے عوامل مل کر برسر اقتدار صوبائی حکومت کو بھر پور مدد فراہم کرتے ہیں اور یوں بلدیاتی اداروں میں حکومتی حمایت یافتہ سربراہان کی جیت کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔ یہی کچھ پنجاب میں ہوا ہے تاہم اسے آپ دھاندلی نہیں کہہ سکتے۔ یہ الیکشن کا وہ میکنزم ہے جسے عوامی پذیرائی حاصل ہے اور یہ اب ہمارے بلدیاتی انتخابات کا بنیادی پیٹرن بھی ہے۔
ماضی میں بھی اور اب بھی بعض جگہوں پر استثنائی صورتحال پیش آ جاتی ہے۔ جیسے ماضی میں ضلع کونسل مظفرگڑھ میں سردار قیوم خان جتوئی، چوہدری پرویز الٰہی کے زمانے میں ق لیگ کے امیدوار کو ہرا کر چیئرمین ضلع کونسل بن گیا۔ سردار قیوم جتوئی کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا۔ اسی طرح اس بار وہاڑی شہر کی میونسپل کمیٹی کے چیئرمین کے عہدے پر مسلم لیگ ن کی تمام تر کوشش اور مخالفت کے باوجود مسلم لیگ ن میں ہی شامل ہونے والے ایم این اے طاہر اقبال چوہدری کا نامزد کردہ پینل جیت گیا ہے۔ حالانکہ تہمینہ دولتانہ‘ میاں ثاقب خورشید اور دوسرے تمام مسلم لیگی منتخب نمائندے ایک طرف تھے اور ان کے امیدوار کے پاس شیر کا نشان بھی تھا مگر طاہر اقبال کا گروپ جیت گیا۔ یہ استثنائی صورتحال ہے وگرنہ عموماً ایسا نہیں ہوتا؛ تاہم درمیان میں کچھ اور بھی ایسا ہوتا ہے جس کی بظاہر امید نہیں ہوتی۔ مثلاً اس بار رحیم یار خان ڈسٹرکٹ کونسل میں جو ہوا ہے میرے اس تھیسس کی مکمل ترجمانی کرتا ہے۔
شاید ضلع رحیم یار خان پنجاب میں واحد ضلع تھا جہاں سے پیپلز پارٹی نے 2013ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی دو نشستیں حاصل کیں۔ یہ وہ حلقے این اے192اور این اے 195رحیم یار خاں 1 اور 5 تھے۔ یہاں سے علی الترتیب خواجہ غلام رسول کوریجہ اور مخدوم احمد محمود کے فرزند مخدوم سید مصطفیٰ محمود جیتے تھے۔ یہاں بلدیاتی انتخابات میں محمود احمد گروپ کو ضلع کونسل میں اکثریت تھی مگر چیئرمین کا الیکشن آتے آتے یہ اکثریت اقلیت میں بدل گئی اور مخدوم احمد محمود کے گروپ کو شکست ہوئی اور مسلم لیگ ن کے امیدوار فتح یاب ٹھہرے۔
ہار جیت الیکشن کا حصہ ہے اور سب جگہ یہی ہوا اور ملتان میں بھی۔ لیکن ملتان میں وہ کچھ بھی ہوا جو ملتان میں ہوتا آیا ہے۔ ملتان میں ضلع کونسل کے الیکشن سے ایک روز پہلے تک صورتحال تھوڑی پیچیدہ تھی کہ مسلم لیگ ن کے امیدوار کے کاغذات مسترد ہو گئے تھے اور اس کا کوئی کورنگ امیدوار بھی نہیں تھا اور ایسی صورتحال میں پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی والے خوامخواہ خوشیاں منا رہے تھے؛ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ دونوں کے پاس علیحدہ علیحدہ تو ایک طرف اکٹھے مل کر بھی ہائوس کے اکیاون فیصد ووٹ نہ تھے۔ ایسی صورتحال میں الیکشن سسی کنارے نہیں لگ سکتا تھا؛ تاہم دونوں پارٹیاں دل ہی دل میں خوش ہو رہی تھیں لیکن ان کی یہ عارضی خوشی بھی اگلے روز غائب ہو گئی اور عدالت عالیہ نے دیوان عباس بخاری کو الیکشن لڑنے کی اجازت عطا کر دی۔
ضلع کونسل کے الیکشن کے نتائج کے مطابق چیئرمین ضلع کونسل کے لیے مسلم لیگ کے امیدوار دیوان عباس بخاری نے ننانوے ووٹ لیے جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار غلام دستگیر اٹھنگل نے پچیس اور تحریک انصاف کے عمر فاروق نے صرف چودہ ووٹ حاصل کئے۔ لوٹا ازم کے خلاف میدان میں آنے والی اور نیا پاکستان بنانے کی دعویدار پارٹی کے ساتھ سب سے بری ہوئی۔ بری یہ نہیں ہوئی کہ تحریک انصاف تیسرے نمبر پر آئی بلکہ ہوا یہ کہ بلدیاتی انتخابات میں تیرہ چیئرمینوں کی کامیابی کے بعد دو آزاد چیئرمین یونین کونسل نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور مخصوص نشستوں پر تین رکن مزید منتخب ہوئے۔ اس طرح تحریک انصاف کے پاس کل اٹھارہ ووٹ تھے اور اس میں سے انہوں نے چودہ ووٹ حاصل کیے جبکہ دوسری طرف پیپلز پارٹی نے بلدیاتی انتخابات میں ضلع کونسل کی گیارہ نشستیں تیر کے نشان پر جیتیں اور ایک مخصوص نشست (اقلیتی) پر کامیابی حاصل کر کے کل بارہ نشستیں بٹوریں۔
اس نتیجے سے جہاں تحریک انصاف کے چیئرمینوں کی وفاداری کا معیار کھل کر سامنے آیا وہیں ملتان سے تعلق رکھنے والے مخدوم شاہ محمود کی انتخابی صلاحیتوں اور مقامی سطح پر جوڑ توڑ کی صلاحیتیں بھی سب پر عیاں ہو گئیں۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی نے ایوان میں موجود اپنے بارہ ووٹوں کے ساتھ چیئرمین ضلع کونسل پر پچیس ووٹ حاصل کر کے اپنی مقبولیت میں تو کوئی فرق نہ ڈالا مگر انتخابی جوڑ توڑ میں سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اپنی سیاسی صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ کیا۔ پیپلز پارٹی نے اپنے حقیقی ووٹوں سے دوگنے ووٹ حاصل کئے۔ یہ ساری صورتحال اس بات کی غماز ہے کہ ملتان میں ہونے والے ضلع کونسل کے الیکشن میں سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے پتے بڑی خوبصورتی سے کھیلے اور محض بارہ ووٹوں کی موجودگی میں تیرہ مزید ووٹ حاصل کر کے اپنا ٹوٹل سکور پچیس تک پہنچایا جبکہ ملتان کے سابق ناظم ضلع اور تحریک انصاف کے سینئر نائب صدر مخدوم شاہ محمود اپنے حاصل کردہ اٹھارہ ووٹ پوری طرح نہ سنبھال سکے اور ان میں سے بھی چار ووٹ مخالفین لے اڑے اور یوں تحریک انصاف کی قیادت کی انتظامی اور انتخابی صلاحیتیں بھی کھل کر سب کے سامنے آ گئیں اور نیا پاکستان بنانے کے دعویداروںکے یونین کونسل کے چیئرمینوں کا اخلاقی معیار بھی سب پر عیاں ہو گیا۔
ملتان میں ضلع کونسل میں شاہ محمود کی نسبت ابراہیم خان کا زیادہ ہولڈ نظر آیا اور پینل بناتے ہوئے ابراہیم خان گروپ نے اپنی برتری سب پر واضح کر دی اور شاہ محمود کے زیادہ قریب چیئرمین مایوسی کا شکار نظر آئے اور اسی دوران مخدوم شاہ محمود کے پرانے ساتھی اور سیاسی حلیف ملک عباس راں تقریباً تیس سالہ پرانی رفاقت چھوڑ کر دوبارہ پیپلز پارٹی کی طرف کھسک گئے۔ اس کے ساتھ ہی دو چیئرمین یونین کونسل بھی دوسری طرف سلپ ہو گئے۔ شاہ محمود قریشی کے آبائی حلقہ این اے 148سے پی ٹی آئی کے نو چیئرمین منتخب ہوئے تھے جبکہ دوسرے حلقے سے چار چیئرمین جیتے تھے۔ کل تیرہ چیئرمین بلے کے انتخابی نشان پر کامیاب ہوئے، دو آزاد ارکان نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اور تین لوگ مخصوص نشستوں پر کامیاب ہوئے۔
اس الیکشن کے دوران سید یوسف رضا گیلانی مسلسل ملتان میں موجود رہے اور پوری طرح متحرک رہے اور اس ساری بھاگ دوڑ اور جوڑ توڑ کا نتیجہ تیرہ اضافی ووٹوں کی صورت میں سامنے آیا حالانکہ ان تیرہ نئے ووٹوں پر یہ بات واضح تھی کہ شکست ان کا مقدر ہے مگر انہوں نے نوشتہ دیوار پڑھنے کے باوجود پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیا اور ایوان میں افرادی تعداد کے حوالے سے تیسرے نمبر پر آنے والی سیاسی جماعت نے چیئرمین کے الیکشن میں اپنی پارٹی پوزیشن بہتر کی اور دوسرے نمبر پر آئی جبکہ دوسرے نمبر پر آنے والی سیاسی جماعت تحریک انصاف چیئرمین ضلع کونسل کے الیکشن میں اپنی دوسری پوزیشن سے تیسری پر آ گئی۔
ملتان میں عام تاثر یہی ہے کہ یہ ابراہیم خان اور شاہ محمود قریشی کی باہمی چپقلش کا نتیجہ تھا کہ تحریک انصاف کے ساتھ یہ ہوا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خود شاہ محمود کی پوزیشن اب ملتان کے حلقہ این اے150میں ویسی نہیں ہے جیسی2013ء میں تھی اور وہ وہاں سے جیت گئے تھے۔ اب ان کا اس حلقے سے جیتنا آسان نہیں ہو گا بلکہ صورتحال اس سے بھی کہیں خراب ہے جتنی بظاہر نظر آ رہی ہے۔ حلقہ این اے 148سے تو وہ اس حد تک مایوس ہیں کہ مخالف جیتنے والے امیدوار غفار ڈوگر کے خلاف عدالت میں ٹھیک طرح کیس کی پیروی بھی نہیں کر رہے کہ اگر وہ نااہل ہو گیا تو ضمنی الیکشن میں بھی کامیابی کی امید نظر نہیں آ رہی۔
بقول شاہ صاحب کے، شاہ محمود مسلم لیگ ن میں جا رہا ہے کہ تحریک انصاف میں اس کی اندرونی پوزیشن روز بروز خراب ہوتی جا رہی ہے اور سیاسی میدان میں تحریک انصاف کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ شاہ جی نے مجھے دوبارہ اکسایا کہ میں اس سے اس بات پر شرط لگا لوں تاہم میں نے دو وجہ سے شرط نہیں لگائی۔ پہلی یہ کہ شاہ محمود قریشی سے بات بعید از قیاس بھی نہیں اور دوسری وجہ یہ کہ شاہ جی سے شرط لگانا سراسر گھاٹے کا سودا ہے کہ وہ شرط ہار جائے تو صاف مکر جاتا ہے۔ بھلا ایسے بندے سے کیا شرط لگائی جا سکتی ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved