میڈیا کے اکھاڑے میں سیاسی جماعتیں اپنے اپنے ''باتوں کے پہلوان‘‘ اتارتی رہتی ہیں۔ یہ عمل ٹی وی کے ٹاک شوز میں بھی دکھائی دیتا ہے اور پارلیمنٹ کے باہر بنے ہوئے چھجّے کے نیچے بھی۔ سیاسی اور دینی جماعتوں کا مشترکہ سیاسی و معاشرتی ''عقیدہ‘‘ یہ ہے کہ اللہ نے منہ دیا ہے تو کفرانِ نعمت نہ کیا جائے یعنی اِسے ہر وقت بروئے کار لایا جائے، مصروف رکھا جائے۔ گویا کچھ نہ کچھ بولتے رہنے اور ہنگامہ برپا کرتے رہنے ہی پر گھر کی رونق موقوف ہے!
پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں ہی بڑبولے پن کے مرض میں مبتلا رہی ہیں۔ تحریکِ انصاف نے بھی چند ایک بولنے والے پیدا کیے ہیں مگر ابھی وہ اطفالِ مکتب ہیں۔ اُنہیں بہت کچھ سیکھنا ہے۔ اُن کی طرف سے شیخ رشید نے بولنے کا حق ادا کرنے کی کوشش کئی بار کی ہے اور انفرادی حیثیت میں داد بھی پائی ہے۔ داد پانے کے لیے پی ٹی آئی کو اپنے بندے خود تیار کرنے پڑیں گے۔
سابق سینیٹر اور وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر اطلاعات مولا بخش چانڈیو بھی ہمارے اُن مہربانوں میں سے ہیں جن کے کہے کو اُچک کر ہم کالم ترتیب دے لیا کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے کسی معاملے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ نے چند رونے والیاں پال رکھی ہیں۔ اور یہ کہ ان کا کام ہی بات بے بات رونا اور سَر پیٹنا ہے۔ اُن کا اشارہ یقینی طور پر عابد شیر علی، پرویز رشید، خواجہ سعد رفیق، مشاہد اللہ خان، خواجہ آصف، دانیال عزیز، طلال چوہدری وغیرہ کی طرف تھا۔ اِن احباب کے دم سے ٹی وی اسکرین آگ اگلتی رہتی ہے! ن لیگ کی اس ''انجمنِ محبّانِ قوتِ گویائی‘‘ کے مقابل پیپلز پارٹی کی طرف سے مولا بخش چانڈیو کے ساتھ ساتھ شرجیل انعام میمن بھی فعال رہا کرتے تھے اور شازیہ مری بھی۔ شرجیل میمن کو تو حالات نے خاموش کردیا۔ اور شازیہ مری بھی پہلی سی فعال نہیں رہیں۔ رہیں شرمیلا فاروقی تو وہ بھی شادی کے بعد غیر متعلق معاملات میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہیں۔ ایسے میں مولا بخش چانڈیو رہ گئے ہیں۔ اللہ انہیں سلامت رکھے کہ ن لیگ کا سامنا تقریباً تنِ تنہا کر رہے ہیں اور اِس خوبی کے ساتھ کہ کبھی کبھار ہی کوئی کمی محسوس ہوتی ہے!
1973 میں ریلیز ہونے والی فلم ''انجمن‘‘ میں مرکزی کردار رانی نے ادا کیا تھا۔ ان پر فلمائے جانے والے کلائمیکس کے گانے کا مکھڑا تھا ؎
اظہار بھی مشکل ہے، چُپ رہ بھی نہیں سکتے
مجبور ہیں اُف اللہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے
ملکۂ ترنم نور جہاں کی آواز میں رانی کی مجبوری یہ تھی کہ وہ کہہ نہیں سکتی تھی۔ ذرا دیکھیے، حالات نے اِس مکھڑے کے مصرعِ ثانی کو کتنی سفّاکی سے بدل دیا ہے۔ ع
مجبور ہیں اُف اللہ چُپ رہ بھی نہیں سکتے!
ہم نے مرزا تنقید بیگ کے سامنے جب یہ بات رکھی تو وہ میڈیا کے ذریعے قوم پر برسنے والوں کی خبر لینے کے بجائے ہم پر ہی برس پڑے۔ ''کالم نگاری نے تمہارے فطری رجحان کو خوب پروان چڑھایا ہے۔ پہلے تم ہر معاملے میں عیب تلاش کیا کرتے تھے۔ اب ہر معاملے میں عیب ثابت کرنے کی کوشش کرتے نہیں تھکتے۔ اور اگر کسی معاملے میں کوئی خرابی پائی نہ جاتی ہو تو تم اپنی محنت سے اُس میں کوئی نہ کوئی خرابی پیدا کرکے دم لیتے ہو۔‘‘
ہم نے ذرا بھی ناراض ہوئے بغیر وضاحت طلب کی کہ آخر ہم سے ایسا کیا قصور سرزد ہوگیا ہے کہ آپ یوں گرجتے برستے جارہے ہیں۔ مرزا نے وضاحت نواز لہجے میں کہا ''دیکھو میاں! یہاں لوگوں کی روزی روٹی لگی ہوئی ہے اور تم ہو کہ اُن کی راہ میں روڑے اٹکانے کی بات کرتے ہو۔ یہاں تو سارا رونق میلہ ہی بولنے، بلکہ بولتے رہنے کے دم سے ہے۔ کوئی اگر دوچار گھڑی بھی کچھ نہ بولے تو اپنے آپ کو مرا ہوا محسوس کرنے لگتا ہے یا کم از کم منہ کو تو مردہ سمجھ ہی لیتا ہے! ایسے میں تم کہتے ہو کہ لوگ سوچ سمجھ کر اور کم کم بولا کریں۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ تم تو چاہتے ہو کہ کوئی کچھ نہ کہے یا کہے تو حساب کتاب سے، چھان پھٹک اور تول کر۔ اگر ایسا ہو تو بس ہوچکی سیاست اور چل چکی میڈیا کی گاڑی۔ اگر تم جیسے دو چار اور پیدا ہوجائیں تو سیاسی سرکس کی ساری اُچھل کود ہی بوریا بستر لپیٹ کر چل دے۔‘‘
مرزا کی تو سرشت ہی میں لکھا دیا گیا ہے کہ ہر معاملے میں ہم سے اختلاف کریں اور بالکل سامنے کی بات کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کردیں۔ ہم نے عرض کیا کہ قوم کو رونے والوں کی ضرورت ہے نہ رونے والیوں کی۔ مولا بخش چانڈیو ٹھیک ہی تو کہہ رہے ہیں۔ رونے والیاں پالنے کے بجائے ایسے لوگ سامنے لائے جائیں جو کسی بھی معاملے کا مثبت پہلو تلاش کرکے قوم کو تعمیری سوچ کا حامل ہونے میں مدد دیں۔
مرزا پھر پھٹ پڑے ''قوم قوم کیے جارہے ہو، ذرا قوم سے بھی تو پوچھو کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ قوم کا عالم یہ ہے کہ بات بات پر لشکارے مانگتی ہے، ہر معاملے میں 'ششکے‘ چاہتی ہے۔ قوم کے کانوں کو بڑھک کا چسکہ لگ چکا ہے۔ سیاست دان ہوں یا فنکار ... یا کوئی اور، اگر کوئی سیدھی بات کر رہا ہو تو لوگ دو گھڑی بھی نہیں سنتے۔ حد یہ ہے کہ اب دین کی بات بھی اُن کے منہ سے اچھی لگتی ہے جو گھن گرج والا لہجہ رکھتے ہوں! کسی بھی معاملے میں نرمی، شائستگی اور سادگی سے کہی جانے والی بات سماعت کے سَر سے گزر جاتی ہے۔‘‘
ہم نے عرض کیا کہ یہ روش کسی بھی طور پسندیدہ تو نہیں۔ گفتگو شائستگی اور سادگی کے دائرے ہی میں بھلی لگتی ہے۔ سیدھی سے بات کو چیختے چنگھاڑتے لہجے میں، رو پیٹ کر کہنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
مرزا کی غضب ناکی جاری رہی۔ ''تم نہیں مانوگے۔ بھائی، یہاں ہر معاملے کی طرح بولنے کے معاملے میں بھی آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ اور اس بگاڑ میں ہی یاروں کے مزے ہوگئے ہیں اور تم ہو کہ اس آوے کو درست کرنے کے چکر میں ہو۔‘‘
ہم نے دست بستہ عرض کیا کہ مولا بخش چانڈیو نے رونے والیوں کی نشاندہی کرکے ایک بڑا مسئلہ بیان کیا ہے۔ اگر بات بے بات رائی کا پربت بنانے اور ہر معاملے میں میڈیا کے سامنے آکر سینہ کوبی سے گریز کیا جائے تو کیا ہرج ہے؟ قوم کو مسائل کا حل چاہیے نہ کہ گریہ و زاری۔
مرزا نے مزید تنک کر کہا۔ ''ٹھیک ہے، رونے والیوں پر پابندی ہونی چاہیے مگر مولا بخش چانڈیو کس قبیل میں ہیں؟ وہ بھی تو پیپلز پارٹی کی قیادت کی طرف سے رونے والی کے منصب ہی پر فائز ہیں! وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر اگر ن لیگ کی رونے والیوں کا رونا رو رہے ہیں تو ذرا اپنے بارے میں بھی کچھ ارشاد فرمائیں۔ معاملہ یہ ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں کچھ کر دکھانے اور عوام کے مسائل حل کرنے کی طرف مائل ہونے کے بجائے ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ مطعون کرنے کے لیے میڈیا پر اصیل بڑبولے مرغے لڑاتی ہیں۔ اگر دونوں بڑی جماعتیں سنجیدہ ہوتیں تو یومیہ بنیاد پر غزل اور جوابِ آں غزل کا سلسلہ اِس قدر طول نہ پکڑتا۔ مگر خیر، اب کیا ہوسکتا ہے۔ اب تو چڑیاں کھیت چُگ گئی ہیں۔ سانپ نکل گیا ہے اور اب ہمارے پاس صرف لکیر پیٹنے کا آپشن رہ گیا ہے۔ اب اِسی پر گزارا کرو۔ اور تمہارا کیا ہے، تم تو کالم نگاری کے ذریعے بھی کچھ نہ کچھ دل کا بوجھ ہلکا کرلیتے ہو اور اپنے ذہن کی گند دوسروں پر ڈال دیتے ہو۔ ذرا بتاؤ کہ ہم کیا کریں، کہاں جائیں اور کس سے فریاد کریں؟‘‘
مرزا کی بات میں خدا جانے ایسا کیا تھا کہ ہمارے پاس خاموش ہو رہنے کے سوا آپشن نہ رہا۔ مرزا نے جس تماشے کا ذکر کیا وہ ہم تقریباً ڈیڑھ عشرے سے دیکھ رہے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ہم بھی اب اس رونق میلے کے عادی ہوگئے ہیں اور اسی میں سے کالم نگاری کے لیے خام مال تلاش کرتے رہتے ہیں۔ رہ گیا مولا بخش چانڈیو کو بھی رونے والی قرار دینے کا معاملہ تو جناب، سچ یہ ہے کہ مرزا کی بات سن کر ہم دم بخود رہ گئے۔ ہم مولا بخش چانڈیو کو اِس درجے میں نہیں رکھ سکتے کیونکہ ہمیں اسکول کے زمانے کا مولا بخش یاد آگیا ہے!