تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     27-12-2016

گربہ کُشتن‘ روز اوّل

پاکستان میں جمہوریت کے حامی اور مخالف یہ بحث کرتے تھک گئے کہ کون سا طرز حکومت اس اسلامی جمہوریہ کے لیے مفید ہے۔ مروّجہ جمہوریت کے مخالفین اقبالؒ سے استدلال کرتے کہ ؎
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں‘ تولا نہیں کرتے
جبکہ روایتی جمہوریت پسندوں کا ایک ہی نعرہ رہا کہ'' بدترین جمہوریت ‘بہترین آمریت سے بہتر ہے‘‘۔ مگر مسلم لیگ نون اور شریف برادران قابل داد ہیں کہ پنجاب میں ضلعی حکومتوں کے سربراہوں کے انتخابات میں انہوں نے بندوں کو گنا نہ تولا‘ اکثریت‘ اقلیت کے فلسفے کو بھی کوڑے دان میں ڈالا اور ''جو پیا من بھائے وہی سہاگن‘‘ کا اُصول اپنایا۔ پنجاب کے ایک صوبائی وزیر انتخابات سے قبل شکوہ کناں تھے کہ ہمارے گروپ کو بتیس ارکان کی حمایت حاصل ہے‘ مگر فیصلہ ساز مُصر ہیں کہ اٹھارہ ارکان پر مشتمل مخالف دھڑے کا سربراہ چیئرمین ہو گا اور وہ ہو کر رہا۔ اب کوئی اپنی جماعتی خدمات کا ڈھنڈورا پیٹ سکتا ہے نہ اہلیت و صلاحیت اور دیانتداری کا اور نہ عوامی خدمت کا۔
2008ء کے این آر او مارکہ انتخابات میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی تو جیالوں کے سوکھے دھانوں پر اوس پڑ گئی۔ کسی کو بی بی سے قربت پر فخر تھا‘ کوئی پارٹی سے وفاداری کو اپنا اثاثہ سمجھتا تھا اور کوئی نوازشریف و پرویز مشرف دور میں ڈٹے رہنے پر نازاں و فرحاں‘ مگر جب ان میں سے کسی کو زرداری صاحب نے شرف باریابی بخشا تو خدمات کی فہرست پیش کرنے سے قبل اسے یہ کہہ کر چُپ کرا دیا کہ پارٹی کو اقتدار آپ کی قربانیوں اور دیوانہ وار جدوجہد کے سبب نہیں‘ کنڈولیزا رائس کی مہربانی اور این آر اوکے طفیل ملا‘ لہٰذا اپنا بستہ بند ہی رکھو۔ بعض پرانے رہنمائوں کو وہ بی بی کے جہیز میں ملنے والی سوغات قرار دیتے۔
پنجاب میں ارکان اسمبلی و ضلعی حکومتوں کے سربراہوں کو بھی وقتاً فوقتاً یہ جتلانا ضروری سمجھا جاتا ہے کہ ان کی کامیابی عوامی خدمات کا نتیجہ ہے‘ نہ ذات برادری اور جوڑ توڑ کا ثمر اور نہ مسلم لیگ کی عوامی مقبولیت اور اثرورسوخ کا صدقہ۔ ''شریف برادران کی مقبولیت کے طفیل انہیں یہ کامیابی ملی ‘سو انہیں زندگی بھر یہ بات نہیں بھولنی چاہیے‘‘۔ صرف مسلم لیگ ہی نہیں باقی جماعتوں میں بھی یہی سوچ کارفرما ہے۔ تحریک انصاف عمران خان کا دوسرا نام‘ پیپلز پارٹی پہلے بھٹو اور اب زرداری خاندان کی غلام بے دام اور اے این پی ولی خان کے سپوت کی مقبوضہ و مملوکہ۔ کسی سیاسی جماعت میں بھلا کیسے ممکن ہے کہ سندھ کے معاملات بہن اور بھائی یا پھوپھی اور چھوٹی بہن کے سپرد کر کے پارٹی سربراہ جمہوریت کا علم بلند کرے۔پاکستان میں مگر سب چلتا ہے۔
پنجاب کی سہاگنیں ابھی کامیابی کا جشن بھی نہیں منا پائی تھیں اور انہیں اپنے دفاتر میں بیٹھ کر مبارک بادیں وصول کرنے کا موقع نہیں ملا تھا کہ حکومت نے سول ایڈمنسٹریشن آرڈیننس 2016ء جاری کر کے ان کی کم مائیگی اور محرومی کے احساس میں مزید اضافہ کر دیا۔ نئے آرڈی ننس کے تحت ضلع کی سطح پر سرکاری دفتر کا سربراہ ڈپٹی کمشنر ہو گا اور وہی تمام محکموں بشمول پولیس کو احکامات جاری کرے گا۔ گویا ہمارے جمہوری حکمران‘ اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے صنم کو بھی معتبر و بااختیار دیکھنا چاہتے ہیں نہ ان بے چاروں کو اس قابل سمجھتے ہیں کہ ڈپٹی کمشنر بہادر کی مرضی کے بغیر اپنے شہر‘ ضلع‘ ٹائون و یونین کی سطح پر وسائل تقسیم اور عوامی فلاح و بہبود کے فیصلے کر سکیں۔ ڈپٹی کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس کے عہدے انگریز دور میں تخلیق ہوئے اور برصغیر کے عوام کو ان سرکاری منصب داروں کے ذریعے جانوروں کی طرح سدھا کر بدیسی حکمرانوں کی غلامی و وفاداری پر آمادہ کیا گیا۔ الطاف گوہر راوی ہیں کہ نواب آف کالا باغ امیر محمد خان ترنگ میں آ کر قیام پاکستان سے قبل تاج برطانیہ کے نمائندے کے طور پر ڈپٹی کمشنر کی قوت و ہیبت کی تصویر کشی کیا کرتے تھے: ''عیدین‘ کرسمس اور دیگر اہم تہواروں پر ہر ضلع کے تمندار‘ جاگیردار اور مالدار افراد اکٹھے ہوتے ‘مٹھائی کے ٹوکرے ان کے ملازمین اٹھاتے‘ رُخ ان کا ڈی سی ہائوس کی طرف ہوتا‘ جہاں ان معززین علاقہ کے لیے عملے نے شامیانے لگا رکھے ہوتے‘ اونچے شملے والی پگڑیوں‘ شیروانیوں اور نئے جوتوں میں ملبوس یہ شرفا گرمی‘ سردی کی پروا کئے بغیر صبح صبح وہاں جمع ہوتے اور صاحب بہادر کی آمد کا انتظار کرتے۔ گھنٹہ دو گھنٹہ انتظار کے بعد چوبدار آ کر پوچھتا کہ آمد کا مقصد کیا ہے؟ ' سلام عرض کرنے‘ عید‘ کرسمس کی مبارکباد‘ برطانوی اقتدار کو دعائیں دینے کے لیے دیرینہ تابعدار و وفادار حاضر ہیں‘۔ چوبدار واپس جاتا اور آ کر اعلان کرتا کہ 'صاحب بولتا سلام اور مبارکباد قبول‘ اب تُم لوگ جائو! صاحب آرام کرنا مانگتا‘۔ ہم خوشی سے اُچھل پڑتے‘ ایک دوسرے سے بغل گیر ہو کر مبارک سلامت کہتے کہ ڈپٹی کمشنر بہادر نے شرف باریابی بخشا اور حاضری قبول ہوئی‘‘۔
انگریز ڈپٹی کمشنر، رہے نہ پاکستان غلام ملک ہے مگر ہر با اختیار کے سامنے سر جھکانے والے دیہی و شہری وڈیرے موجود ہیں اور ڈپٹی کمشنر کے ذریعے عوام اور ان کے منتخب نمائندوں پر حکمرانی کا مزہ لینے والے کاٹھے انگریز بھی‘ جو نام جمہوریت کا لیتے ‘ سلطانی جمہور کا ورد کرتے اور پرویز مشرف کی ہجو میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں مگر جنہیں پسند انگریز دور کے منصب اور نوآبادی دور کی یادگار بلدیاتی نظام ہے۔ اس نظام میں طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں بلکہ انیسویں صدی کے وہ عہدیدار اور کالے قوانین ہیں جو برصغیر کے عوام کو قابو میں رکھنے کے لیے وضع ہوئے اور اب دنیا کے کسی خطے، حتیٰ کہ افریقی ممالک میں بھی موجود نہیں۔ برطانیہ میں اگر کوئی پاکستانی ڈپٹی کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس کے منصب کا سراغ لگانا چاہے تو اسے پاگل خانے کی ہوا کھانی پڑے گی مگر پاکستان میں موروثی اور خاندانی طرز حکومت کو مضبوط بنانے کے لیے جنرل پرویز مشرف عہد کا نسبتاً بہتر‘ بااختیار اور عوام دوست نظام ختم کر کے ایک تو 1979ء کا بلدیاتی نظام نافذ کیا گیا مگر اس سے بھی تشفی نہ ہوئی تو بااختیار ڈپٹی کمشنر کو اضلاع پر مسلّط کر کے انگریز دور کی یاد تازہ کی گئی۔ 
پرویز مشرف دور کا بلدیاتی نظام مثالی نہ تھا‘ خامیاں اس میں تھیں اور 2002ء کے انتخابات کے بعد منتخب حکومتوں نے اس کا حلیہ بگاڑ دیا‘ مگر اس نظام کا خوش آیند پہلو یہ تھا کہ عوامی نمائندوں کو اضلاع‘ تحصیل اور ٹائون کی سطح پر اختیارات اور مالی وسائل پر دسترس حاصل ہوئی اور عام شہری اپنے مسائل منتخب نمائندوں کے ذریعے حل کرنے لگے۔ کرپشن اس دور میں ہوئی مگر اتنی ہی جتنی پہلے یا بعد میں منتخب عوامی نمائندوں نے کی۔ تاہم آہستہ آہستہ اصلاح ہونے لگی تھی اور بیورو کریسی کی گرفت کمزور پڑنے سے عوام میں حکومتِ خود اختیاری کا جذبہ پروان چڑھنے لگا تھا۔ عوامی نمائندوں کے لیے تعلیم کی شرط‘ دو بار سے زیادہ کسی شخص کے وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ بننے پر پابندی اور ضلعی حکومتوں کا قیام‘ فوجی آمر کے تین خوش آئند اقدامات تھے، جنہیں 2008ء میں قائم ہونے والی این آر او مارکہ جمہوریت نے بیک جنبش قلم ختم کر کے پاکستان کو نو آبادیاتی دور میں لاکھڑا کیا اور چند خاندانوں کو اپنا تسلّط قائم کرنے کا موقع ملا۔ پنجاب میں بلدیاتی اداروں کو بے اختیار اور ڈپٹی کمشنر کو با اختیار بنا کر حکومت نے ثابت کیا ہے کہ عوام ابھی اس قابل نہیں کہ وہ بہتر افراد کا انتخاب کر سکیں اور اپنے معاملات مرضی سے چلا سکیں۔ ایوب خان یہ بات کہتے تو سب کو بُرا لگتا‘ مگر اب کسی کو یہ منطق بری لگتی ہے نہ بیورو کریسی کے ذریعے اپنے جائز و ناجائز‘ اچھے بُرے‘ درست غلط احکامات منوانے کی عادت۔ بندوں کو تولنے اور گننے کا زمانہ لد گیا اب ''جو پیا من بھائے وہی سہاگن‘‘ کا دور ہے مگر اعتبار ان سہاگنوں پر بھی نہیں۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ اپنے لیے جو اختیار پسند کرتے ہیں‘ ان کا عشر عشیر بھی اپنے وزیروں اور منتخب عوامی نمائندوں کو دینے پر آمادہ نہیں۔ بھارت میں جمہوریت کو اسّی لاکھ بلدیاتی نمائندوں نے مضبوط کیا مگر یہاں ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کو اختیارات دے کر جمہوری بالادستی کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ یہ سہاگنیںڈپٹی کمشنر صاحب بہادر کے حضور کورنش بجا لایا کریں گی تاکہ حکمران اور ان کے شہزادے‘ شہزادیاں، جونیئر مگر بااختیار و لچکدار افسروں کے ذریعے اپنے احکامات کی تعمیل بلا تاخیر کرا سکیں۔ عوامی نمائندوں کا کیا اعتبار کسی وقت بھی آمادہ بغاوت ہو سکتے ہیں ۔
گربہ کُشتن‘ روز اوّل

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved