بھارت کی قومی سلامتی کے سابق مشیر اور زیرک سفارت کار شیو شنکر مینن نے حال ہی میں شائع ہونے والی اپنی پہلی کتاب Choices: Inside the Making of India's Foreign Policy میں ملک کی سٹریٹجک پالیسی اور درپیش چیلنجز کا احاطہ کیا ہے۔ چونکہ مینن نہ صرف قومی سلامتی کے مشیر بلکہ خارجہ سیکرٹری اور پڑوسی ممالک چین، پاکستان اور سری لنکا میں بھارت کے سفیر بھی رہ چکے ہیں، اس لئے ان کی کتاب خارجہ پالیسی کے حوالے سے منفرد اور اندرونی نقطہ نظر پیش کرتی ہے۔ شہرت، خود نمائی اور میڈیا سے کوسوں دور بھاگنے والے مینن نے کتاب کی رونمائی کے بعد چنیدہ صحافیوں کو ہی انٹرویو کے لئے وقت دیا، جن میں راقم بھی شامل تھا۔
جنوبی دہلی میں ان کی رہائش گاہ کے وسیع ڈرائنگ روم اور لائبریری میں، مَیں نے چھوٹتے ہی پوچھا، آپ نے اپنی کتاب میں وزراء اعظم نرسمہا رائو، اٹل بہاری واجپائی اور من موہن سنگھ کے ادوار میں خارجہ پالیسی میں تسلسل کا ذکر کیا ہے، کیا یہ تسلسل اب ٹوٹ رہا ہے؟ کیونکہ نریندر مودی کی سٹریٹجک اپروچ سے کئی حلقے فکر مند ہیں۔ انہوں نے کہا: ''چونکہ میں نے ان تینوں وزراء اعظم کے ساتھ براہ راست کام کیا ہے، اس لئے میرا تجزیہ یہ ہے کہ وہ دنیا کو ایک ہی نظریے سے دیکھتے تھے، ان کی اپروچ میں خاصی مماثلت تھی۔ ان کا دور حکومت گلوبلائزیشن کے آغاز کا زمانہ تھا، اس لئے ان کی ترجیح بھارت کو اقتصادی طور پر مضبوط کرنا تھی اور عالمی تجارت میں بھارت کی حصہ داری بڑھانی تھی۔ لیکن اب سیاق و سباق میں تبدیلی آ گئی ہے، اگرچہ خارجہ پالیسی کے بنیادی عناصر وہی ہیں۔ موجودہ حکومت نے بھی امریکہ، روس، چین اور پاکستان کے ساتھ وہی کرنے کی کوشش کی ہے جو ہم کر رہے تھے؛ البتہ چین اور پاکستان کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری اور کشیدگی کی وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں کے رویے میں تبدیلی آئی ہے۔ ہم اس وقت خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک نازک دور سے گزر رہے ہیں‘‘۔ 68 سالہ مینن، چین کے حوالے سے بھارت میں حرف آخر سمجھے جاتے ہیں، اس لئے کہ ان کے والد نارائنن مینن، چچا کے پی ایس مینن (جونیئر) اور ان کے والد نسبتی بیجنگ میں بھارت کے سفیر یا سفارت خانے میں کسی دوسرے عہدے پر کام کر چکے ہیں۔ ان کے دادا، کے پی ایس مینن (سینئر) بھارت کے پہلے خارجہ سیکرٹری تھے۔ اس لئے گفتگو کا رخ میں نے چین کی طرف موڑ کر ان سے پوچھا کہ آخر بیجنگ کے حوالے سے بھارت کی پالیسی میں شٖفٹ کیوں آیا ہے؟ معاملات کو سلجھانے کے بجائے الجھایا کیوں جا رہا ہے؟ مینن نے کہا: ''1988ء میں راجیو گاندھی نے مفاہمت کے جو دروازے کھولے تھے، ان میں واضح شگاف نظر آ رہے ہیں۔ ہم نے طے کیا تھا کہ تنازعات کوگفتگو پر حاوی نہیں ہونے دیںگے۔ چنانچہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت 72 بلین ڈالر تک پہنچ گئی۔ ہم نے کئی عالمی فورمز پر مشترکہ مفادات کو بچانے کے لئے اشتراک بھی کیا۔ مگر اب دونوں کے مفادات بدل ہوچکے ہیں۔ 1990ء کے اوائل میں ہم نے معاشی اصلاحات کا بیڑا اٹھایا تو عالمی اقتصادیات یا خارجی تجارت میں ہمارا حصہ صرف 14فیصد تھا، جو اب بڑھ کر 49.3 فیصد ہوگیا ہے۔ یعنی بیرونی عوامل پر ہمارا انحصار بڑھ گیا ہے، اس لئے اشیاء کی ترسیل کے لئے ہمیں آزادانہ اور محفوظ راہداری کی ضرورت ہے۔ جنوبی چین کے سمندر میں آزادانہ راہداری ہماری ضرورت ہے۔ یہ ہماری اقتصادی ترقی کا اہم جز ہے۔ چین ان پانیوں پر اپنا حق جتاتا ہے، جو ایک ایشو ہے۔ 1996ء میں چین کے اس وقت صدر جیانگ زیمن نے اسلام آباد میں قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانیوں کو مشورہ دیا تھا کہ چین سے سبق حاصل کرکے، بھارت کے ساتھ تنازعات کو تجارت کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دیں ۔ مگر اب خود بیجنگ کا رویہ الٹ گیا ہے، وہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور یعنی سی پیک پر 46 بلین ڈالر خرچ کر رہا ہے، جو بھارت کے مفادات کے خلاف ہے۔ دونوں ممالک میں رسہ کشی ہے، اس لئے ماحول بگاڑنے کے بجائے مل بیٹھ کر مشترکہ مفادات کا تعین کرنا ضروری ہے‘‘۔
میں نے پوچھا، سائوتھ چائنا سمندر بھارت سے کئی ہزار کلومیٹر دور ہے، تو آخر بھارت کو کیا سوجھی کہ اس معاملے کو تنازع بنا دیا؟ مینن نے جواب دیا: ''چند برس قبل ہم نے چین کو میری ٹائم یعنی سمندری سکیورٹی معاملات کو سلجھانے کے لئے مشترکہ میکانزم تشکیل دینے کی تجویز پیش کی تھی، جس میں سائوتھ چائنا سمندر کے علاوہ بحر ہند میں بھی آزادانہ نقل وحمل یقینی بنائی جا سکے۔ چین کے مفادات بحر ہند میں نقل و حمل سے وابستہ ہیں کیونکہ ان کا بیشتر خام تیل آبنائے ملاکا سے گزرکر آتا ہے۔ اسی طرح بھارت کے مفادات بھی سائوتھ چائنا سمندر میں نقل و حمل سے وابستہ ہیں‘‘۔ چونکہ قومی سلامتی کے سابق مشیر نے سی پیک کا ذکر بھی کیا تو میں نے اس پر بھارت کے اعتراضات کی وجہ جاننی چاہی؟ میں نے کہا، اس منصوبے میں اڑچنیں ڈالنے کے بھارت اس کا حصہ بن کر خطے کی ترقی میں معاون کیوں نہیں بن سکتا؟ انہوں نے کہا: ''ذاتی طور پر میرا خیال یہ ہے کہ بھارت کو چین کے 'ون بیلٹ ون روڈ‘ یا شاہراہ ریشم کی بحالی میں ان مقامات پر شمولیت اختیارکرنی چاہیے جہاں اس کے معاشی مفادات کی آبیاری ہو سکے۔ یعنی جہاں بھی اس پروجیکٹ کا مقصد اقتصادی ترقی ہے، وہاں بھارت کو یقیناً شامل ہونا چاہیے، مگر میرا یہ بھی خیال ہے کہ سی پیک کو تجارتی فروغ کے بجائے دیگر مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ گوادر سے چین کے اندرونی علاقوں تک شاہراہ کے علاوہ ایک پائپ لائن بھی زیر تعمیر ہے اور اس پائپ لائن سے دیگر ذرائع سے تیل کی ترسیل پر 16.6 فیصد زیادہ خرچ آنے کا امکان ہے۔ اسی طرح کے دیگر عوامل سے ہم یہاں یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہیں کہ اس راہداری کا مقصد فوجی ہے نہ کہ اقتصادی‘‘۔
اگر سی پیک سے خطے کے دور دراز علاقوں کی ترقی کا سامان مہیا ہو جاتا ہے، تو پھر بھارت کوکیوں اعتراض ہے؟ مینن نے کہا، کسی بھی پروجیکٹ میں اگر عوام کی بہبود کا عنصر شامل ہے، تو اس کی حمایت کرنے چاہیے۔ ان کا کہنا تھا: ''ہم نے تو مشکل حالات اور مشکل ترین خطے یعنی سرینگر اور مظفر آباد کے درمیان بس چلائی۔ حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ جہاں بھی عوامی زندگیوں میں دشواریاں کم کی جاسکتی ہوں، کم کی جانی چاہئیں، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے مفادات سے کنارہ کر لیں‘‘۔ میںنے گفتگو ایک بار پھر بھارت چین معاملات کی طرف موڑ کر پوچھا، کہیں یہ سرحدی تنازع مصنوعی تو نہیں کیونکہ بھارت، پاکستان پر بھی الزام لگاتا رہا ہے کہ اس نے کشمیرکا کچھ رقبہ چین کے حوالے کیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 1891ء کی مردم شماری میں بھی جموں و کشمیر کا رقبہ 80,900 مربع میل درج ہے جبکہ 1911ء میں اس کا رقبہ 84258 مربع میل اور 1941ء میں 82258 مربع میل ہے، جس کو 1951ء کے ریکارڈ میں دہرایا گیا۔ مگر بھارت چین جنگ سے قبل 1961ء میں یہ رقبہ یکدم بڑھا کر 86024 مربع میل کردیا گیا۔ آخر حقیقت کیا ہے اور رقبے میں تبدیلی کا راز کیا ہے؟ مینن نے کہا، 1954ء سے پہلے تو بھارت کے سرکاری نقشوں میں مغربی سیکٹر میں بارڈرکا تعین ہی نہیں کیا گیا تھا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس مدت تک ان علاقوں میں چین کا کوئی وجود نہیں تھا۔
جب میں نے مصنف اے جی نورانی کی کتاب کا حوالہ دیا کہ اس تنازع کو پیدا کرنے اور گلگت اور چین کے درمیان سرحدی ایشو پیدا کرنے کے لئے جواہر لال نہروکے ایما پر بھارتی وزارت خارجہ میں رات بھر جاری رہنے والے ایک آپریشن میں تمام پرانے نقشوں جلایا گیا اور نئے نقشے بنائے گئے اور سختی کے ساتھ ہدایت کی گئی کہ پرانے نقشوں کو کہیں بھی ریفرنس کے لئے استعمال نہیں کیا جائے گا، تو انہوں نے کہا: ''تقسیم سے پیدا شدہ حالات کی وجہ سے 1958ء تک چین کے ساتھ بارڈر متعین کرنے کا کسی کو ہوش نہیں تھا۔ نہرو لائق ستائش ہیں کہ انہوں نے اس ایشو پر توجہ دی اور مشرقی بارڈرکو واضح کرنے کی طرف پہل کی‘‘۔
چونکہ خارجہ پالیسی کا کڑا امتحان پاکستان کے ساتھ تعلقات ہیں، اس لیے میں نے پوچھا کہ آپ نے اپنی کتاب میں بھارت پاکستان تعلقات کے حوالے سے خاصی قنوطیت کا مظاہر کیا ہے جبکہ آپ کے زمانے میں ہی امن مساعی عروج پر تھیں۔ اس کے جواب میں مینن نے کہا: ''ایسا نہیں ہے کہ دونوں ممالک کو دوطرفہ مسائل کا حل معلوم نہیں ہے۔ 2005ء میں اور اس سے قبل بھی ہم مسائل کو حل کرنے کے قریب پہنچ چکے تھے، مگر مسئلہ پاکستان کا اندرونی سیٹ اپ ہے۔ پاکستان کی بیشتر آبادی جس میں سویلین، تاجروں اور سیاستدانوں کا بڑا طبقہ شامل ہے مسائل کا حل چاہتا ہے اور وہ بھارت کو ٹکڑے کرنے اور اس کو ختم کرنے کے در پے نہیں ہے۔ میں تین سال اسلام آباد میں مقیم رہا ہوں، میں نے اور میری فیملی نے وہاں بے شمار دوست بنائے، مگر دوسری طرف پاکستانی فوج کے کچھ عناصر، آئی ایس آئی اور جہادی تنظیمیں ہیں جو بھارت کو خطرہ قرار دے کر ہماری سکیورٹی کے لئے چلینج بنے ہوئے ہیں۔ ان کا ایک الگ ہی نظریہ ہے، لہٰذا ہمیں کئی پاکستانوں سے ڈیل کرنا پڑتی ہے۔ یہی میری قنطوطیت کی وجہ ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا، خود پاکستان کے اندر تمام فورسزکو مل بیٹھ کر طے کرنا چاہیے کہ بھارت کے ساتھ کس طرح کے رشتے وہ چاہتے ہیں؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ رشتوں کو آگے بڑھا کر مسائل کو حل کرنے کی سمت قدم بڑھائے جائیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مودی حکومت نے خارجہ پالیسی میں جوunpredictibility کا عنصر شامل کیا ہے، وہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ بلوچستان پر مودی حکومت کی پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے قومی سلامتی کے سابق مشیر نے کہا کہ جب وہ خارجہ سیکرٹری تھے اور من موہن سنگھ کے ہمراہ 2009ء میں پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے مصرکے شہر شرم الشیخ میں ملاقات کی تو پاکستانی وفد کو شکوہ تھا کہ بھارت بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے، جس کے بعد ہم نے مشترکہ بیان میں بلوچستان کو شامل کیا مگر بی جے پی اور میڈیا نے تو ایسا وا ویلا مچایا کہ اب کوئی بھی وزیر اعظم اس مشترکہ بیان کا ذکر تک نہیں کرتا۔ میں خود حیران ہوں کہ یہی بی جے پی اب اقتدار میں آ کر علی الاعلان بلوچستان کا ذکر کر رہی ہے۔ وہ سب بھول گئے کہ شرم الشیخ کا مشترکہ بیان ، بھارت اور پاکستان کے درمیان طے پایا گیا واحد ڈاکیومنٹ تھا جس میںکشمیرکا تذکرہ نہیں تھا۔
انٹرویو اب اختتام کو پہنچ رہا تھا، مینن نے ایک اور خطرناک رجحان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خارجہ پالیسی اب داخلی انتخابی سیاست کے تابع ہوتی جارہی ہے، جو نہ صرف اس خطے کے لئے خطرناک ہے بلکہ دوسرے محاذوں پر بھی بھارت کی شبیہ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔