پاکستان کو قائداعظم کے اصولوں پر
چلائیں گے... آصف علی زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''پاکستان کو قائداعظم کے اصولوں پر چلائیں گے‘‘ اگرچہ پچھلی بار بھی خاکسار سمیت ہمارے وزرائے اعظم نے پاکستان کو قائد کے اصولوں سے بھی بڑھ کر چلایا تھا، اسی لیے کچھ بد ہضمی کی شکایت پیدا ہو گئی تھی،لہٰذا اس بار ہم ہاتھ ذرا ہلکا رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''انور مجید سے اچھا تعلق ہے‘‘ جبکہ خاکسار کا سارا سامان بھی اسی کے طیارے پر آیا تھا، اس لیے اس تعلق سے انکار کیسے کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اُن پر چھاپوں کا وزیر داخلہ سے پوچھیں‘‘ جبکہ یہ میرے لیے بھی ایک استقبالی پیغام ہی لگتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ملک آج سے مزید مضبوط ہوتا رہے گا‘‘ کیونکہ میرا آنا ہی اس کی سب سے بڑی دلیل ہے اور اگر میں پہلے آ جاتا یا جاتا ہی نہیں تو یہ مزید مضبوط ہو چکا ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ''مفاہمت جمہوریت سے ہے، ن لیگ سے نہیں‘‘ اور عمران خان کے دھرنے پر بھی ہم نے جمہوریت ہی کو بچایا تھا لیکن اگر اس کے ساتھ ہی حکومت بھی بچ گئی تو ہم کیا کر سکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''اب میں لاہور ہی میں ڈیرے ڈالوں گا‘‘ اس لیے لاہور والے خبردار ہو جائیں اور یہ نہ کہیں کہ ہمیں پہلے بتایا نہیں گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''چار مطالبات پر بات 27 اکتوبر کے بعد ہوگی‘‘ اس دوران دیکھیں گے کہ حکومت ڈاکٹر عاصم اور ایان علی کے ساتھ کیا کرتی ہے اور میثاق جمہوریت کا کس قدر خیال رکھا گیا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کر رہے تھے۔
عمران خان کو ذلت اور رسوائی کے
ساتھ شکست دیں گے... فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''عمران خان کو ذلت اور رُسوائی کے ساتھ شکست دیں گے‘‘ کیونکہ ان دونوں کا ہمارے پاس کافی ذخیرہ موجود ہے اور اگر اس میں سے کچھ بچ گیا تو وہ ہمارے پاس محفوظ رہے گا کہ داشتہ آید بہ کار جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ داشتہ کار پر آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''مجھے کرپشن ٹیم کا نائب کپتان بنا کر میری حق تلفی کی گئی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ''اسلام کی جڑیں ہلانے کے لیے عمران خان کو کے پی کے میں مسلط کیا گیا ہے‘‘ اور یہ سارا کچھ وزیراعظم صاحب کا ہی کیا دھرا ہے، اس لیے صاحب موصوف اس مسئلہ پر میرے تحفظات نوٹ کر لیں تا کہ اگلی ملاقات میں اس موضوع پر کچھ دال دلیا ہو سکے کیونکہ پچھلی ملاقاتوں کے فوائد استعمال ہو کر ختم ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''سازشوں سے دینی مدارس کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا‘‘ کیونکہ اگر ان کی خاطر خواہ خدمت کی جاتی رہے تو اُن سے کوئی شکایت پیدا نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ''تحریک انصاف سے اختلافات ختم کرانے کے لیے میرے ساتھ تین ملاقاتیں کی گئیں‘‘ جبکہ اس موضوع پر وزیراعظم صاحب سے بات کی گئی تو انہوں نے منع کر دیا اور ساتھ ہی چند سہولیات بھی بہم پہنچائی گئیں جن کی فہرست میں ساتھ لے کر گیا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''ملک میں بیروز گاری اور بے انصافی عام ہے‘‘ اور اُمید ہے کہ میری یہ بات بھی وزیراعظم نوٹ کر لیں گے تاکہ اگلی ملاقات میں وہ میری یہ غلط فہمی رفع کر سکیں۔ آپ اگلے روز کوہاٹ میں اپنی جماعت کے تحت منعقدہ ایک جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
سالگرہ اور مبارکبادیں
اگلے روز وزیراعظم میاں نواز شریف کی 67 ویں سالگرہ بڑی دھوم دھام سے منائی گئی۔ اسلام آباد اور لاہور کے علاوہ بھی خوشی کے اس موقع پر کیک کاٹے گئے جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی موصوف کو مبارک باد دیتے ہوئے اُن کی درازیٔ عمر کی دُعا کی اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور شاید اسی مصروفیت کی وجہ سے بھارت جو دریائے سندھ اور چناب پر بند باندھ کر اور وہاں سے نہریں نکال کر پانی کے بہائو کو کم کر رہا ہے اس پر اپنا کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کر سکے ورنہ وہ خلافِ معمول ایک زبردست بیان ضرور جاری کرتے، اُمید ہے کہ اگلی سالگرہ پر وہ اس سلسلے میں ضرور کچھ کریں گے اور غالباً اسی مصروفیت کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کی طرف سے قائد اعظم کی سالگرہ خاموشی سے گزار دی گئی کیونکہ اگر قائداعظم ثانی کی سالگرہ اس قدر تزک و احتشام سے منائی گئی ہے تو اسی کو کافی سمجھا گیا۔ امید ہے کہ ن لیگ اگلی سالگرہ کے موقع پر کچھ نہ کچھ کرے گی۔
اکادمی ادبیات سے تشویشناک خبر
جس طرح مچھلی سر سے خراب ہونا شروع ہوتی ہے، اسی طرح کرپشن بھی چوٹی سے اپنا آغاز کرتی ہے۔ ملک کے سرکاری اداروں میں کرپشن کی ریل پیل سے کون واقف نہیں ہے۔ حتیٰ کہ سابق چیف جسٹس بھی اس کے خلاف تابڑ توڑ بیانات ہی دیتے رہے لیکن اس کے خلاف کر کچھ بھی نہ پائے۔ تاہم اکادمی ادبیات ایک ایسا ادارہ ہے جسے علم و ادب کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ اس کی مالی حالت ویسے ہی خاصی پتلی ہے جبکہ حکومت اس کے بجٹ پر اب تک دو کٹ پہلے ہی لگا چکی ہے اور نادار و ضرورت مند ادیبوں کی ماہانہ امداد کا سلسلہ بھی کچھ ایسی باقاعدگی سے جاری نہیں ہے۔ اگر اس ادارے میں بھی مالی بے قاعدگیوں کی اطلاع ملے تو یہ ہم سب کے لیے پریشان کن ہو گی۔ پچھلے دنوں ڈائریکٹر جنرل آڈٹس کی اس ادارے کے بارے میں ایک رپورٹ نظر سے گزری جو مختلف پیروں پر مشتمل ہے۔ تاہم اس رپورٹ کا آخری حصہ قابلِ غور ہے جو کچھ اس طرح سے ہے:
عنوان: DAC کی جانب سے لگائے
گئے آڈٹ پیروں کا من وعن نفاذ
جناب عالی! اکادمی ادبیات پاکستان میں بدانتظامی اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر سالانہ آڈٹ رپورٹ میں کچھ سنگین الزام /آڈٹ اعتراضات لگائے گئے ہیں۔ اعتراضات کی روشنی میں دفتر میں مختلف اشخاص سے ریکوری کے آرڈر بھی ہو چکے ہیں مگر افسر انتظامیہ مسٹر ملک عمر علی اور اکاؤنٹنٹ آفیسر مسٹر محمد صدیق ان ٹھوس جامع آڈٹ الزامات کا روحِ قانون اور قاعدے کے تحت حل کرنے کے بجائے دفتر کے معصوم اور لاچار ملازمین کی طرف موڑنے کی کوشش کرتا ہے جو سراسر ناانصافی ہے۔ آڈٹ اعتراضات میں سب سے بڑا اعتراض اکادمی ادبیات پاکستان کا آڈیٹوریم کی تعمیرات میں مبینہ کرپشن ہے جو کہ 2007ء کنسٹرکشن کا کام جو کہ p.c- 1 کے تحت مبلغ چار کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر ہونا تھا، اس وقت ایک ناکارہ ڈھانچہ نظر آرہا ہے اور اس وقت تخمینہ لاگت دس کروڑ روپے تک پہنچ چکا ہے۔ مذکورہ آڈیٹوریم کی کنسٹرکشن کی شروع سے اب ملک عمر علی اور محمد صدیق نے پروجیکٹ الاؤنس کی مد میں لاکھوں روپے لیے ہیں۔ آڈیٹوریم تو تعمیر نہ ہو سکا البتہ ان دونوں صاحبان نے ذاتی بنگلے تعمیر کر لیے۔ چونکہ ملک عمر علی نے اس دوران ایک عالیشان محل نما بنگلہ جناح گارڈن میں تعمیر کر لیا جبکہ محمد صدیق اکاؤنٹ آفیسر نے ایک ایک کنال کے دو بنگلے پاکستان ٹاؤن میں تعمیر کر لیے‘‘۔
اکادمی کی حالت یہ ہے کہ یہ ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن تک باقاعدگی سے ادا نہیں کر رہی ہے۔ مذکورہ بالا دونوں افسر ریٹائر ہونے والے ہیں۔ اگر کچھ نہ کیا گیا تو کھیل ختم اور پیسہ ہضم ہو جائے گا!
آج کا مطلع
ماحول ہے کچھ اور‘ فضا اور ہی کچھ ہے
یکطرفہ محبت کا مزا اور ہی کچھ ہے