آج سے چار سال قبل 26دسمبر 2012ء کو پاکستان کے مایۂ ناز سیاستدان اور جماعت اسلامی کے عظیم راہ نما پروفیسر غفور احمد داغ مفارقت دے گئے۔ ان کی وفات سے یوں محسوس ہوا جیسے جماعت اسلامی کے سر سے سایہ اٹھ گیا ہو۔ جماعت کا ہر کارکن ان کو اپنا بزرگ، مربی اور شفیق راہ نما سمجھتا تھا۔ ان سے راقم کے بہت قریبی نیازمندانہ تعلقات تھے۔
پہلی بار پروفیسر صاحب کو بالمشافہ 1968ء میں دیکھا۔ اس زمانے میں جماعت اسلامی کراچی کا دفتر آرام باغ میں تھا۔ چوہدری غلام محمد مرحوم کراچی کے امیر اور برادرِ گرامی قدر سید منور حسن قیم تھے۔ دفتری عملے میں سے رجب علی صاحب اور محمد مسلم صاحب سے تعارف تھا۔ مختلف بزرگوں کو دفتر میں دیکھا تو ان احباب سے ان کے بارے میں پوچھا۔ اسی زمانے میں حکیم صادق حسین، حکیم اقبال حسین، پروفیسر غفور احمد اور صابر حسین شرفی صاحب کو قدرے دور سے دیکھا تھا۔ دور سے ان معنوں میں کہ ان کا تعارف تو مجھ سے ہو گیا، اس وقت میرا تعارف ان سے نہ ہو سکا، میں لاہور جمعیت کا ناظم تھا اور مرکزی شوریٰ کا رکن بھی، مگر یہ کوئی ایسا اعزاز نہیں تھا کہ ان قائدین سے متعارف ہوتا؛ البتہ بڑی خوشی کی بات یہ تھی کہ چوہدری غلام محمد مرحوم نے کمال شفقت و محبت سے مجھ سے میرے تعارف اور ذمہ داری کے بارے میں استفسار فرمایا۔ کیا پیاری شخصیات تھیں۔ اللہ ان سب کو غریق رحمت فرمائے۔
پروفیسر غفور صاحب سے براہ راست ذاتی تعارف 1972ء میں ہوا۔ 5-A ذیلدار پارک اچھرہ لاہور میں سردیوں کی ایک دوپہر کو وہ اسلام آباد سے تشریف لائے۔ مجھے صاحبزادہ محمد ابراہیم صاحب کے ساتھ ان سے ملنے کا شرف حاصل ہوا اور باہمی تعارف بھی ہوا۔ پروفیسر صاحب ان دنوں اسلام آباد میں قومی اسمبلی کا اجلاس اٹینڈ کرکے آئے تھے۔ مرکز جماعت میں کم و بیش تمام مرکزی ذمہ داران موجود تھے۔ پروفیسر صاحب نے مولانا کو ان کے کمرے میں جا کر اسمبلی کے حالات و واقعات کی بریفنگ دی۔ پروفیسر صاحب جماعت کے چار رکنی پارلیمانی گروپ کے لیڈر تھے۔ مجھے یاد ہے کہ پروفیسر صاحب مولانا سے ملاقات کے بعد باہر نکلے تو میں نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا اور اپنا نام بتایا تو میرا ہاتھ چھوڑنے سے پہلے اپنی دائمی مسکراہٹ اور شیرینی کے ساتھ مجھ سے پوچھا: ''اچھا تو آپ آج کل کیا کر رہے ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا: ''کوئی خاص کام تو نہیں کر رہا؛ البتہ گجرات میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام چھپنے والے ایک ہفت روزہ رسالے ''الحدید‘‘ کی نگرانی کر رہا ہوں‘‘۔ پھر پوچھا: ''آپ نے کس مضمون میں ایم اے کیا ہے؟‘‘ عرض کیا ''میں نے عربی اور علومِ اسلامیہ میں ماسٹر کیا ہے‘‘۔ فرمانے لگے: ''پی ایچ ڈی کر لو‘‘ میں نے کہا: ''ارادہ تو ہے مگر پی ایچ ڈی کرنے کے بعد کیا فرق پڑے گا‘ سوائے اس کے کہ نام کے ساتھ ڈاکٹر لگ جائے گا‘‘۔
مرکز جماعت میں اس زمانے میں جو بزرگ ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے، ہر ایک اپنی اپنی ذات میں انجمن اور منفرد شخصیت کا حامل تھا۔ شیخ فقیر حسین صاحب بڑے بذلہ سنج اور نکتہ طراز بزرگ تھے۔ قبل اس کے کہ پروفیسر صاحب مجھے کوئی جواب دیتے، شیخ صاحب نے جو پاس ہی کھڑے ہوئے تھے، فرمایا: ''فائدہ تو بہت ہو گا، پروفیسر صاحب کو دیکھیے، چند سال کالج میں پڑھایا اور اب پروفیسر ی مستقل طور پر ان کے نام کا حصہ ہے۔ آپ بھی مستقل ڈاکٹر صاحب بن جائیں گے‘‘۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ شیخ صاحب محترم پروفیسر صاحب سے اتنے بے تکلف ہیں۔ بعد کے ادوار میں کئی مواقع پر یہ عقدے مزید کھلتے چلے گئے۔ بہرحال اس موقع پر سید صدیق الحسن گیلانی صاحب اور خود پروفیسر صاحب کھلکھلا کر ہنسے۔ پروفیسر صاحب نے مجھ سے فرمایا: ''تمھارے متعلق میں نے کچھ خبریں پڑھی تھیں، جب تم جمعیت میں تھے‘‘۔ میں نے عرض کیا: ''جمعیت کے دور میں‘ میں کراچی میں آپ سے ملا تھا مگر اس وقت کوئی تعارف نہیں ہو سکا تھا۔‘‘ فرمایا: ''کیوں تعارف نہیں کروایا تھا؟، تعارف تو کروانا چاہیے تھا‘‘۔ پروفیسر صاحب کے ہر فقرے اور لفظ میں اس عظمت کی جھلک تھی کہ ایک بڑا آدمی معمولی کارکنانِ جماعت کے ساتھ کس قدر محبت و اپنائیت کا اظہار کر رہا تھا۔
مرکزِ جماعت میں ملاقات کا وہ دن اور آخری لمحات، پروفیسر صاحب کے ساتھ اس تعلق، محبت اور عقیدت میں ہمیشہ اضافہ ہی ہوا۔ 1974ء میں میں لاہور سے کراچی اور کراچی سے جدہ روانہ ہوا۔ پھر وہاں سے عازمِ نیروبی ہوا۔ ان دنوں نیروبی اور جدہ سے براہِ راست لاہور کی پروازیں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ کراچی ہی کے راستے جانا اور آنا ہوتا تھا۔ کراچی میں قیام ہوتا تو سید منور حسن میرے میزبان ہوتے جو اس زمانے میں تنہا نعمت اللہ خان صاحب کے مکان کے ایک حصے میں مقیم تھے۔ اس زمانے میں غفور صاحب کراچی جماعت کے امیر تھے۔ ان سے مزید ملاقاتیں جاری رہیں۔ ہر مرتبہ یہ احساس ہوا کہ وہ بے انتہا محبت کرنے والے بزرگ اور مربی ہیں۔ ان سے محبت خود بخود دل میں پیدا ہوتی اور ہر لمحے اس میں اضافہ ہی ہوتا تھا۔ یہ میرا ذاتی تجربہ اور وجدان ہے۔ وہ علامہ اقبال کے شعر کا مصداق تھے ؎
نرم دمِ گفتگو گرم دمِ جستجو
رزم ہو کہ بزم ہو، پاک دل و پاک باز
اسی زمانے میں 73ء کے دستور کا ابتدائی خاکہ حکومت کی طرف سے قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا۔ پروفیسر صاحب اس دستوری دستاویز پر بحث میں حصہ لینے اور دستوری امور کو حتمی شکل دینے کے لیے خود تیاری کر رہے تھے اور مختلف ماہرینِ قانون و دستور سے ملاقاتیں بھی کر رہے تھے۔ وہ ہر وقت رواں دواں رہنے اور کبھی ہتھیار نہ ڈالنے والے انتھک مجاہد تھے۔ 73ء کے دستور میں جتنی اچھی چیزیں نظر آتی ہیں انھیں شامل کروانے میں جماعت اسلامی اور حزب اختلاف کی دیگر دینی اور سیاسی جماعتوں کا بھی بلاشبہ بڑا اہم کردار ہے مگر بنیادی مسودے میں ترمیمات اور حتمی آئین میں دفعات کی فقرے بندی پروفیسر صاحب کی قابلیت و مہارت کی مرہونِ منت تھی۔ وہ دستوری کمیٹی کے اہم اور متحرک ترین رکن تھے۔ میں تو کہتا ہوں کہ اس متفقہ دستور کی تدوین میں پروفیسر صاحب مرحوم و مغفور کا کلیدی کردار ہے۔ 73ء کے دستور کا جب بھی حوالہ دیا جائے، میرے ذہن میں پروفیسر صاحب کا نام گونجنے لگتا ہے۔ وہ اکیلے بھی ایک جماعت تھے۔ وہ سپاہی بھی تھے اور سپہ سالار بھی۔ وہ زندگی بھر علامہ اقبال کے ان اشعار کی تفسیر پیش کرتے رہے ؎
یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے
جنھیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم، اِن کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سِمَٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
پیپلز پارٹی کو 70ء والی اسمبلی کے اندر، بچے کھچے پاکستان میں بہت بڑی اکثریت حاصل تھی اور ان کے بیشتر ارکان انتہائی زبان دراز بلکہ منہ پھٹ تھے۔ اس کے باوجود اسمبلی کا ریکارڈ گواہ ہے کہ پروفیسر صاحب کی گفتگو کے دوران ایوان میں پروقار ماحول پیدا ہو جاتا تھا۔ سبھی ان کی بات غور سے سنتے اور ان کا احترام کرتے تھے۔ اس زمانے میں ملک کے مشہور اور بزرگ صحافی، مصطفی صادق مرحوم اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے اجلاس کی جھلکیاں دیکھ کر آئے تو 5-A ذیلدار پارک میں مولانا مودودیؒ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔ انھوں نے مولانا سے کہا: ''مولانا ایوان میں بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو ملیں مگر سچی بات یہ ہے کہ اگر کسی رکن کی کسی بات میں وزن اور تاثیر تھی تو یہ وہی ارکان تھے جو جماعت کی تربیت گاہوں سے ہو کر نکلے‘‘۔ پروفیسر غفور صاحب اور محمود اعظم فاروقی صاحب کا بالخصوص تذکرہ کرنے کے بعد مصطفی صادق نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ جماعت کو چھوڑ کر چلے گئے مگر پیپلز پارٹی کے دو ارکان اسمبلی رائو خورشید علی خان اور کوثر نیازی بھی جب بات کرتے تو محسوس ہوتا کہ انھیں بات کرنے کا ڈھنگ اور سلیقہ آتا ہے۔
پروفیسر صاحب مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاسوں میں میرے ساتھ والی نشست پر تشریف فرما ہوتے تھے۔ کبھی کبھار سیاسی موضوعات پر کسی قرارداد کا متن منظوری سے پہلے پڑھ رہے ہوتے تو مجھ سے کسی لفظ کے بارے میں پوچھتے۔ میں عرض کرتا کہ آپ تو اہل زبان ہیں۔ فرماتے کہ نہیں آپ بھی زبان کو جانتے ہیں۔ میں کئی مرتبہ پروفیسر صاحب کو ملتے ہوئے ادب و احترام سے ان کے گھٹنے چھوتا تو گھٹنے پیچھے کرکے میرے شانوں پر ہاتھ رکھ کر دعا دیتے کہ ''جیتے رہو‘‘ مرحوم کے یہ الفاظ ''جیتے رہو‘‘ اتنے پیار بھرے لہجے اور محبت کے انداز میں سماعت نواز ہوتے تھے کہ ان کی بازگشت اب تک سنائی دیتی ہے۔ 26 دسمبر کو اپنے اس عظیم محسن کو بستر پر جامد و ساکت دیکھا تو آنکھیں تر ہو گئیں۔ وہ پیار بھری دعا شدت سے یاد آئی۔ ؎
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا