تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     27-12-2016

گئی بھینس پانی میں …

جب بھی سیلاب آتا ہے، سب کچھ الٹ پلٹ جایا کرتا ہے۔ لاکھوں افراد بے گھر ہو جاتے ہیں۔ یہ دکھ کی بات ضرور ہے، حیرت کی نہیں۔ قدرت کی طرف سے آنے والی ہر مشکل سب کچھ تلپٹ کر دیتی ہے۔ اگر ہوش و حواس اور احساسِ ذمہ داری سے کام لیتے ہوئے تھوڑی بہت تیاری پہلے سے کرلی جائے تو معاملات کو سمجھنے اور اُن سے نمٹنے میں کچھ مدد مل جاتی ہے۔ 
خیر، ہم دوبارہ سیلاب کی طرف آتے ہیں۔ ایک بار سیلاب آیا تو ایسا کہ اُس کے آگے کسی بھی سطح کا بند باندھنا ممکن نہ رہا۔ سیلاب سے تباہ کاری بڑھی تو حکومتی سطح پر اقدامات بھی بڑھے۔ لازم ہو گیا کہ سیلاب سے ہونے والی تباہی کا جائزہ لیا جائے تاکہ بحالی کے اقدامات بہتر انداز سے کیے جا سکیں۔ ایسے میں حکام اور عوامی نمائندے مل کر تباہی سے دوچار علاقوں کے دورے پر آئے۔ ایسے ہی ایک دورے میں ایک شخص علاقے کے لوگوں کی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہوئے آگے بڑھ کر سیاسی رہنماؤں اور حکام سے مخاطب ہوا یعنی ٹی وی والوں کے مائکروفون تھام کر عوامی مسائل پر اچھی خاصی تقریر کر ڈالی۔ یہ پورا معاملہ خاصا کھٹّا میٹھا تھا۔ علاقے کے لوگ اور حکام و رہنما... سبھی دم بخود ہو کر سُنتے رہے۔ ایک ایک جملہ نپا تلا مگر یکسر غیر متعلق! بات سے بات نکلتی گئی اور سب انگشت بہ دنداں ہوکر اُس ''پبلک سپیکر‘‘ کے سامنے پتھر کی مورت بنے رہے۔ موصوف بولتے گئے اور سانس پُھولتا گیا۔ سانس کے پُھولنے کے ساتھ ساتھ جوش و جذبے کا گراف بھی بلند ہوتا گیا۔ جب اچھی خاصی تقریر جھاڑ چکے اور سانس بھی پُھولنے کے بعد ٹوٹ گیا تو ایک عوامی نمائندے سے ذرا سی ہمت کرکے پوچھا: جناب آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔ ''شیرِ علاقہ‘‘ بننے کی بھرپور کوشش کرنے والے ''پبلک سپیکر‘‘ نے انتہائے معصومیت سے ''سادگی و پُرکاری‘‘ بھرا جواب دیا... ''کچھ خاص نہیں‘ میں روزانہ آدھا گھنٹہ اِسی طرح بولتا ہوں!‘‘ 
لیجیے، گئی بھینس پانی میں۔ ع 
کسی کی جان گئی، آپ کی ادا ٹھہری! 
سُننے والوں کی جان پر بن آئی اور بولنے والا کہہ رہا ہے کہ کچھ نہیں، یہ تو یومیہ شغل ہے! آج کا پاکستانی معاشرہ اِسی منزل میں ہے۔ غیر متعلق بات ہماری زندگی کا حصہ ہوتی جا رہی ہے۔ جسے جو کہنا ہے بس وہی کچھ وہ نہیں کہہ رہا‘ یا کہنا نہیں چاہتا۔ ہر غیر متعلق بات پر صرف سوچا ہی نہیں جا رہا بلکہ سوچے ہوئے کو الفاظ کا جامہ پہنا کر منہ سے باہر لانا بھی از خود فتوے کے تحت اپنے آپ پر فرض کر لیا گیا ہے! 
ہم غیر متعلق باتوں پر غور کرنے کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اب کوئی بھی موضوع ہمارے ذہن کے راڈار کی حدود سے باہر نہیں! گزشتہ دنوں پی آئی اے کا اے ٹی آر طیارہ کیا گرا، بے لگام ہو کر بولنے والے ہماری سماعتوں پر بجلی کر گرے! ٹی وی چینلز پر ہر شخص شہری ہوا بازی کا ماہر بن بیٹھا۔ ماہرین اور اینکرز کی حد تک تو بات درست ہے کہ اُنہیں تو قدرت کی طرف سے ہر موضوع پر کچھ بھی کہنے کا لائسنس مل چکا ہے۔ ع 
جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے 
کے مصداق وہ اپنے ذہن میں ابھرنے والے ہر خیال کو بلا خوفِ تردید زبان پر لا سکتے ہیں اور لاتے ہی ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ ملک بھر میں راتوں رات شہری ہوا بازی کے کروڑوں ماہرین پیدا ہو گئے! گھر کی چاردیواری میں بتیانے کے لیے بنایا جانے والا ڈرائنگ روم ہو یا چائے کا ہوٹل، کھیل کے میدان میں بنائے ہوئے پویلین کی سیڑھیاں ہو یا گلی کے کونے پر بچھا ہوا ''عوامی تختِ طاؤس‘‘ ... ہر طرف تکنیکی آرا کا دریا بہہ رہا تھا۔ ہم نے ٹھیلے پر سبزی اور پھل بیچنے والوں اور دکانوں پر سودے کی پڑیاں باندھنے والوں کو یہ کہتے سنا کہ غلطی پائلٹ کی تھی! اور اِس کے بعد طیارہ آپریٹ کرنے کے فن پر لیکچر شروع ہو جاتا تھا۔ بہت سوں کا خیال یہ تھا کہ اگر ایک انجن میں خرابی تھی تو پائلٹ کو یا تو طیارہ اڑانا ہی نہیں چاہیے تھا یا پھر ایک انجن کی مدد سے سیف لینڈنگ کرا لینی چاہیے تھی۔ یہ سب کچھ ہم خاصے محتاط اور سادہ و شائستہ الفاظ میں بیان کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ طیارے کی تباہی پر ''بے لاگ‘‘ تبصروں میں یار لوگ قیاس کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے خدا جانے کون کون سی مملکتوں کی حدود میں داخل ہو جاتے تھے اور پائلٹ سے شروع ہو کر ایئرلائن کے ٹیکنیکل اسٹاف پر اپنی بات کچھ اِس انداز سے ختم کرتے تھے جیسے اب اِس موضوع پر مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں... گویا قلم توڑ کر رکھ دیا ہو! 
بات یہ ہے جناب کہ جس کا کام اُسی کو ساجے، اور کرے تو ٹھینگا باجے۔ قبر کا حال مردہ جانتا ہے۔ کسی بھی شعبے کی اصلیت اور حقیقت کیا ہے یعنی اُس میں قدم قدم پر کتنی پیچیدگیاں ہیں یہ بات متعلقہ شعبے کے لوگ ہی جانتے ہیں۔ اور پھر طیارہ اڑانا! یہ تو انتہائی مہارت اور ذہانت کا کام ہے۔ ایک طرف طیارے کی ایک ایک تکنیکی خصوصیت سے واقفیت اور پھر فضا میں رونما ہونے والی کسی بھی پیچیدگی سے نمٹنے کے لیے تکنیکی مہارت کے ساتھ ساتھ ذہانت کو بروئے کار لانے کی صلاحیت۔ گویا دو دھاری تلوار پر چلنا! یہ معاملہ اُنہی کا ہے جن کا ہوا بازی کے شعبے سے تعلق ہے۔ ٹی وی سکرین پر ہوا بازی کے شعبے کا کوئی ماہر اگر کچھ کہہ رہا ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر ڈرائنگ روم میں یا سڑک چھاپ ہوٹل پر ''بزرجمہری‘‘ جھاڑنا کہاں کی عمومی دانش ہے! 
زمانہ میڈیا کا ہے۔ رات دن ''بریکنگ نیوز‘‘ اور پھر اُس پر کیے جانے والے تبصروں سے دوچار رہنے والے اب ہر معاملے میں اور ہر موضوع پر سوچنے کے (خواہ مخواہ) اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ کسی موضوع پر نہ سوچیں تو زندگی میں کچھ خلا سا محسوس ہونے لگتا ہے! 
ایوان ہائے اقتدار میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ عام آدمی کا معاملہ نہیں۔ اُس کے سوچنے یا بولنے سے کچھ ہو گا بھی نہیں مگر پھر بھی لوگ اندازے لگا رہے ہوتے ہیں کہ حکومت کب جائے گی اور اُس کے بعد کون اقتدار میں ہوگا! یہی حال صحت، تعلیم اور دیگر شعبوں میں پائی جانے والی پیچیدگیوں کے حوالے سے خیالات کا اظہار کرنے کا ہے۔ کسی بھی محکمے یا وزارت کو باتوں سے درست نہیں کیا جا سکتا۔ یہ متعلقہ عوامی نمائندوں اور اس حوالے سے مامور سرکاری مشینری کا ہے۔ 
معاملہ بہت حد تک غیر ارادی بھی ہے۔ کہنے کو یہ ''انفارمیشن ایج‘‘ یعنی اطلاعات کا زمانہ ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم ''اوور انفارمیشن‘‘ کے دور میں جی رہے ہیں۔ ضرورت یا پیٹ کی گنجائش سے زائد کھانے کی صورت میں معدے کا جو حشر ہوا کرتا ہے کچھ کچھ وہی حال میڈیا کے معاملے میں ہمارے ذہن و دل کا ہے۔ لوگ کرنٹ افیئرز کے ٹاک شوز دیکھتے ہیں، اپنے اندر کرنٹ دوڑتا ہوا محسوس کرتے ہیں اور پھر جو بولنے پر آتے ہیں تو بولتے ہی چلے جاتے ہیں۔ ایسے مواقع پر ہمیں نسیم بیگم کا گایا ہوا 1962ء کی فلم ''شہید‘‘ کا گانا یاد آجاتا ہے جس کے بول تھے ''مِری نظریں ہی تلوار، کس کا دل ہے روکے وار، توبہ توبہ استغفار!‘‘ 
یہ غنیمت تھا کہ نسیم بیگم نے ہار ماننے والوں کی طرف سے خود ہی استغفار کہہ دیا، یہاں تو اِس کی بھی گنجائش دکھائی نہیں دیتی! زمانے بھر کی الل ٹپ باتیں سُن کر ذہن میں انتہائی الجھی ہوئی کھچڑی پکانے والے جب اِس کھچڑی کو آپ کی سماعت کی تھالی میں ''پروسنے‘‘ پر آتے ہیں تو ذرا بھی لحاظ نہیں کرتے۔ جو کچھ بھی کہنا ہو وہ کہہ کر دم لیتے ہیں۔ کسی کو برا لگے تو لگتا رہے، اُن کی بلا جانے۔ 
کیا ستم ہے کہ کرنے کے کام کوئی کرتا نہیں اور جن چیزوں کے بارے میں سوچنے کی چنداں ضرورت نہیں اُن کے بارے میں سوچنے پر ذہن کی توانائی برباد کی جا رہی ہے۔ 
ہر معاملہ ہم سے سوچنے کا تقاضا نہیں کرتا‘ مگر ہم اِتنی سی، سامنے کی بات بھی سمجھ نہیں پا رہے۔ اِس کے نتیجے میں وہی نفسی پیچیدگی پیدا ہوئی ہے جو کسی نے شعر کی شکل میں یوں بیان کی ہے: ؎
یوں سمجھنے کو تو سب کچھ ایں و آں سمجھا تھا میں 
جو سمجھنا چاہیے تھا وہ کہاں سمجھا تھا میں! 
کوئی اداکار اگر خواہ مخواہ موسیقی ترتیب دینے پر تل جائے تو؟ قابلیت یا رجحان نہ رکھنے پر بھی لائٹ مین بضد ہو کہ سکرپٹ لکھے گا تو؟ کیمرا مین طے کرلے کہ آتی ہو یا نہ آتی ہو، سیٹ ڈیزائننگ کرکے دم لے گا تو؟ ظاہر ہے، سب کچھ تلپٹ ہو جائے گا۔ ہمارے ہاں یہی ہو رہا ہے۔ سب اپنا کام چھوڑ کر کچھ اور ہی کرنا چاہتے ہیں۔ جب ایسا ہو تو بیشتر معاملات میں بھینس کو پانی میں جانے سے کون روک سکتا ہے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved