تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     27-12-2016

افغانیہ تھرڈ پلان

''ہم کسی ایسے پاکستان میں رہنے کے متحمل نہیں ہو سکتے جس میں آپ کا بھائی ڈاکٹر اور میرا بھائی چوکیدار ہو‘‘۔ یہ اس تقریر کے آخری الفاظ ہیں جو وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے خصوصی مشیر محمود خان اچکزئی نے اپنے والد مرحوم عبد الصمد خان اچکزئی کی برسی کے موقع پر اسلام آباد میں کہے۔ محمود خان اچکزئی کی تقریر کے موقع پر اگر میں وہاں موجود ہوتا تو ان سے اتنا تو پوچھنے کی کوشش ضرورکرتا کہ جناب! اگر میرا بھائی بلوچستان کا گورنر ہے، میرا بھائی صوبائی وزیر ہے، میرا بھائی قومی اسمبلی کا رکن ہے، میرا بھائی مشیر اعلیٰ ہے، اگر میری خواہر نسبتی صوبائی وزیر ہے، اگر میرا بھائی ڈی آئی جی پولیس ہے تو پھر ژوب، زیا رت، کوئٹہ، کوہاٹ، بنوں، مانسہرہ، سوات اور پشاورکا شائستہ گل خان، ہیبت خان، اکبر خان، سمندر خان، مراد خان چوکیدار کیوں ہیں؟ وہ رکشہ کیوں چلا رہے ہیں؟ وہ کسی دفتر میں چپڑاسی کیوں ہیں؟ وہ کلرک کیوں ہیں؟ گورنر بننے کے لئے، صوبائی وزیر بننے کے لئے، مشیر اعلیٰ بننے کے لئے، قومی اور صوبائی اسمبلی کا رکن بننے کے لئے اور پولیس میں ڈی آئی جی بننے کے لئے کیا یہی ایک اہلیت اور قابلیت درکار ہوتی ہے کہ وہ محمود خان اچکزئی کا بھائی ہو؟ اگر میرا بھائی مزدور ہے، سکیورٹی گارڈ ہے، تو پھر آپ بلوچستان کے گورنر کیوں ہیں؟ آپ صوبائی وزیر اور پولیس میں ڈی آئی جی کیسے بن گئے؟ کیا میں بھی آپ کی طرح ہر خوشہ گندم کو جلا دوں؟
وزیر اعظم پاکستان، وزیر اعلیٰ پنجاب اور ان کا ''جی جی بریگیڈ‘‘ دن رات، سوتے جاگتے اپنی توپوںکا رخ عمران خان کی جانب کرتے ہوئے ایک ہی راگ الاپ رہا ہے کہ دھرنے والے سی پیک کو نا کام بنا نا چاہتے ہیں، ملکی ترقی کا راستہ روکنا چاہتے ہیں، ملک میں سرمایہ کاری کی فضا خراب کر رہے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ کیا میاں برادران نے اپنے سب سے بڑے حامی اور اتحادی محمود خان اچکزئی کے یہ ارشادات سنے ہیں، جس میں انہوں نے خان عبد الغفار خان اور ولی خان سے بھی دو ہاتھ آگے بڑھتے ہوئے فرمایا ہے کہ''سرحد سے اٹک اور میانوالی تک افغانیہ کے نام سے ایک اور صوبہ بنایا جائے اور اس کے لئے پاکستان میں موجود لاکھوں افغانوں کو پاکستان کی شہریت دی جائے‘‘۔ محمود خان اچکزئی نے للکارتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر حکومت نے افغان مہاجرین کو پاکستان سے واپس افغانستان بھیجنے کی کوشش کی تو''ہم‘‘ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔کیا اس قسم کی دھمکیوں سے سرمایہ کاری بڑھے گی؟
اچکزئی کا 2016ء برانڈ وہی ہے جو خان عبد الولی خان اور ان سے پہلے باچا خان پاکستان بننے سے قبل اور بعد میں برس ہا برس سے دیتے چلے آ رہے تھے۔ اچکزئی اور ولی خان خاندان سیا ست میں ایک ہی صف میں تھا، ان کی اس لئے نہ بن سکی کہ کوئٹہ اور اس کے ارد گرد کے مہاجرین کی شکل میں پختون ووٹروںکو اچکزئی فیملی نے باچا خان فیملی سے چھین لیا۔ آج بھی ریکارڈ ملاحظہ کیا جائے تو اچکزئی کی سفارش اور دھمکیوں پر کئی ہزار افغان مہاجرین کو پاکستانی شناختی کارڈ جاری کئے جا چکے ہیں۔ یہ افغان مہاجرین اس وقت بلوچستان اور کے پی کے کی پولیس، فوج اور دوسرے اداروں میں ملازمتیں کر رہے ہیں اور ان میں سے بہت سے حساس اداروں کی اہم پوسٹوں پر بھی تعینات ہیں۔
محمود خان اچکزئی کی گزشتہ کئی ماہ سے کی جانے والی تقاریر کو اسلام آباد میں کی گئی حالیہ تقریر سے ملا کر غورکریں تو واضح ہو جائے گا کہ ان کا ایک ایک قدم دھماکہ خیز مواد سے کم نہیں۔ تین ماہ پہلے انہوں نے ایوان زیریں میں کھڑے ہو کر کہا تھا: ''میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے والے کو پشتون نہیں سمجھتا‘‘۔ کوئی ان سے پوچھے، اچکزئی صاحب! آپ کے ایک بھائی گورنر بلوچستان ہیں، دوسرے صوبائی وزیر ہیں، آپ خود وزیر اعظم کے مشیر اعلیٰ ہیں اور باقی پانچ چھ رشتہ دار قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے رکن ہیں، کیا وہ بھی پاکستان زندہ باد کہنے والوں میں سے نہیں؟ کیا انہوں نے بھی آپ کی طرح پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا؟ کیا وہ بھی افغانیہ کے نام سے ضلع اٹک اور میانوالی کو اس میں شامل کر کے ایک نیا صوبہ بنانا چاہتے ہیں؟
ایک اور انتہائی عجیب اور خطرناک بات اچکزئی نے اپنی اس تقریر میں یہ کی کہ ''ہم جس زمین پر آباد ہیں یہ ہمیں اپنے آبائو اجداد سے ورثے میں ملی ہے، ہماری اس مٹی کو جو بھی غلط ارادوں اور بری نظروں سے دیکھے گا، اس کے خلاف لڑنا ہم پشتونوںکا فرض ہو گا‘‘۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اچکزئی ڈیورنڈ لائن کے فرسودہ اور گھسے پٹے ڈرامے کو نئے کرداروں کے ساتھ ایک بار پھر سامنے لا نے والے ہیں؟ باچا خان اور ولی خان تو پاکستان بننے کے حق میں ہی نہیں تھے اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے قیام پاکستان کے سلسلے میں کانگریس اور نہرو کی ڈٹ کر حمایت کرتے ہوئے سرحد میں ہونے والے ریفرنڈ م میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا تاکہ مسلم لیگ یہاں سے ہار جائے اور صوبہ سرحد بھارت کے ساتھ الحاق ہو جائے۔ لیکن وہ تو غیرت مند پختون تھے جن کی پاک باز مائوں نے لا الہ الا اللہ کے نام پر اپنے بچوںکو دودھ پلایا ہوا تھا اور انہوں نے باچا خان اور ان کے ساتھی عبد الصمد اچکزئی کی پختونوںکو ہندوکی غلامی میں دینے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ قائد اعظمؒ کے ہاتھوں، بلوچستان اور سرحد کے شکست خوردہ لیڈروں کے بیٹے آج ایک نئی انگڑائی لیتے ہوئے ایک نئے کردار کے ساتھ پختونستان کی بجائے افغانیہ کے نام کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔ یاد رکھیے یہ ابتدا ہے کراچی سے سکھر تک کے ایک نئے صوبے کی؟ 
اگر اندرون خانہ ہونے والی سرگرمیوں پر نظر رکھیں تو انہیںکے پی کے میں مولانا فضل الرحمان اور نیشنل عوامی پارٹی کے مابین نیا گٹھ جوڑ ہوتا صاف نظر آئے گا۔ فاٹا اور قبائل کے امن جرگے کی آڑ میں بہت سے ایسے لوگوں کی شرکت ان سے پوشیدہ نہیں رہے گی جو آئی ڈی پیز کی آڑ میں افواج پاکستان پر اس قدر دھول اڑا رہے ہیںکہ خدا کی پناہ! مت بھولیے کہ ایک جانب فضل الرحمان اینڈ کمپنی، جس میں ولی خان کا خاندان، بھارتی را اور افغانستان کی این ڈی ایس پیش پیش ہیں،آئی ڈی پیز کے پردے میں جھوٹ اور نفرت کے غلیظ انبار لگا رہے ہیں اور دوسری طرف ان بے گھر لوگوں کے جذبات سے کھیلتے ہوئے محمود خان اچکزئی انہیں ان الفاظ کے ساتھ آگ دکھا رہے ہیں کہ ''افغان وطن خطرناک بحرانوں سے دوچار ہے، ہر جانب خون، گولہ بارود کی بد بو ہے اور پشتون قوم کے خون کے پیاسوں کی پیاس اب تک نہیں بھجی،اس لئے ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف کے پشتونوں اور افغانوں کی حالت انتہائی خطرناک ہے‘‘۔
محمود خان اچکزئی کے کہے ہوئے یہ الفاظ ایک بار پھرغور سے پڑھیے: '' ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف پشتونوں اور افغانوں کی حالت انتہائی خطرناک ہے اور یہ سر زمین جہاں ہم پشتون اور افغان بیٹھے ہوئے ہیں، چاہے وہ مہاجر ین ہیں یا کوئی اور پشتون، ہمیں اپنے آبائو اجداد سے ورثے میں ملی ہے اور ہمیں یہاں سے کوئی بھی نہیں اٹھا سکتا‘‘۔مت بھولیے کہ پشاور میں ہر بڑی اور اہم سرکاری عمارت پر''پختونخوا‘‘ کے بورڈ ولی خان کی صوبائی حکومت نے 16دسمبر کو آویزاںکر دیے تھے جبکہ مرکزی حکومت نے اس وقت تک صوبے کے نئے نام کی منظوری بھی نہیں دی تھی۔ وہ تو افواج پاکستان کی مداخلت پر بہت بعد میں قومی اسمبلی سے منظوری سے پہلے پختونخوا کے ساتھ ''خیبر پختونخوہ ‘‘ کا لفظ لگایا گیا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved