جس طرح پاکستان میں پاناما سکینڈل‘ میڈیا میں طوفان اٹھانے کے بعددھیما پڑتا جا رہا ہے‘ کم و بیش یہی صورتحال دیگر ملکوں کی ہے۔ ابتدائی شور میں جتنے لوگ اس کی لپیٹ میں آ گئے‘ انہیں تو نقصان بھی اٹھانا پڑا اور اعلیٰ عہدے چھوڑ کر گھروں میں بیٹھنا پڑا۔ لیکن جو لوگ ہٹ دھرمی سے ڈٹے رہے‘ یوں لگتا ہے کہ وہی فائدے میں رہیں گے۔ قارئین کو یاد ہو گا‘ پاناما پیپرز سے بہت پہلے میں نے اپنے ایک سرمایہ دار سیاستدان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی سرمایہ دار کلب کے رکن بن چکے ہیں اور یہ کلب اپنے تمام ''اراکین‘‘ کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ پاکستان کے سرمایہ دار سیاستدان کا ذکر کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا کہ اسے سرمایہ داروں کی عالمی کلب کی طرف سے ہر طرح کا تحفظ دیا جائے گا۔ اب تک میری یہ بات درست ثابت ہو رہی ہے۔ پاناما پیپرز کے موضوع پر میڈیا میں اب تک جو کچھ بھی آیا ہے‘ اس میں کوئی ٹھوس اقدام نظر نہیں آتا۔ ابتدا میں جو شور اٹھا تھا‘ اب ماند پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس سلسلے میںجو حالیہ رپورٹ سامنے آئی ہے‘ وہ پیش کر رہا ہوں۔
''پاناما پیپرز لیکس کو افشا شدہ دستاویزات کی تاریخ میں سنگِ میل قرار دیا جا سکتا ہے، جس کی وجہ سے دنیا کے کئی حصوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔دنیا کی سب سے زیادہ خفیہ کمپنیوںمیں شمار کی جانے والی پاناما کی کمپنی موسیک فونسیکا کی ایک کروڑ سے زائد دستاویزات کو افشا کر دیا گیا تھا۔ اس تفصیل سے ظاہر ہوا کہ آف شور کمپنیوں کا کاروبار کس طرح چلتا ہے۔اب تک پاناماپیپرز کا کیا نتیجہ سامنے آیا ہے؟ ہم نے ان صحافیوں سے بات کی جنہوںنے پاناما پیپرز کی خبر دنیا کے سامنے پیش کی تھی۔
فوری نتیجہ کیا تھا؟
اس کا پہلا شکار آئس لینڈ کے وزیراعظم سگمندر گنلوگسن بنے جنہوںنے پاناما لیکس کے کچھ ہی دن بعد استعفیٰ دے دیا تھا۔ پاناما لیکس سے معلوم ہوا کہ سگمندر گنلوگسن اور ان کی اہلیہ ایک آف شور کمپنی کے مالک ہیں جن کے بارے میں انہوں نے پارلیمان میں داخل ہونے سے قبل نہیں بتایا تھا۔ دیگر عالمی رہنماؤں میں روسی صدر ولادی میر پوتن اور پاکستانی وزیراعظم نواز شریف شامل ہیں جنہوں نے لیکس اور منی لانڈرنگ سے متعلق الزامات کو رد کیا ہے۔برطانیہ میں اس وقت کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو سیاسی خفت کا سامنا کرنا پڑا، جنہوںنے تسلیم کیا کہ ان کے والد ایئن کی جانب سے قائم ایک قانونی آف شور کمپنی سے ان کا خاندان مستفید ہوا تھا۔امریکہ سمیت متعدد یورپی اور ایشیائی ممالک نے لیک میں شامل اپنے شہریوں کے بارے میں تحقیقات کا آغاز کیا کہ آیا وہ قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب تو نہیں ہوئے؟ اس سب کے باوجود موسیک فونسیکا پر کسی غیرقانونی کام میں ملوث ہونے کا مقدمہ درج نہیں ہوا۔
پاناما پیپر کیسے افشا ہوئے؟
بیسٹین اوبرمیئر اور فریڈرک اوبرمائر وہ دو صحافی تھے جو ان لیکس کے ذمہ دار تھے۔ 2014 ء کی ایک شب اوبرمیئر اپنے بیمار بچوں کی دیکھ بھال کر رہے تھے جب انہیںایک پیغام موصول ہوا۔اس میں پوچھا گیا تھا ''ڈیٹا میں دلچسپی ہے؟‘‘
بعد میں پتہ چلا کہ یہ ڈیٹا دراصل جنوبی امریکی ملک پاناما کی لا فرم موسیک فونسیکا اور شیل کمپنیوںکا ہے، جو امیر لوگوں کے لیے بنائی گئی تھیں۔ وسل بلوئرز یا خفیہ اطلاع دینے والوں نے اپنی شناخت جان ڈو کے نام سے کروائی اور ان کی اصل شناخت تاحال راز ہے۔ان صحافیوں کو روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں فائلیں ملنا شروع ہوئیں اور جلد ہی ان کے پاس آف شور کمپنیوں کے بارے میں لاکھوں فائلیں جمع ہو گئیں۔ اس میں انہوںنے صحافیوں کے بین الاقوامی نیٹ ورک اور بی بی سی سمیت دنیا بھر سے رپورٹروں کی ٹیم کو شامل کیا۔
وہ کیا سوچتے ہیں؟
پاناما پیپرز کی نشر و اشاعت کے آٹھ ماہ بعد وہ کیا سوچتے ہیں کہ انہوںنے کیا حاصل کیا؟ اوبرمائر نے بی بی سی کو بتایا ''ہم نے انٹرنیشنل کنسورشیم فار انویسٹیگیٹیو جرنلسٹس کے ساتھ اس کا فالو اپ کیا ہے۔‘‘ انہوںنے بتایا ''ہمیں معلوم ہوا کہ دنیا بھر میں 79 ممالک میں تحقیقات کی جارہی ہیں، 6500 ٹیکس دہندگان اور کمپنیوں کی عالمی سطح پر تفتیش کی جارہی ہے اور موسیک فونسیکا نے اپنے نو دفاتر بند کر دیے ہیں۔ انہوں نے پاناما میں اپنے مرکزی دفتر کے باہر سے سائن بورڈز بھی ہٹا دیئے ہیں۔‘‘اوبرمائیر کا کہنا تھا کہ پاناما پیپرز سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیسے آف شور کمپنیاں دہشت گردی کی مالی امداد کے لیے استعمال ہو سکتی ہیں؟وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس لیک سے ظاہر ہوتا ہے کہ آف شور کمپنیاں صرف امیر لوگوں کے لیے ٹیکس بچانے کا ذریعہ ہی نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں پاناما پیپرز سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کمپنیوں کے ذریعے مجرمانہ سرگرمیوں کو چھپانے کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔وہ کہتے ہیں ''میں اس بات پر حیران نہیں تھا کہ امیر لوگ ٹیکسوں سے بچنے کے لئے آف شور کا استعمال کرتے ہیں۔ میں اس بات پر حیران تھا کہ اس میں بہت زیادہ جرائم پیشہ لوگ شامل ہیں۔ میرے خیال میں آف شور کمپنیوں کی بڑی تعداد اس لئے استعمال کی گئی ہے کہ وہ لوگ کچھ چھپانا چاہتے تھے۔‘‘ اوبرمائر کہتے ہیں کہ ان لیکس کی اشاعت سے کچھ بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔''بہت کچھ تبدیل ہوا، جرمنی میں ہمارے وزیر خزانہ نے ایک نیا ''پاناما قانون‘‘ متعارف کروایا (جس میں شہریوں کے لیے شیل کمپنیوں کے بارے میں بتانا لازمی قرار دیا گیا) اور پاناما خود بھی تبدیلی کی جانب بڑھ رہا ہے۔‘‘ان کا کہنا تھا کہ ''کچھ ممالک نے مستفید ہونے والے مالکان کو رجسٹر کرنے کا اعلان کیا ہے اور دیگر ممالک میں بھی اس بارے میں پہلی بار بات ہورہی ہے۔‘‘ان کا کہنا ہے کہ ''لیکن اس کے باوجود، ٹیکس سے بچنے والوں کی مدد کرنے والا کاروبار ابھی بھی نہیں بدلا اور ایسے ہی چل رہا ہے، ان کا اثرو رسوخ ہے، طاقت ہے، لابی گروپس ہیں۔ ہم آف شور کا خاتمہ نہیں دیکھتے لیکن ان کو سکڑتا ہوا ضرور دیکھ رہے ہیں۔‘‘
اس مسئلے کا حل کیا ہے؟
دونوں صحافی ٹیکس سے بچاؤ کے خاتمے کے لئے عالمی سطح پر مستفید ہونے والے مالکان کو رجسٹر کرنے کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔ مستفید ہونے والے مالک سے مراد ایک ایسا شخص ہے جو ایسی کسی کمپنی سے منافع حاصل کرتا ہے۔کتاب''دا گریٹ ٹیکس رابری‘‘ کے مصنف اور صحافی رچرڈ بروک ان دونوں صحافیوں کے مقابلے میں زیادہ مایوس کن صورتحال پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ''جو کوئی بھی رجسٹر ہو گا، اس میں آپ کو پولیس کی ضرورت ہو گی۔ آپ کو قانون کے نفاذ کے لئے وسائل درکار ہوں گے جو تحقیقات کر سکیں۔ بڑے منی لانڈرر اور مجرم اس میں سے بھی کچھ نکال لیں گے۔‘‘
دوسری جانب شفافیت کے قیام کی کوششیں پیچھے دھکیل دی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر یورپی یونین کو پبلک رجسٹر کے منصوبے پر سمجھوتہ کرنا پڑا کیونکہ کچھ رکن ممالک نے اس کی مخالفت کی تھی۔دنیا بھر میں پاناما پیپرز کے بعد کیے جانے والے اقدامات کس حد تک موثر ثابت ہوئے ہیں یہ تاحال ایک کھلا چیلنج ہے۔‘‘