تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     28-12-2016

فل ٹن پروگرام

سوشل میڈیا نے خبر کا اعتبار ختم نہ بھی کیا ہو مشکوک ضرور کر دیا ہے۔ جس کا جو جی چاہتا ہے لگا دیتا ہے۔ خواہش کو خبر بنانے کے عمل نے ہر خبر پر شکوک کے تنبو تان دیے ہیں۔ گزشتہ دنوں مجھے کسی دوست نے واٹس ایپ پر ایک دعوت نامہ کی فوٹو ارسال کی۔ یہ بڑا مزیدار دعوت نامہ تھا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ میں نے اسے سرے سے ہی مذاق سمجھا اور گمان کیا کہ کسی نے محض شرارت سے یہ دعوت نامہ بنایا ہے اور شغل کے طور پر واٹس ایپ پر پوسٹ کر دیا ہے۔ یہ ایک ''رسم حنا‘‘ کا دعوت نامہ تھا۔ تین بلاک پر مشتمل ایک صفحے کے اس دعوت نامے کے اوپر نیچے تین حصے تھے۔ پتہ ڈیرہ غازیخان کا بلاک نمبر 1 تھا اور میزبان و دولہا، شیخ برادری سے تعلق رکھتے تھے۔
سب سے نچلے حصے میں دائیں طرف پروگرام، درمیان میں تاریخ، مقام اور وقت لکھا ہوا تھا۔ بائیں طرف دو بوتلوں کی تصویر تھی۔ درمیان والے حصے میں دائیں طرف سراپا انتظار کے خانے میں چھ افراد کے نام تھے۔ بائیں طرف متمنی شرکت میں تین اصحاب کے نام لکھے ہوئے تھے اور درمیان میں تین بوتلوں کی تصویر تھی۔ سب سے اوپر والے خانے کے درمیان میں ''رسم حنا‘‘ شیخ محمد برہان لکھا ہوا تھا۔ بائیں طرف انہی تین بوتلوں کی تصویر تھی جو درمیانی خانے کے درمیان میں تھیں۔ ان بوتلوں پر رم، واڈکا اور وہسکی لکھا ہوا تھا بلکہ دائیں طرف، یعنی کارڈ کے آغاز میں چھپا ہوا تھا ''فل ٹن پروگرام‘‘۔ اس ساری تفصیل کے بعد میرا خیال ہے کہ آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ میں اسے شرارت اور مذاق کیوں سمجھا تھا؟
مملکت خداداد پاکستان میں ''فل ٹن پروگرام‘‘ ہوتے ہیں اور بکثرت ہوتے ہیں مگر اس طرح پوری تفصیل اور تصاویر کے ساتھ اس کا نہ کوئی رواج ہے اور نہ ہی معمول۔ میرا خیال تھا کہ کسی دوست نے بطور شغل اپنے دیگر دوستوں کو ''خراب‘‘ کرنے کی غرض سے سوشل میڈیا پر یہ کارڈ بنا کر لگا دیا ہے اور بس۔ لیکن دو چار دن بعد ڈیرہ غازیخان سے خبر آئی کہ پولیس نے چھاپہ مار کر مذکورہ کارڈ کے میزبانوں سے پینتالس کپیاں شراب برآمد کر لیں ہیں اور ایک عدد ایف آئی آر نمبر 362/16 تھا نہ سٹی میں زیرِ دفعہ 4/79، EM3/4 درج کر لی ہے۔
ایف آئی آر تقریباً ویسی ہی ہے جیسی عموماً پولیس درج کرتی ہے اور شکوک و شبہات سے بھرپور ہے۔ درج ہے کہ فلاں فلاں اے ایس آئی و کانسٹیبلان نمبری فلاں فلاں سرکاری گاڑی DGN-6489 پر بسلسلہ گشت سڑک پختہ درمیان بلاک نمبر 1 موجود تھے کہ مخبر (حسب معمول) نے اطلاع دی کہ آج رات شیخ برہان کی رسم حنا کا پروگرام ہے جس کا فیس بک میں ''فل ٹن پروگرام‘‘ آیا ہوا ہے۔ اس پروگرام کے لیے شیخ برہان کا بھائی احسن ولد ارشاد ذات شیخ سکنہ بلاک نمبر 1 پروگرام کے لیے ایک گٹو کپیاں شراب پیدل جاتے مغرب سے لے کر آرہا ہے۔ اگر ناکہ بندی کی جاوے تو پکڑا جا سکتا ہے۔ مخبر کی اس اطلاع کو معقول جان کر ناکہ بندی کی گئی۔ اتنے میں جانب مغرب سے ایک شخص پیدل آ رہا تھا جس نے بائیں کندھے پر سفید رنگ کا گٹو اٹھایا ہوا تھا جو پولیس پارٹی کو دیکھ کر دوڑتا ہوا جانب جنوب گلی میں داخل ہوا جس کا تعاقب کیا گیا تو مذکورہ گٹو پھینک کر جانب مشرق گلی میں دوڑتا ہوا رفو چکر ہو گیا۔ گٹو کو چیک کرنے پر گٹو میں سے 45 کپیاں شراب برآمد ہوئی ہیں۔ ہر کپی میں سے 10/10 ملی لیٹر شراب بذریعہ سرنج نکال کر ایک بوتل میں یکجا کر کے علیحدہ بطور نمونہ برائے تجزیہ PFSA لاہور اور باقی ماندہ 45 کپیاں سفید رنگ کے اسی گٹو میں بند کر کے پارسل پر1/1 مہر ثبت کر کے ، تیار کر کے بذریعہ فرد قبضہ پولیس میں لیے ہوئے ہیں۔ احسن شیخ شراب برائے نوش و فروخت اپنے قبضہ میں رکھ کر ارتکاب جرم EM3/4 4/79 کیا ہے، لہٰذا تحریر استغاثہ ہذا بجرم مذکورہ مرتب ہو کر بمراد قائمی مقدمہ بدست فلاں (نام) ارسال تھانہ ہے۔
ایمانداری کی بات ہے کہ فیس بک پر لگایا جانے والا ''فل ٹن پروگرام‘‘ کا کارڈ اور درج کی جانے والی یہ ایف آئی آر دونوں مزے کی چیزیں ہیں۔ ایف آئی آر بالکل اسی طرح کی ہے جس طرح پولیس روایتی ایف آئی آر درج کرتی ہے۔ مخبر کی اطلاع، پولیس پارٹی کی ناکہ بندی، ملزم کی آمد، پولیس پارٹی کو دیکھ کر بھاگنا، مال مذکورہ کو پھینک کر گلیوں میں دوڑنا اور پھر پولیس پارٹی کو جل دے کر غائب ہو جانا۔ مال مقدمہ کو تھانہ لے جانا اور ایف آئی آر درج کرنا۔ اس ایف آئی آر سے مجھے ایک اور ایف آئی آر بھی یاد آئی ہے جو میرے ایک ساٹھ سالہ عزیز کے خلاف درج کی گئی تھی اور وہ ساٹھ سالہ ملزم بھی کافی دیر سے منتظر پولیس پارٹی کو غچہ دے کر گلیوں میں بھاگ گیا اور جاتے ہوئے اپنا پستول پھینک گیا جو پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ یہ ایک اور مزیدار قصہ ہے لیکن اس پر پھر کبھی سہی۔ فی الحال تو ''فل ٹن پروگرام‘‘ کا معاملہ آن پڑا ہے۔
میں نے اپنے ایک دوست سے پوچھا جو ان معاملات میں نہ صرف وسیع تجربہ رکھتا ہے بلکہ ان چیزوں کا عملی تجربہ بھی کرتا رہتا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا، یہ ''فل ٹن پروگرام‘‘ کیا ہوتا ہے؟ کہنے لگا دراصل ٹن ہونے کو محض کسی مشروب سے منسوب نہیں کرنا چاہیے۔ ٹن ہونے کا تعلق مشروب سے منسوب تو ہے مگر صرف یہی وجہ کافی نہیں۔ ٹن ہونا دراصل ایک کیفیت کا نام ہے اور یہ بغیر پئے بھی طاری ہو سکتی ہے۔ ایک سردار گلی میں غل غپاڑہ کر رہا تھا۔ ہمسائے سے ایک آدمی آیا اور کہنے لگا بلونت سنگھا! کنی پیتی اے؟ (کتنی پی ہے؟) سردار بلونت سنگھ کہنے لگا، اجے پیتی نئیں۔ سریندر سنگھ نوں لین بھیجیا وے (ابھی پی نہیں، سریندر سنگھ کو لینے کے لیے بھیجا ہے۔) ویسے ٹن ہونے کا تعلق غل غپاڑے سے بھی نہیں۔ ٹن ہو کر انسانی کیفیات مختلف ردِ عمل کا اظہار کرتی ہیں۔ دماغ کو کوئی خبط بھی چڑھ جائے تو بندہ ٹن ہو جاتا ہے۔ مثلاً اب یہی دیکھو کہ شہباز شریف کو ملتان میٹرو کے افتتاح کی جلدی پڑی ہوئی ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ کل اس کا افتتاح ہو جائے، بھلے سے مکمل نہ بھی ہو، مگر افتتاح ہو جائے۔ بالکل ویسے ہی جیسے میاں نواز شریف نے ملتان خانیوال موٹروے کے ایک سیکشن کا افتتاح کر دیا۔ ابھی ٹال پلازے مکمل نہیں ہوئے تھے، موٹروے کے دونوں اطراف میں باڑ یعنی Fence لگی نہیں تھی اور افتتاح کر دیا گیا۔ بھلا دنیا میں ایسی کونسی موٹروے ہے جس کو کناروں سے محفوظ کیے بغیر اور حفاظتی دیوار یا باڑ لگائے بغیر آپریشنل کر دیا جائے؟ ظاہر ہے موٹروے آپریشنل نہیں ہو سکتی تھی مگر افراتفری میں افتتاح کر دیا گیا۔ بارہا سوچا کہ آخر اس جلدی کی، اس افراتفری اور نا مکمل موٹروے کے افتتاح کی کیا تک تھی؟ لیکن یہ بات آج بھی سمجھ سے بالا تر ہے۔ چوہدری بھکن کا خیال تھا کہ دراصل حکومت کو ہمہ وقت یہی خوف رہتا ہے کہ کہیں رات کو اس کی چھٹی نہ ہو جائے، لہٰذا وہ ہر کام جلد بازی میں کرنے کے خبط میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ یہ خبط در اصل اس کیفیت کا نام ہے جسے آپ لوگ ''ٹن پروگرام‘‘ کہتے ہیں۔
میرا وہی تجربہ کار دوست کہنے لگا، جس طرح سکھ ہونے کو محض ایک خاص مذہب کے پیروکار ہونے سے منسوب کرنا درست نہیں۔ سکھ صرف ایک مذہب کا نام نہیں بلکہ اب ایک کیفیت کا نام بھی ہے اور کسی شخص پر کسی بھی وقت طاری ہو سکتی ہے۔ اسی طرح ''ٹن‘‘ ہونے کو آپ محض بعد از مشروب نوشی والی کیفیت قرار نہیں دے سکتے، یہ ایک کیفیت کا نام ہے اور کسی شخص پر کسی بھی وقت طاری ہو سکتی ہے۔ 
وہی دوست کہنے لگا، اب آپ ملتان ٹریفک پولیس کو دیکھیں، ان پر آج کل چالان کرنے کی کیفیت طاری ہے۔ بلا سوچے سمجھے، اندھا دھند چالانوں کی یہ کیفیت بادہ نوشی کے بغیر ٹن ہونے والی کیفیت ہے اور یہ کیفیت زیادہ خطرناک ہے کہ بادہ نوشی والی کیفیت میں آپ پلاننگ کے تحت کچھ نہیں کر رہے ہوتے بلکہ آپ ایک وقتی کیفیت کے زیرِ اثر بلا سوچے سمجھے تھوڑی سی دیر کے لیے الٹی سیدھی کچھ حرکات کرتے ہیں اور پھر آپ مزے سے سو جاتے ہیں اور لوگوں کو آپ کی اس کیفیت سے چھٹکارہ مل جاتا ہے۔ مگر حالت ہوش میں ٹن ہو جانے کی کیفیت کافی دیرپا ہوتی ہے۔ مثلاً یہی چالان کرنے کی کیفیت گزشتہ ایک سال سے کچھ زیادہ زور و شور سے طاری ہے۔
وہی شہر ہے، وہی ٹریفک پولیس ہے، وہی ڈرائیور ہیں اور وہی بے ہنگم ٹریفک ہے۔ گزشتہ سال 2015ء میں چار لاکھ چالیس ہزار چالان ہوئے تھے۔ اس سال یعنی 2016ء میں اب تک بارہ لاکھ سے زائد چالان ہو چکے ہیں۔ ملک شوکت علی خان میرا پُرانا دوست اور کلاس فیلو ہے۔ کتابیں پڑھنے کا شوقین۔ ایک بار ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے کے اقتباسات سنا رہا تھا کہ بھٹو نے اپنے مقدمہ کے دوران ایک بار کہا کہ ''میں نے رنگین ٹیلی ویژن شروع کروایا کہ عوام کو سستی تفریح میسر آئے لیکن مدعا علیہ (ضیاء الحق کو اس مقدمہ میں اپنا فریق مخالف قرار دیتے ہوئے ) روز اپنی رنگین وردی زیب تن کر کے ٹیلی ویژن پر آکر بیٹھ جاتا ہے‘‘۔ بالکل اسی طرح پرویز الٰہی نے شہروں میں ٹریفک کا نظام بہتر کرنے کی غرض سے سٹی ٹریفک پولیس کا اہتمام کیا لیکن میاں شہباز شریف نے اس نظام کو لوگوں کو سہولت پہنچانے کے بجائے ذریعہ آمدنی بنا لیا ہے اور ملتان ٹریفک پولیس نے روزانہ اوسطاً تقریباً تین ہزار تین سو چالان کر کے ایک سال میں تیس کروڑ روپے سے زائد رقم عوام کی جیب سے نکلوا لی۔
اس دوران ملتان میں ون ویلنگ سے 15 اموات ہوئیں اور کل 110 لوگ جاں بحق ہوئے تاہم ریکارڈ میں یہ تعداد صرف 42 ظاہر کی گئی۔ ٹریفک پولیس ہر چوک پر صرف اور صرف چالانوں میں مصروف نظر آتی ہے یا سڑک کنارے کھڑے دو دو تین تین کی ٹولیوں میں گپیں مارتے یا موبائل سے کھیلتے نظر آتی ہے۔ شہر میں ٹریفک کا بُرا حال ہے۔ جگہ جگہ عموماً اور میٹرو روٹ پر خصوصاً ٹریفک جام ہونا معمول کی بات ہے لیکن کسی وارڈن کو سڑک پر ٹریفک کو رواں رکھنے میں مصروف شاذ ونادر ہی دیکھا ہو گا۔ بہرحال ملتان میں فی الحال راوی ٹریفک پولیس کو فل ٹن پروگرام میں مصروف بتاتا ہے کہ یہ کیفیت کا نام ہے اور کسی پر بھی طاری ہو سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved