تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     28-12-2016

ہمارے ہتھیار

توپ
اسے جہاں رکھتے ہیں اُسے توپخانہ کہا جاتا ہے جیسے غسلخانہ؛ حالانکہ وہاں غُسل نہیں رکھا جاتا۔ اس میں کیڑے پڑنے کی دُعا بھی مانگی جاتی ہے اگر وہ دُشمن کی ہو‘ لیکن وہ ایک توپ میں نہیں بلکہ ساری توپوں میں کیڑے ڈالنا مقصود ہوتا ہے۔ بعض اوقات اسے مچھر مارنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ بھنگیوں کی ہوتی ہے، جسے شہر کے کسی نمایاں چوک میں رکھا جاتا ہے۔ توپ چلانے والے کو توپچی کہتے ہیں جیسے ڈھول بجانے والے کو ڈھولچی۔ ایک شخص نے ڈپٹی کمشنر کو درخواست دی کہ اسے توپ کا لائسنس دیا جائے۔ ڈپٹی کمشنر نے حیران ہو کر اس سے پوچھا کہ توپ کا اس نے کیا کرنا ہے تو اس نے جواب دیا کہ میں نے ایک من چینی کے لیے درخواست دی تھی (اُس زمانے میں چینی راشن ڈپوئوں سے ملا کرتی تھی) تو مجھے پانچ کلو چینی کا پرمٹ ملا تھا، توپ کے لائسنس کی درخواست اس لیے دی ہے کہ مجھے پستول کا لائسنس تو مل ہی جائے گا۔ ایک مچھر مارنے کے لیے بھی بعض اوقات توپ سے کام لینا پڑتا ہے۔
ڈانگ
اُردو میں اسے لاٹھی کہتے ہیں جو چارپائی کے نیچے پھیرنے کے بھی کام آتی ہے۔ لاٹھی چلانے والے کو لٹھ مار کہتے ہیں جیسے مچھر مار۔ اولاد کے بعد یہ بوڑھوں کا واحد سہارا ہوتی ہے۔ یہ چلنے میں مدد دیتی ہے اور کُتوں کو ڈرانے اور مار بھگانے کا واحد ذریعہ ہے۔ ایک شخص اپنے دوست سے ملنے کے لیے گیا تو اس کے پاس لاٹھی ہونے کے باوجود کُتا اس پر بھونکنے لگا، اس نے دوست سے احتجاج کیا تو وہ بولا: ''کیا آپ نے پڑھا نہیں کہ بھونکنے والے کُتے کاٹا نہیں کرتے؟‘‘ تو وہ شخص بولا: ''میں نے پڑھا ہوا ہے‘ ہو سکتا ہے آپ کے کُتے نے نہ پڑھا ہو‘‘۔
اس سے دُشمن کا مقابلہ خوب کیا جاتا ہے بشرطیکہ اُس کے پاس بھی صرف لاٹھی ہو۔ 
کلہاڑی
یہ زیادہ تر اپنے پائوں پر مارنے کے کام آتی ہے۔ اس سے مسواک بھی بنائی جا سکتی ہے۔ کلہاڑا اس کا مذکر ہے جو لکڑیاں اور سر پھاڑنے کا ایک مناسب ذریعہ ہے۔ یہ لکڑی اور لوہے کے ملاپ سے معرض وجود میں آتی ہے، یعنی لکڑی اور لوہے کو ملا دیا جائے تو کلہاڑی پیدا ہو گی۔ لوہار اور ترکھان مل کر اسے بناتے ہیں۔ کلہاڑی کو کلہاڑی کیوں کہتے ہیں، اس کی وجہ تسمیہ ہماری سمجھ میں نہیں آئی ، شاید کلہاڑے سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے اسے یہ نام دیا گیا ہو‘ بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پہلے کلہاڑا وجود میں آیا ہو اور اُس کی رعایت سے اسے کلہاڑی کا نام دیا گیا ہو۔ اس سے شاخ تراشی بھی کی جاتی ہے جیسے الزام تراشی وغیرہ۔
گنڈاسا
کوئی پنجابی فلم اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتی اور اس کے بغیر کوئی ہیرو‘ ہیرو کہلانے کا حقدار نہیں ہو سکتا۔ یہ ڈانگ اور بڑے سے تیز لوہے کے پھل سے مل کر بنتا ہے۔ اس کا نام بھی عجیب سا ہے جو اس کی شخصیت سے ذرا بھی لگا نہیں کھاتا‘ یہ صرف نمائشی ہتھیار ہے کیونکہ کسی فلم میں آج تک اسے ولن کے خلاف استعمال ہوتے نہیں دیکھا گیا۔ البتہ اس کی موجودگی میں خاصی بڑی بڑھک ضرور ماری جا سکتی ہے۔ بندوق وغیرہ ایجاد ہونے کے بعد یہ ہمارے کلچر سے خود ہی باہر ہو گیا ہے۔ آج کل صرف عجائب گھروں میں دیکھا جا سکتا ہے؛ حالانکہ یہ کوئی خاص دیکھنے کی چیز بھی نہیں ہے اور عجائب گھر میں اس کی بجائے کوئی بہتر چیز بھی رکھی جا سکتی تھی۔
کرپان
یہ سکھ حضرات کی شخصیت کا لازمی حصہ ہے‘ بلکہ اس کے ساتھ کڑا اور کنگھا بھی۔ یہ ہتھیار کا ہتھیار ہوتا ہے اور سجاوٹ کی سجاوٹ۔ منقول ہے کہ ایک دفعہ کرپال سنگھ جنگل میں جا رہا تھا کہ سامنے اُسے آدم خوروں کا ایک ٹولہ آتا دکھائی دیا۔ وہ خوفزدہ ہو کر اور سر آسمان کی طرف اٹھا کر بولا: واہگور جی‘ میں تو مر گیا! اُوپر سے آواز آئی: ''کرپال سنگھ تُم مرے نہیں ہو۔ ان کا جو سردار‘ بڑے پیٹ والا آگے آگے آ رہا ہے اس کے پیٹ میں کرپان گھونپ دو!‘‘
کرپال سنگھ نے ایسا ہی کیا تو اُوپر سے آواز آئی: ''کرپال سنگھ‘ تُم پہلے نہیں مرے تھے‘ اب مرے ہو!‘‘
چُھری
اسے بغل میں رکھا جاتا ہے تاکہ مُنہ سے رام رام کا ورد کیا جا سکے۔ کثیر الاستعمال ہتھیار ہے کیونکہ سبزی کاٹنے سے لے کر گلا کاٹنے تک کے کام آتا ہے۔ ایک میٹھی چُھری بھی ہوتی ہے کہ اس پر شاید چینی وغیرہ کا کوٹ کیا گیا ہوتا ہے۔ اس کی مٹھاس کا اندازہ لگانے کے لیے اسے چکھنا ضروری ہے۔ اسے استعمال کرنے والے کو چُھری مار کہتے ہیں، جیسے چوہے مار اور مارو مار۔ چُھرا اس کا مذکر ہے اور دونوں کے ملاپ سے چاقو پیدا ہوتے ہیں۔ اب اس کے ساتھ کانٹے کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے لیکن وہ چُھری ذرا نفیس قسم کی ہوتی ہے جبکہ یہ عام چُھری جیسے کارنامے بھی سرانجام دے سکتی ہے یعنی، پیٹ پھاڑنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
چاقو
اسے خریدنے کے لیے وزیرآباد کا سفر اختیار کرنا پڑتا ہے۔ یہ سادہ بھی ہوتا ہے اور گراری والا بھی۔ یہ چُھری سے افضل اس لیے ہے کہ اسے بند کر کے جیب میں بھی رکھ سکتے ہیں۔ کند ہو جائے تو اسے تیز بھی کروایا جا سکتا ہے جبکہ کُند چُھری سے کسی کو ذبح کرنا زیادہ افضل سمجھا جاتا ہے۔ اسے خریدنے سے پہلے اس کی گراریاں اچھی طرح گن لینی چاہئیں۔ شکاری حضرات اسے لازماً ساتھ رکھتے ہیں۔ کسی کو چاقو مارنے سے پہلے اگر تکبیر پڑھ لی جائے تو اس کا ثواب دونوں کو پہنچتا ہے۔ اسے قلم تراش بھی کہتے ہیں‘ تاہم سرکنڈے کا قلم ناپید ہونے سے اس کی افادیت بھی خاصی کم ہو گئی ہے۔ اسے چقو بھی کہتے ہیں‘ اس کا لائسنس نہیں ہوتا حالانکہ ہونا چاہیے۔
آج کا مطلع
میرے دل میں محبت بہت ہے 
اور‘ محبت میں طاقت بہت ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved