تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     29-12-2016

جہالت کے جلو میں

کچھ فرشتے ہیں‘ کچھ شیطان۔ ایک گروہ کے فرشتے‘ دوسرے کے ابلیس ہیں۔ ایک کے ابلیس‘ دوسرے کے معصومین۔ انصاف اور عدل سے تہی‘ علم اور تحقیق سے بے نیاز‘ اپنی وحشتوں میں مبتلا معاشروں کو اس کے سوا کیا عطا ہو؟ ع
بگولا رقص میں رہتا ہے‘ صحرا میں نہیں رہتا
جو ستم پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت پر ہوئے‘ بے شک وہ بے شمار ہیں۔ بجا، بالکل بجا مگر وہ ستم جو اس کے اقتدار نے ملک پر توڑے؟ اس پر بھی کبھی غور کرنا چاہیے کہ کیا یہ مکافات عمل نہیں؟
ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ سر راہ بے نظیر بھٹو قتل کر دی گئیں۔ مشکوک حالات میں مرتضیٰ بھٹو مار ڈالے گئے۔ پیرس میں شاہ نواز بھٹو نے پُراسرار حالات میں موت کو گلے لگایا۔ آصف علی زرداری نے گیارہ برس کی جیل کاٹی۔ پارٹی کے کارکنوں کو کوڑے مارے گئے اور جلسے جلوسوں میں وہ ہلاک کئے گئے۔
یہ تاریخ کا ایک رُخ ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ اس کے اقتدار میں سینکڑوں بے گناہ جان سے گزر گئے اور اس طرح گزرے کہ ؎ 
نہ مدّعی نہ شہادت‘ حساب پاک ہوا
خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
27 دسمبر 2007ء کو‘ لیاقت باغ کی جس چار دیواری کے باہر بے نظیر بھٹو بے رحمی سے ماری گئیں‘ ٹھیک 34 برس نو ماہ اور چار دن قبل‘ ایسی ہی ڈوبتی شام کو‘ چودہ انسان یہاں زندگیاں ہار گئے تھے۔ اتنی ہی بے مہری‘ سفاکی اور شقاوتِ قلبی کے ساتھ۔
23 مارچ 1973ء کو متحدہ حزبِ اختلاف کے جلسۂ عام سے عبدالولی خان‘ پیر صاحب پگاڑہ شریف‘ مفتی محمود‘ سردار شوکت حیات‘ میاں طفیل محمد اور نوابزادہ نصراللہ خاں سمیت‘ اپوزیشن لیڈروں کو خطاب کرنا تھا۔ بلوچستان میں سردار عطاء اللہ مینگل کی منتخب وزارت برطرف کر کے باغیوں پر فوج چڑھا دی گئی تھی۔ سندھ میں احتجاجاً مفتی محمود کی حکومت نے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ سردار شوکت حیات کے سوا ابھی کوئی قابل ذکر لیڈر جلسہ گاہ میں نمودار نہ ہوا تھا۔ زیادہ تر ابھی اے این پی کے کارکنوں کی چہل پہل تھی کہ آس پاس کی چھتوں سے گولیاں برسنے لگیں۔ ایک افراتفری اور ہڑبونگ۔ یہ تو وہم گمان تک میں نہ تھا۔ کسی کو کچھ سجھائی نہ دے رہا تھا۔ یہ سامع بھی سٹیج پر کھڑا تھاکہ لاہور سے رپورٹنگ کے لیے آیا تھا۔ ہاتھ پائوں گھبراہٹ میں پھولے ہوئے۔ بھاگ جائیں یا ڈٹے رہیں؟ ہوش و خرد نے دم توڑ دیا تھا۔ سر پہ پائوں رکھے سرپٹ کچھ لوگ راہ فرار پہ تھے۔
اے این پی کے چند سو کارکن جمے رہے۔ جاتے بھی تو کہاں جاتے کہ مری روڈ پر بسوں کی وہ قطار دھڑا دھڑ جل رہی تھی‘ جن پر سوار ہو کر وہ آئے تھے۔ شعلوں کی لپکتی ہوئی زبانیں اور فضا میں پھیلتا ہوا دھواں۔ ایک بے سمت ہجوم کی ناقابلِ فہم بھنبھناہٹ اور خوف کی چاروں طرف تنی چادر۔ کوئی اپنے حال میں نہیں تھا‘ سب کے سب اندیشوں اور اوہام میں۔ ایک بڑا مجمع مگر ہر کوئی تنہا۔ موت کا خوف تنہا کرتا ہے ۔ بے بسی کا لاچار کر دینے والا احساس۔
اتنے میں ایک گروہ یکجا نظر آیا‘ پندرہ بیس تندومند آدمی۔ اندازہ ہوا کہ وہ اٹک پار سے آئے ہیں۔ صورتِ حال کو انہوں نے بھانپ لیا۔ ان کے ہاتھوں میں چھڑیاں تھیں۔ درختوں سے ابھی ابھی توڑی گئی چھوٹی بڑی شاخیں۔ انہیں وہ لہرا رہے تھے۔ راہ میں رکاوٹ بننے والوں کو دھکے دیتے‘ کسی کو ہدف بنانے کی کوشش میں۔ پھر وہ دکھائی دیا‘ ادھیڑ عمر کا ایک دراز قد‘ لحیم شحیم آدمی۔ غیر متعلق لوگ اب چھٹنے لگے۔ چھڑیاں اس پر برس رہی تھیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس کا پیکر لرزتا اور نہ اس کے منہ سے چیخ ابھرتی۔ کچھ حیرت زدہ‘ کچھ گھبرایا ہوا‘ وہ آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا تھا‘ یوں جیسے کوئی مست ہاتھی قابلِ برداشت زخم سہتے‘ قدم قدم آگے چلے۔کیا وہ نشے میں دھت تھا؟ 
پوری قوت صرف کرتے ہوئے‘ مارنے والے اب بپھر رہے تھے۔ صدمہ شاید انہیں یہ بھی تھا کہ وہ فریاد کیوں نہیں کرتا‘ روتا اور چیختا چلاتا کیوں نہیں۔ پھر وحشت سے وہ لپکے۔ دیکھتے ہی دیکھتے‘ یکسر وہ برہنہ تھا۔ سر سے پائوں تک۔ اس کے تن پہ برستی چھڑیاں ایک عجیب اذیت ناک احساس سے دوچار کرتی تھیں‘ جیسے کچا گوشت چبانے پر مجبور کر دیا گیا ہو۔ پہلا خیال یہ اُبھرا کہ انسان اتنے بے رحم کیسے ہو سکتے ہیں‘ دوسرا یہ کہ قتل عام میں کوئی خود کو سنبھال کیسے سکتا ہے؟
کوئی دیر میں‘ پنجاب کے گورنر مصطفی کھر سرکاری ٹی وی پہ نمودار ہوئے اور اے این پی پر ملک گیر فسادات کی منصوبہ بندی کا الزام لگایا۔ پھر سرحد کے زیادہ جواں سال گورنر حیات خاں شیرپائو اسی سیاہ و سفید سکرین پہ دکھائی دیئے۔ انہی الزامات کی تکرار لیے۔ 
سولہ برس بعد روزنامہ جنگ راولپنڈی کے دفتر سے نکل کر شاہراہ پر چہل قدم کرتے ہوئے‘ سادہ اطوار‘ انوار فطرت نے بتایا کہ اس روز دستی بموں سے بھرا ہوا تھیلا لے کے وہ لیاقت باغ کی جلسہ گاہ میں گئے تھے۔ کسی کے سپرد کرنے۔ وہ نہ ملا تو اِدھر اُدھر وہ گھومتے رہے۔ پیپلز پارٹی کا کمسن کارکن ۔ اگرچہ اب بھی بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی کے مخالف وہ نہیں تھے، کسی کے بھی نہیں۔ اب وہ اخبار نویس تھے مگر ایسے اخبار نویس کہ سیاست سے ذرا سی دلچسپی بھی نہ تھی۔ شعر کہتے‘ کتاب پڑھتے۔ الفاظ سے تصاویر بنا نے والے اہل کمال کے بارے میں بات کیا کرتے۔ سیاست اور آویزش کے وہ تھے ہی نہیں۔ اب بھی ایک اخبار کے لیے وہ لکھتے ہیں‘ بیشتر غیر سیاسی اور بیشتر شاعرانہ۔ ہومیو پیتھک دوائوں سے، جاننے والوں اور اجنبیوں کا علاج کرتے ہیں اور لگتا ہے کہ اکثر بے دام و درم۔ اپنے شناسائوں میں ایسا آدمی محبوب ہوتا ہے، اجتماع میں مگر نہیںچمکتا۔ اپنی تنہائی اور خاموشی میں وہ آسودہ ہیں۔ کلام میں بخیل اور رفاقت میں شاد۔
پینتالیس برس بیت گئے تو جمعہ خان صوفی کی کتاب ''فریب ناتمام‘‘ چھپی۔ 23 مارچ1977ء کو لیاقت باغ سے بھاگ کر کابل کا رخ کرنے والے اجمل خٹک کی داستان‘ جس میں رقم ہے۔ پاکستان کو توڑنے کا ایک اور منصوبہ ‘ سوویت یونین ‘ اندرا گاندھی اور سردار دائود خان کی تائید جسے حاصل تھی۔ کابل کے ان شب و روز کی کہانی‘ جو شاہی محلات‘ کمیونسٹ پارٹی کے دفاتر اور پراسرار ملاقاتوں میں پروان چڑھتی رہی۔ پختون زلمے کے نام سے منظم کئے جانے والے اے این پی کے سینکڑوں جواں سال کارکن افغانستان میں عسکری تربیت پا رہے تھے۔ آنے والی تمام اشتراکی حکومتوں میں بھی پاتے رہے؛ تاآنکہ بساط لپیٹ دی گئی۔ حیات خاں شیر پائو ایک بم دھماکے میں قتل کر دیے گئے تھے۔ جمعہ خان صوفی نے لکھا ہے کہ سردار دائود اس پر ناراض تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ تحریک قدم بہ قدم آگے بڑھائی جائے‘ اس پاگل پن کے ساتھ نہیں۔ محمد خان کو صوفی کا لقب‘ اجمل خٹک نے دیا تھا۔ ان کا خیال ہے کہ داڑھی بڑھانے کی وجہ سے۔ گمان یہ ہوتا ہے کہ ان کی سادہ مزاجی اور ان خوابوں کے اسیر ہو جانے پر‘جن کی درحقیقت کوئی بنیاد نہ تھی۔ نفرت کے احمقانہ بخارات، جو عظمت و شوکت کو پالینے کی تمنا کے تباہ ہونے پر اٹھتے ہیں۔
تاریخ کس طرح مسخ کی جاتی ہے‘ اپنے سامنے پے درپے‘ تہہ در تہہ‘ اس کے برپا ہوتے مناظر ہم دیکھ رہے ہیں۔ تعصبات‘ نفرت ‘ گروہی مفادات اور شخصیت پرستی کے جلو میں‘ جہالت کے جلو میں۔
کچھ فرشتے ہیں‘ کچھ شیطان۔ ایک گروہ کے فرشتے‘ دوسرے کے ابلیس ہیں۔ ایک کے ابلیس‘ دوسرے کے معصومین۔ انصاف اور عدل سے تہی‘ علم اور تحقیق سے بے نیاز‘ اپنی وحشتوں میں مبتلا معاشروں کو اس کے سوا کیا عطا ہو؟ ع
بگولا رقص میں رہتا ہے‘ صحرا میں نہیں رہتا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved