تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     29-12-2016

’’اب کوئی اور کرے پرورشِ گلشنِ غم‘‘

28دسمبر (2007ئ) کی سہ پہر گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں ایک اور قبر کا اضافہ ہو گیا۔ بھٹو کی پنکی کو باپ کے پہلو میں سلا دیا گیا۔ یوں تو مرتضیٰ‘ شاہنواز اور صنم بھی تھے لیکن بھٹو کی نظر میں یہ بے نظیر تھیں‘ ان کی پنکی‘ جو ان کی سیاسی جانشین بننے کی اہلیت رکھتی تھیں۔ خود بے نظیر بھی اپنے آپ کو باپ کا حقیقی وارث سمجھتیں۔ وہ اپنے بچپن اور دورِ طالب علمی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کرتیں کہ کس طرح بھٹو اپنے دوسرے بچوں کی نسبت ان پر زیادہ توجہ دیتے‘ ان کی زیادہ حوصلہ افزائی کرتے اور انہیں اندرا گاندھی سے لے کر جان آف آرک تک عالمی شہرت حاصل کرنے والی خواتین کی زندگیوں کا مطالعہ کرنے کی تلقین کرتے۔ اپریل 1972ء میں اندرا گاندھی کے ساتھ شملہ مذاکرات کے سفر میں بے نظیر بھی بھٹو صاحب کے ساتھ تھیں۔
اور جانشینی کا یہ خواب اس وقت شرمندۂ تعبیر ہو گیا جب صرف 35 سال کی عمر میں وہ پاکستان کی وزیر اعظم بن گئیں، عالمِ اسلام میں پہلی خاتون وزیر اعظم۔ لیکن جانشینی کا یہ سفر بہت کٹھن‘ بہت دشوار گزار ا تھا۔
واشنگٹن پوسٹ میں بے نظیر کے حوالے سے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے مولی مور نے لکھا‘ یہ 1994ء کے موسمِ سرما کی ایک سرد صبح تھی۔ محترمہ کی وزارتِ عظمیٰ کا دوسرا دور‘ جب سکیورٹی گاڑیوں کے درمیان ایک کار میں بے نظیر کے ساتھ گفتگو میں اس نے پوچھا‘ کیا آپ چاہتی ہیں کہ آپ کے بچے بھی عملی سیاست میں آئیں؟... نہیں ہرگز نہیں... انہوں نے بڑے زور سے کہا‘ پاکستان میں سیاست بہت خطرناک ہے۔
وہ 26 سال کی تھیں‘ جب باپ قتل کے مقدمے میں پھانسی چڑھ گیا‘ پھر چھوٹا بھائی شاہنواز پیرس میں اپنے فلیٹ میں مردہ پایا گیا۔ خود انہوں نے تقریباً5 سال قید و بند میں گزارے۔ اس میں قید تنہائی بھی تھی۔ خود ساختہ جلاوطنی کا عرصہ اس کے علاوہ تھا۔ مولی مور سے گفتگو کے وقت ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ قسمت میں مزید کیا کیا المیے لکھے ہیں۔ مرتضیٰ بھٹو کا قتل اور وہ بھی اس وقت جب وہ خود وزیر اعظم تھیں‘ اور سندھ میں بھی ان کی اپنی پارٹی کی حکومت تھی۔ پھر اپنے ہی ''فاروق بھائی‘‘ کے ہاتھوں برطرفی اور اس کے بعد سیاسی ناکامیوں اور آزمائشوں کا نیا سلسلہ۔ طویل جلاوطنی‘ دربدری اور اس دوران وطن سے باہر بھی (مثلا سوئٹزرلینڈ میں) کرپشن کے مقدمات۔
یہ سخت آزمائش کا دور تھا۔ آصف زرداری پاکستان میں پسِ دیوارِ زنداں تھے۔ والدہ دبئی والے گھر میں ہوش و خرد سے بے گانہ تھیں۔ بلاول‘ بختاور اور آصفہ کی دیکھ بھال اور ان کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بھی تھی لیکن انہوں نے حوصلہ نہ ہارا۔ جنرل مشرف کے شب خون پر یہ اُمیدفطری تھی کہ اب دن بدل جائیں گے۔ ڈکٹیٹر سیاسی حمایت کے حصول کے لیے‘ نواز شریف کے مخالفین کی طرف ہاتھ بڑھائے گا‘ لیکن اس نے دروازے بند رکھے۔
تب انہوں نے امریکی روابط سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک کھلا راز تھا‘ (اس کے لیے نیو یارک ٹائمز کی گواہی بھی موجود) کہ جلا وطنی کے دوران وہ واشنگٹن میں اقتدار کی راہداریوں کے ساتھ مؤثر روابط کے لیے کوشاں رہیں۔ ایک عرصے تک بُش ایڈمنسٹریشن نے انہیں فاصلے پر رکھا کہ اسے پاکستان میں ڈکٹیٹر کی خوشنودی عزیز تر تھی جو نائن الیون کے بعد امریکہ کا نان نیٹو اتحادی بن گیا تھا اور پاکستان کے بری‘ بحری اور فضائی راستے اور انٹیلی جینس معلومات سمیت جملہ وسائل امریکیوں کے سامنے ڈھیر کر دیئے تھے۔ لیکن بے نظیر نے ہمت نہ ہاری۔ جنوبی ایشیا کے لیے امریکہ کے سابق سیکرٹری آف سٹیٹ کارل انڈرفرتھ‘ جو ستمبر میں واشنگٹن کی ایک ڈنر پارٹی میں محترمہ کے ساتھ ایک ہی ڈنر ٹیبل پر تھے‘ کے بقول ''وہ کمال درجے کی نیٹ ورکر تھیں‘ وہ رابطوں میں لگی رہتیں‘‘ انہوں نے امریکہ کی پولیٹیکل‘ ڈپلومیٹک اور میڈیا ایلیٹ کے ساتھ ''نیٹ ورکنگ‘‘ جاری رکھی۔ بش ایڈمنسٹریشن کے حکام کے مطابق وہ بڑے تذبذب کے ساتھ محترمہ کی طرف ملتفت ہوئے‘ جب پاکستان میں ڈکٹیٹر کی اپنی غلطیوں‘ مثلاً چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف کارروائی اور لال مسجد... جامعہ حفصہ آپریشن اور ان پر اپوزیشن جماعتوں‘ وکلا برادری‘ سول سوسائٹی اور عوام کے شدید ردعمل کے باعث اقتدار پر اس کی گرفت کمزور ہو گئی اور خطرہ محسوس ہونے لگا کہ امریکہ کا نان نیٹو اتحادی گہرے بھنور میں پھنس جائے گا۔ موسم گرما 2007ء میں بش ایڈمنسٹریشن اس نتیجے پر پہنچی کہ اب بے نظیر بھٹو کے ساتھ پاور شیئرنگ ہی پاکستان میں ڈکٹیٹر کو بچانے کا واحد راستہ ہے؛ چنانچہ ''ڈیل‘‘ طے پا گئی (5 اکتوبر کا این آر او) لیکن محترمہ کو الیکشن کے بعد وطن واپس آنا تھا۔ ڈیل کے اس حصے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہ 18 اکتوبر کو پاکستان پہنچ گئیں۔ کراچی میں ان کے استقبالی جلوس میں 2 بم دھماکے ڈیڑھ سو افراد کی جان لے گئے۔ محترمہ نے اس کا الزام انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ اور دو وزرائے اعلیٰ پر لگایا۔ ان کے بقول انہوں نے پاکستان روانگی سے قبل ہی صدر مشرف کے نام خط میں ان تینوں کا نام لکھ دیا تھا۔ بعد میں امریکہ میں اپنے لابیسٹ مارک سیگل سے خط کتابت (ای میل) میں انہوں نے خود پر کسی حملے کی صورت میں مشرف کو بھی نامزد کر دیا تھا۔ مشرف کے ساتھ ان کی ٹیلی فونک گفتگو کی ریکارڈنگ بھی منظرِ عام پر آئی۔ وہ اپنی سکیورٹی کے حوالے سے استفسار کر رہی ہیں جس پر مشرف کا جواب تھا‘ اس کا انحصار میرے ساتھ آپ کے معاملات کی نوعیت پر ہے۔ ایک انٹرویو میں مشرف کا کہنا تھا کہ محترمہ‘ امریکہ کے ذریعے طے پانے والے معاہدے کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔لیکن معاملہ اتنا ناخوشگوار نہیں کہ الیکشن کے بعد مل کر کام نہ کیا جا سکے۔
27 دسمبر کا آغاز ہی تشویشناک خبروں سے ہوا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کی ریلی پر فائرنگ میں 4 کارکنوں کی موت‘ نواز شریف بھی اس روز راولپنڈی میں تھے۔ ادھر لیاقت باغ میں محترمہ کا جلسہ تھا۔ دنیا بھر میں ٹی وی چینلز کے ناظرین کے کان اور آنکھیں ادھر لگی ہوئی تھیں۔ جلسہ بحسن و خوبی اختتام کو پہنچا تو سب نے سکھ کا سانس لیا‘ لیکن موت قریب ہی منڈلا رہی تھی۔ اور پھر المیہ ہو گیا۔ ڈوبتے سورج کے ساتھ بھٹو کی چہیتی کی نبضیں بھی ڈوب گئیں۔ راولپنڈی جنرل ہسپتال میں ڈاکٹروں نے 35 منٹ تک ہر ممکن کوشش کی اور بالآخر 6 بج کر 16 منٹ پر اعلان کر دیا‘ بھٹو کی بیٹی اب دنیا میں نہیں رہی تھی۔ 
پاکستان جیسے ملک میں‘ جہاں سیاسی ادارے مستحکم نہ ہوں‘ افراد بہت اہم ہو جاتے ہیں۔ حسین شہید سہرودی مرحوم کہا کرتے تھے‘ ''مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں رابطے کے دو ہی ذریعے ہیں۔ ایک مَیں اور دوسرا پی آئی اے‘‘... عقیدت مند انہیں ''چاروں صوبوں کی زنجیر‘‘ کہتے تو اس میں کوئی مبالغہ نہ تھا۔ یہ ''شکایت‘‘ بجا کہ الیکشن مہم کے دوران وہ اپنے صوبے میں ''سندھ کی بیٹی‘‘ بن جاتیں۔ سندھی اجرک اوڑھ لیتیں۔ کبھی کبھار ''سندھی وزیر اعظم‘‘ اور ''پنجابی وزیر اعظم‘‘ کی بات بھی کر جاتیں‘ لیکن مجموعی طور پر انہوں نے قومی سطح کی سیاست کی۔ اپنے صوبے میں وہ ''قوم پرستوں‘‘ کے راستے کی سب سے بڑی دیوار تھیں۔ ان کی موجودگی میں ''سندھی قوم پرستی‘‘ کا دیا ٹمٹا کے رہ جاتا۔ سندھ میں ''قوم پرستی‘‘ کی تحریک خاصی قدیم ہے لیکن قوم پرستوں نے جب بھی الیکشن لڑا‘‘ اپنی ضمانتیں بھی نہ بچا سکے۔ سرحد اور بلوچستان میں بھی پیپلز پارٹی نے پاکستان پرستی کا علم بلند کئے رکھا۔ پنجاب کسی زمانے میں پیپلز پارٹی کا پاور بیس تھا۔ اب یہاں نواز شریف (اور ان کی مسلم لیگ) سب سے بڑی قوت کے طور پر موجود ہیں۔ بے نظیر کی طرح وہ بھی چاروں صوبوں کی زنجیر بن گئے تھے۔ 1997ء کے الیکشن میں انہوں نے سندھ سے بھی قومی اسمبلی کی درجن بھر سیٹیں جیت لی تھیں‘ ان میں کراچی کی دو قومی نشستیں بھی تھیں۔2007ء میں جلاوطنی سے واپسی پر سندھ میں ایک بار پھر ان کے لیے بڑی گنجائش تھی۔ لیکن وہ اس طرف بھرپور توجہ نہ دے پائے۔ 2013ء میں ان کے ہارنے والے امیدواروں نے بھی ہزاروں ووٹ لئے تھے۔ ان میں چار‘ پانچ سابق وزرائے اعلیٰ بھی تھے۔ سندھ (دیہی اور شہری) میں آج مسلم لیگ (ن) کس حال میں ہے؟ اور اس حال میں کیوں ہے؟ یہ ایک الگ موضوع ہے۔
بے نظیر المیے پر شروع ہونے والے کالم کا اختتام فیض احمد فیض کے ساتھ کرتے ہیں ؎
دوستو! قافلۂ درد کا اب کیا ہو گا؟
اب کوئی اور کرے پرورشِ گلشنِ غم
دوستو! ختم ہوئی دیدۂ تر کی شبنم
تھم گیا شورِ جنوں‘ ختم ہوئی بارشِ سنگ
خاکِ رہ آج لئے ہے‘ لبِ دلدار کا رنگ
کوئے جاناں میں کُھلا اپنے لہو کا پرچم
دیکھیے دیتے ہیں کس کس کو صدا میرے بعد

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved