گلزار صاحب کی خوش گپیوں کا آبشار بہے چلا جاتا تھا۔ جوش صاحب کا ذکر خیر کیوں نہ ہوتا۔ جب کوئی خُوبرو ہتھے چڑھتا مختلف اشارات سے کام لیتے‘ مثلاً ایک کتاب حاضر ہے‘ میں نے سرسری مطالعہ کیا ہے‘ کوئی یہ پُرزہ لیے چلا آ رہا ہے‘ رجسٹر بھجواتا ہوں‘ اس پر کُتب خانہ گلزار کی مہر لگی ہوئی ہے۔ جسے جوش رام نہ سکتے، احباب کے نرغے میں آ جاتا تو بہت خوش ہوتے۔ گلزار کہتے تھے اگلے وقتوں کے لوگ۔۔۔ وہ لوگ معصوم، غوث و ابدال تھے ادب کے۔
بے شمار لطیفے مجھے کیا یاد رہتے۔ ہم تو اپنی قوتِ بازو پر جیتے ہیں۔ یادوں کی برات میں بہت کم سچائیاں بیان کی گئی ہیں‘ یہ تو نمونہ از خروارے ہیں، فرش کردوں۔ ٹیگور عصائے موسوی ید بیضا۔ انگریز کے بعد تقسیم ہم نے سیکھی ہے۔ لونڈے بازی تو نمک سلیمانی ہے۔ افطار‘ سحر خیزی‘ لونڈیا۔ کسی پر انگریز کی نظر پڑ گئی تو شمس العلماء نہیں تو کچھ نہ کچھ تو بن ہی گیا اور یہاں ماں...رہی ہے شاعری کی۔ غرض ایک طومار تھا۔ لکھ لیتا تو اچھا ہی رہتا۔ بُری بھلی سبھی باتیں محفوظ کیے جانے میں حرج ہی کیا ہے۔ ہر زبان کا بڑا حصہ لُغاتِ ناملائم پر مشتمل ہوتا ہے لیکن اُسے ضبطِ تحریر میں کوئی نہیں لاتا۔ ایسا آخر کیوں ہے۔ دلی میں پہلی رات تھی۔ کمرے کی دیواروں پر لکڑی کے تختے چڑھے ہوئے۔ سنگھار میز، ایک کُرسی، ایک میز، الماریاں چھوٹا موٹا سامان رکھنے کے لیے الگ‘ کپڑوں کے لیے الگ۔ سوا بارہ بجے تک تو میں لکھتا ہی رہا۔ نیند اُڑ چکی تھی۔ بھوک بھی غائب‘ اب ذرا دم بھی تو لینے دو یارو۔ ایک ہی سانس میں اتنی ساری باتیں سُنا دیں۔ ہاں خوب یاد آیا دفتر سب رنگ میں گفتگو یہ تھی کہ رئیس صاحب دلی کیوں جاتے ہیں۔ میں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا بھئی وہ کنور مہندر سنگھ تشریف لائے تھے نا پچھلے دنوں‘ اب رئیس جا رہے ہیں۔ شکیل کے مُنہ سے بے ساختہ نکلا، اچھا اچھا پاکستان کے سکھ حضرت رئیس امروہوی ہیں۔
تو صاحبو! یہ تھا ہمارا دلی میں روزِ اوّل، پہلی شام۔ چند ہی گھنٹوں میں یہی جانا اپنا گھر‘ اپنا وطن! خدا لگتی یہی ہے، بہت خوبصورت ہے، بے حد حسین۔ آئو بچو سنو کہانی ایک تھا راجہ ایک تھی رانی۔ دونوں نے مل کے کھیر پکائی اور مغلوں کے دور میں دلیہ بنتے بنتے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی بہترین نمائندگی نے مناسب حصہ لے کر اس کھیر کا ہمیں دے تو دیا۔ اب وہ ہم سے ہضم نہیں ہوتا۔ سنبھالا نہیں جاتا۔ اِسے کفرانِ نعمت بھی کہہ سکتے ہیں۔ سفرنامہ کیا ہے‘ داستان گوئی کا ایک بہانہ ہاتھ آ گیا ہے۔ میر باقر علی بھی تو دلی ہی کے تھے۔ کہیں مجھ پر ان کا آسیب تو نہیں۔ متحدہ ہندوستان کی تاریخ پر بحث صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ پاکستان کے پینتیس برسوں میں طرح طرح کے قصے کہانیاں بیان ہوئی ہیں۔ ویسے ہمارا سفر تو تیرہ صدیوں کا احاطہ کرتا ہے۔ آزادی کے مزے لوٹنے کے ابتدا ہندو اور مسلمانوں نے قتل و غارت گری سے کی تھی۔ لکھنے والوں کے لیے یہ بڑا لطیف اور لذیذ موضوع تھا۔ افسانہ نگاروں نے کہانی کی آڑ لے کر بڑی لرزہ خیز سچائیوں کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا۔ دیدۂ عبرت نگاہ ہو تو سعادت
حسن منٹو کا افسانہ ''ٹھنڈا گوشت‘‘ کافی ہے۔ ناولوں کے تو انبار لگ گئے۔ پچاس ہزار عورتیں بھی ایک ناول کا عنوان یاد پڑتا ہے اور یہ جھوٹ نہیں‘ اندوہناک سچ تھا بھی‘ ہے بھی۔ اب کچھ اور لکھنے کی گنجائش کہاں رہی ہے۔ سب کچھ بھول بھال گئے یار لوگ۔ وہ تو قصہ پارینہ ہے‘ بنگلہ دیش کا عدم سے وجود میں آنا ہماری کیسی کوتاہ اندیشیوں اور بے حمیتی کا مظہر ہے۔ کل ہی کی بات ہے‘ اسے بھی ہم نے ہفتوں مہینوں میں چُٹکیوں میں اُڑا دیا۔ ایک مستقل موضوع جنگی قصے کہانیاں ہیں‘ یہ بھی بڑی جانگداز حقیقتیں ہیں۔ پڑھتے تو سبھی ہیں۔ اس کان سے سُننے اور دوسرے کان سے اُڑانے کا مرض عام نہ ہوتا تو کوئی نہ کوئی بات اُوپر سے گزرتے گزرتے کھوپڑی میں بیٹھ بھی جاتی۔ جنگ کے بادل چھٹے‘ آنے جانے کے لیے ہوا سازگار ہوئی۔ ہر طرح کی یلغار بڑھی۔ سفرناموں کی بھرمار ہوئی۔ میری باتوں میں گلوں کی خوشبو کہاں سے ہو گی۔ سپاٹ سی روداد ہے ''فتح دہلی‘‘ کی۔ بائیس خواجہ کی چوکھٹ‘ شاہ جہان آباد‘ غالب کا شہر‘ مغلوں کا پایۂ تخت، مسلمانوں کا ملجا و ماوا شاہی قلعہ‘ جامع مسجد اور جانے کیا کیا تو بعد میں کُھلا۔ دلی اور دہلی سے سابقہ پان سات برس کی عمر میں پڑ چکا تھا۔ ابا مرحوم سیّد مبارک شاہ جیلانی بانی مبارک اردو لائبریری مدیر مسئول سہ ماہی لالہ صحرا‘ سرزمین بہاولپور‘ افسوس اسے اب سابق ریاست بہاولپور لکھنا پڑتا ہے۔ سندھ سے محلق ایک چھوٹے سے گائوں محمد آباد میں پیدا ہوئے۔ یہیں پلے یہیں بڑھے۔ محمد آباد اور اس کے آس پاس کہ کوئی مدرسہ قاسم العلوم اور دارالعلوم، ہائی سکول کالج بھی ناپید‘ طُرفہ یہ کہ بچپن ہی میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ اپنے فطری ذوق اور جنون کو رہنما بنایا‘ اڑوس پڑوس کے ملائے حجرہ گیر کام آئے۔ کسی سے کریما کا سبق لیا‘ کہیں پند نامہ پڑھا، کوئی انوار سہیلی سے آشنا کر گیا۔ رفتہ رفتہ شاہنامہ گلستان و بوستان تک پہنچے۔ اردو کا چلن دفاتر کی حد تک تو تھا، بول چال کے لیے ایک ہی زبان تھی سرائیکی‘ دربار بہاولپور کی زبان۔ ایک زمانے میں دفتری زبان فارسی بھی رہ چکی تھی لیکن ہمارے والد معارف اعظم گڑھ اور نگار لکھنئو کی راہ سے رفتہ رفتہ فنافی الاردو ہو کر رہ گئے۔ کچھ نہیں جانتے مگر نیاز فتح پوری کے فراق میں ازخود رفتہ لطف وصال کے لیے 1925ء میں بھوپال جا پہنچے۔ نیاز لکھنوی لیے گئے‘ ریاض خیر آبادی اور وصل بلگرامی کے حوالے کیا۔ اُردو اور یوپی کی تہذیب و ثقافت کے دلدادہ اور ایسے عاشق کہ شلوار نہیں پاجامہ پہنو۔ مجھے تو 1949-50ء میں رئیس احمد جعفری کے حوالے کیا گیا لیکن برادرِ بزرگ یہاں وہاں نہیں، دُور بہت دُور سرسید کے علی گڑھ کے بعد محمد علی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی دُھوم تھی۔ ہماری عمر ہی کیا تھی‘ پانچ چھ سات برس ہی تو رہی ہو گی۔ دلی کا نام اُس وقت کانوں میں پڑا۔ عمر کے ساتھ ساتھ دلی کا مرتبہ و مقام بھی بڑھتا گیا۔ یہ تو ہمارا پایۂ تخت تھا جسے انگریز نے تہہ و بالا کر دیا۔ غالبؔ نے جو ہوا باندھی وہ الگ‘ سال میں ایک دو بار بھائی کے ساتھ ابا بھی جایا کرتے تھے۔ ہمیں چونکہ سفر کے قابل نہیں جانا جاتا تھا‘ نظراندازِ کرتے تھے اس لیے اور ہماری نظر میں دلی کی اہمیت بڑھ جاتی تھی۔ سن غالباً 1945-46ء کی جوبلی تقریبات میں شرکت کے لیے جب ابا نے رختِ سفر باندھا تو رویا دھویا تو بہت لیکن شنوائی نہ ہوئی۔ یہ زخم یوں اور گہرا ہوا کہ مجھ سے ذرا بڑے میرے چچازاد بھائی ولی محمد شاہ کی عمر جوبلی اور دلی کی سیر دیکھنے کے قابل سمجھی گئی۔ ہم دل مسوس کر رہ گئے۔ اباّ نے ایک چرکا اور لگایا‘ دلی سے لکھا افسوس انیس کو ساتھ نہ لا سکا۔ اُسے دلی کی سیر دکھانا چاہیے تھی۔ بھائی 1948ء میں میٹرک کر کے، ریل اور سڑک کا سفر محدود ہو چکا تھا‘ ہوائی راستوں سے لاہور ہوتے ہوئے گھر آئے۔ دسمبر 1949ء میں ہم کراچی میں داخل ہوئے اور دلی وغیرہ سب محو ہو گئے، البتہ لال قلعے کی فصیل پر کھڑے ہو کر پنڈت جواہر لال نہرو، لال بہادر شاستری اور اندرا گاندھی جب جب سُنا‘ ذہن شاہ جہاں اور ظفر کی طرف‘ ضرور منتقل ہوا...
آج کا مطلع
کئی دن سے ترے ہونے کی سرشاری میں رہتا ہوں
میں کیا بتلائوں آسانی کہ دشواری میں رہتا ہوں