تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     29-12-2016

یہ کھیل نہیں ہے بچوں کا

علم کی ترسیل ایک مستحسن عمل ہے۔ بہت سوں کو یہ عمل بہت آسان دکھائی دیتا ہے مگر جب اس میدان میں قدم رکھیے تب اندازہ ہوتا ہے کہ ع 
اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے! 
سب سے پہلے تو علم حاصل کرنا پڑتا ہے۔ علم حاصل کرنے کے لیے پہلے علم حاصل کرنے کی لگن پیدا کرنی پڑتی ہے اور پھر اس لگن کو برقرار بھی رکھنا پڑتا ہے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ دو تین لیکچر سُن کر یا پانچ دس معیاری (اور ڈھیروں بے فیض یا غیر متعلق) کتابیں پڑھ کر آپ میں علم کے حصول کی حقیقی لگن پیدا ہوجائے گی تو یہ یقیناً آپ کی خوش فہمی اور خام خیالی ہے۔ 
اور پھر علم کا حاصل کر لینا بھی کافی نہیں۔ اگر آپ واقعی علم کا فروغ چاہتے ہیں تو خود کو علم کی ترسیل کے لیے بھی تیار کرنا ہو گا۔ جو کچھ آپ نے سیکھا ہے وہ دوسروں تک پہنچانے کے لیے ویسے تو کوئی بھی عمومی طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے مگر ایسا کرنے سے بات بنتی نہیں، خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ جس طور علم کا حاصل کرنا ایک خاص ذہنی حالت مانگتا ہے بالکل اُسی طور علم کی ترسیل یعنی دوسروں تک علم پہنچانا بھی ایک خاص ''فریم آف مائنڈ‘‘ کا متقاضی ہے۔ جب تک آپ اس حوالے سے مطلوبہ معیار کی تیاری نہیں کریں گے تب تک معاملات کولھو کے بیل کی طرح ایک مخصوص دائرے میں گھومتے رہیں گے۔ 
صفدر آباد، پنجاب سے ثمران احمد وڑائچ ہمیں یاد کرتے رہتے ہیں۔ اس خلوص کا جواب ہم انہیں اپنے تازہ اشعار کا ہدف بنا کر دیتے ہیں! گزشتہ دنوں ثمران احمد کا فون آیا کہ وہ اب ایم فل مکمل کر چکے ہیں اور پی ایچ ڈی کی طرف پیش قدمی جاری ہے۔ یہ سن کر ہمیں بے حد مسرت ہوئی مگر دل کو تھوڑا سا دکھ بھی ہوا۔ مسرت اس بات کی تھی کہ وہ اب خیر سے ڈاکٹر کہلائیں گے اور زیادہ ڈھنگ سے کھا کمائیں گے۔ دکھ اس بات کا نہیں تھا کہ انہوں نے ایم فل کر لیا اور ہم اب تک ڈھنگ سے m.fill بھی نہیں کر پائے! سچ تو یہ ہم نے جس تواتر سے انٹ شنٹ کتابیں پڑھی ہیں، بلکہ پڑھتے ہی جا رہے ہیں اُسے دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ بہت سے احباب مستقل بنیاد پر land-fill کی منزل میں ہیں! 
تو صاحب، دکھ اس بات کا ہوا کہ ثمران احمد کیرا منڈی، صفدر آباد کے جس سرکاری سکول میں پڑھاتے ہیں اب وہاں پڑھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ بھلا کوئی پی ایچ ڈی کرکے بھی بچوں کو پڑھاتا ہے؟ حالانکہ بچوں کو پڑھانا ہی تو اصل پڑھانا ہے۔ ؎ 
ایں سعادت بزورِ بازو نیست 
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ! 
ہم نے بارہا یہ تماشا دیکھا ہے کہ لوگ جس قدر بڑی سند حاصل کرتے ہیں اُسی قدر بڑی کلاسز کو پڑھاتے ہیں۔ آپ بھی سوچیں گے بات تو درست ہے، جب انسان زیادہ پڑھ لے تو اُسے زیادہ بلند کلاس کو پڑھانا چاہیے۔ پہلے ہم بھی یہی سمجھتے تھے مگر بعد میں جب اہلِ علم نے سمجھایا تو (کم از کم اپنی) حماقت کا احساس ہوا۔ 
گریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ اور ڈاکٹریٹ یا پوسٹ ڈاکٹریٹ سطح کی کلاسز کو پڑھانا بھی یقیناً دل گردے کا کام ہے اور بہت بلند سطح پر جا کر نکات کو سمجھانا پڑتا ہے، دلائل کی بساط بچھانی پڑتی ہے۔ یہ سب بچوں کا کھیل نہیں۔ علم کی ترسیل واقعی پِتّہ پانی کرنے والا معاملہ ہے۔ مگر کبھی آپ نے اس حقیقت پر غور کیا ہے کہ ایم اے، پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کی سطح پر پڑھانا بہت مشکل ہوتے ہوئے بھی اُتنا مشکل نہیں جتنا پرائمری سے سیکنڈری کی سطح تک پڑھانا ہے؟ اوروں کا تو کچھ علم نہیں، ہم نے جب بھی ایسی کوئی کوشش کی‘ ہمیں تو لگ پتا گیا ہے اور ساری کی ساری ''صحافتیت‘‘ اور نام نہاد ''علمیت‘‘ خاصی کھل کر سامنے آ گئی ہے! چھوٹی کلاسز کے بچوں کو کوئی بھی بات یاد کرانا تو خاصا آسان ہے، سمجھانا بہت مشکل ہے۔ یاد کرانے کا معاملہ تو ایسا ہے کہ وہ ہنستے گاتے، جھومتے سب کچھ یاد کر لیتے ہیں مگر جب سمجھانے کا مرحلہ آتا ہے تب انسان کو اندازہ ہوتا ہے کہ موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانا کیا ہوتا ہے! بس یہ سمجھ لیجیے کہ سامنے آکر نتھنے پُھلاتے ہوئے بیل کو دونوں سینگ پکڑ کر بٹھانا ہوتا ہے! بچوں کا ذہن ٹیبل ٹینس کی گیند جیسا ہوتا ہے اور ہمارا یعنی بڑوں کا ذہن فٹ بال سمجھیے۔ بچوں کو پڑھاتے وقت فٹ بال کو ٹیبل ٹینس کی گیند میں تبدیل کرنا ہوتا ہے! بصورتِ دیگر؟ انجام تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔ 
ہم یہ تو نہیں جانتے کہ ثمران احمد کس سطح کے ٹیچر ہیں مگر چونکہ صاحبِ ذوق ہیں اور ہمارے اشعار بھی کسی حد تک سمجھ لیتے ہیں‘ اِس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کچھ علم کا ذوق ہے اور کچھ شاعری کا شوق ہے! اُنہوں نے ایم فل کیوں کیا ہے اور اب پی ایچ ڈی کیوں کر رہے ہیں، ہم نہیں جانتے کہ دلوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے۔ ہاں، عامل صحافی ہونے کے ناتے اندازہ لگانا اور کالم نگار ہونے کی رعایت سے قیاس اور خوش خیالی کے گھوڑے دوڑانا ہمارا ''فرض‘‘ ہے اِس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ثمران احمد کو تین چار سال تک بچے پڑھانے کے دوران اندازہ اپنے تِلوں میں موجود تیل کا بھی اندازہ ہو گیا ہو گا اور اُنہوں نے سوچا ہو گا کہ خیریت اِسی میں ہے کہ پی ایچ ڈی وغیرہ کرکے بڑی کلاسز کو پڑھایا جائے تاکہ جو تھوڑی بہت عقل ہے اُس کے ساتھ ساتھ سَر کو بھی بچایا جا سکے! یہ بات ہم اس لیے ضبطِ تحریر میں لا رہے ہیں کہ بچوں کو پڑھاتے پڑھاتے اپنے سَر میں خشکی کی شکایت کرنے والے کئی ٹیچرز کو ہم نے بالآخر مزید تعلیم حاصل کرکے بڑی کلاسز تک جمپ لگاتے دیکھا ہے! کسی ٹیچر کا بڑی کلاسز تک جانا ترقی پانے کے عمل سے کہیں زیادہ بچوں کے جھنجھٹ سے نجات پانے کے زُمرے میں آتا ہے! 
بچوں کو پڑھانا کسی بھی اعتبار سے بچوں کا کھیل نہیں۔ یہ بات اپنی جگہ کہ اُن کا ذہن باتوں کو بہت تیزی سے قبول اور ہضم کرتا ہے یعنی ٹیچر جو کچھ پڑھاتے ہیں اُس پر ذرا سی توجہ دینے کی صورت میں بچے بہت تیزی سے سیکھتے اور یاد رکھتے ہیں مگر اس حقیقت کا کیا کیجیے کہ فی زمانہ بچوں کے ذہن میں ماحول کا دیا ہوا بھی بہت کچھ پایا جاتا ہے۔ کلاس روم میں بچہ جب کوئی انٹ شنٹ سوال کر بیٹھے تو بعض اوقات ٹیچر کے پاس شرمسار ہوکر پلکیں جھکانے کے سِوا چارہ نہیں رہتا! اور پھر ''آئی کیو‘‘ لیول کی ''بلندی‘‘ نے الگ ناک میں دم کر رکھا ہے۔ آج کے بچے جتنے معاملہ فہم ہیں اُس سے کہیں زیادہ شریر ہیں۔ ایک بچے نے کلاس میں ٹیچر کے سَر کی طرف اشارا کرتے ہوئے پوچھا میڈم! کیا آپ کے سَر میں خُشکی ہے؟ اِس سے پہلے کہ میڈم کوئی معقول جواب دیتیں، ساتھ بیٹھے ہوئے لڑکے نے کہا: ابے نہیں، خُشکی نہیں ہے، بُھوسا باہر آرہا ہے! 
ایک زمانہ تھا کہ نویں، دسویں کے بچے کچھ بول پاتے تھے۔ اب تو خیر سے پانچویں چھٹی کے بچے بھی ایسی چرب زبانی دکھاتے ہیں کہ ٹیچرز سہمے رہتے ہیں کہ پتا نہیں کب کلاس میں کوئی کیا پوچھ بیٹھے یا کیا تبصرہ کر بیٹھے! 
ہمیں یقین ہے کہ ثمران احمد نے بھی Ph.D کی ایک بہت عمومی اور مقبول تعریف Phira Huwa Dimaagh سُن رکھی ہو گی۔ ہم اُن کے حوالے سے ایسا کوئی گمان نہیں رکھتے! مگر ہاں، اِتنا ضرور بتانا چاہیں گے کہ دنیا بھر میں بچوں کو پڑھانے کے لیے بلند ترین اسناد رکھنے والوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ اب ثمران احمد یہ کہتے ہوئے جان نہیں چُھڑا سکتے کہ ہمارے ہاں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی سطح پر پڑھنے والے بھی ذہنی اعتبار سے بچے ہی ہوتے ہیں! ہم یہ کالم یہیں ختم کرنا پسند کریں گے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پی ایچ ڈی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے ثمران احمد کا ذہن ''پھرا ہوا دماغ‘‘ بن کر حالتِ جوش و جلال میں آجائے اور وہ ہمیں اپنا پرائمری کا سٹوڈنٹ سمجھ کر کلاس لینے پر تُل جائیں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved