گزشتہ کچھ دنوں سے عمران خان اور ان کے بعد اپوزیشن کے دیگر رہنمائوں نے کرپشن کے خلاف مجنونانہ مہم چلا رکھی ہے۔ جس کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔نچلے اور درمیانے درجے کے لوگوں نے کرپشن کے ساتھ زندہ رہنے کے طور طریقے سیکھ لئے ہیں۔ خصوصاً نئی نسل کا مستقبل تو مجھے روشن دکھائی دیتا ہے اور میں‘ان کے بارے میں پرامید ہوں۔آپ یہ واقعاتی لطیفہ پڑھ کر خود ہی اندازہ کر لیں کہ آنے والی نسل کس ماحول میں پروان چڑھ رہی ہے؟ایک ہائی سکول میں طلبہ کے داخلے کے لئے‘ ہیڈ ماسٹر صاحب نے بچوں کا ریکارڈ بنانے کی خاطر تصاویر مانگیں اور ساتھ ہی سکول کی طرف سے ایک فوٹو گرافر کا انتظام بھی کر دیا۔ ہیڈ ماسٹر نے فوٹوگرافر کے ساتھ دس روپے فی طالب علم سودا کیا۔ ہیڈ ماسٹر نے کلاس ٹیچر کو یہ پیغام پہنچا دیا کہ سکول کے ریکارڈ کے لئے ہر طالب علم کی تصویر اتاری جا رہی ہے‘ جس کے لئے ان سے فی کس30روپے لئے جائیں۔ جب ٹیچر کی باری آئی تو استاد نے طلبا کوپیار سے بتایا کہ سکول کی انتظامیہ آپ کے ریکارڈ کے لئے تصاویر بنوا رہی ہے۔ تصویر بنوانے کا انتظام سکول کی طرف سے کیا جا چکا ہے۔ آپ میں سے ہر طالب علم 50روپے جمع کرا دے۔ بچے نے گھر جا کر ماں سے کہا کہ سکول والوں نے فوٹو کے لئے100روپے منگوائے ہیں۔ شام کو ماں نے بچے کے باپ سے کہا کہ ''سکول والے‘ منے سے200روپے فوٹو کے لئے مانگ رہے ہیں۔ صبح یاد سے دیتے جائیں‘‘۔
ایک آئیڈیل کرپٹ سوسائٹی پروان چڑھانے کے لئے یہ بہترین طریقہ ہے۔ چونکہ یہ تھوڑی سی رقم کا معاملہ ہے‘ اس لئے عام لوگ نوٹس نہیں لیتے۔ ورنہ ذرا سی توجہ دی جائے تو آسانی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کے لئے کیسا کرپٹ معاشرہ وجود میں لانے کی تیاری کرا رہے ہیں؟یہی بچے جب جوان ہوں گے تو انہیں کرپشن کرنے کے لئے‘ تعلیم و تربیت کے گر سیکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔یہ مکتب ہی سے کرپشن کے گر سیکھ چکے ہوں گے۔ باقی سبق یاد کریں نہ کریں لیکن کرپشن شروع ہی سے بچوں کے خون میں شامل ہو جائے گی۔وہ گزرتے و قت کے ساتھ ساتھ کرپشن کے نتے نئے طریقے بھی سیکھتے جائیں گے ۔ابتدائی تعلیم و تربیت ہونے کی وجہ سے نہ تو انہیں کرپشن میں کوئی برائی نظر آئے گی‘ نہ ہی وہ اخلاقی طور پرسماجی دبائو کو محسوس کریں گے۔ نہ انہیںرشوت لیتے ہوئے شرم آئے گی اور نہ رشوت دینے والے کو احساس جرم ہو گا۔ معاشرہ بڑی ترتیب اور ترویج کے ساتھ‘ دور جدید کے طور طریقوں کا عادی ہوتا جائے گا۔پاکستان کے بڑے بڑے افسروں ‘ عہدیداروں اور قوم کے رہنمائوں کو کسی ایجنٹ کا مرہون منت نہیں ہونا پڑے گا۔ جو بھی اعلیٰ عہدیدار‘ اپنے دفتر کا چارج لے کر کرسی پر بیٹھے گا‘تو اس کے سامنے ذاتی سٹاف کی جو فہرست پیش کی جائے گی‘ اس میں ہر فرد کے ساتھ اس پر لازم فرائض کا اندراج بھی ہو گا کہ فلاں درجے کا شخص پانچ کروڑ کی ڈیل کر سکے گا۔ اس سے اوپر درجے والا افسر‘ اربوں کی ڈیل کرنے کا مجاز ہوگا اور جس کا درجہ سب سے بلند ہو گا‘ وہ سرمایہ کاری کی بیرونی منڈیوںمیں انتہائی محفوظ اور نفغ بخش شرائط پر‘ کرپشن کی دولت جمع کر سکتا ہے۔اس کالے دھن کے لین دین کا کوئی ریکارڈ ہو گا اور نہ ہی اس کا سراغ لگایا جا سکے گا۔ دنیا میں بہت سے ملکوں میں کرپشن کی دولت جمع کرنے اور محفوظ رکھنے کا خاص انتظام کیا جا رہا ہے۔ اس کاروبار کی ابتدا چھوٹی سی رقم سے ہوئی تھی اور سرمائے کی ایک منڈی ابھی اپنی جڑیں بنانے لگی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کرپشن کرنے والے خود بھی شرماتے تھے اور کرپشن کی رقوم محفوظ کرنے والے بھی‘ خوف کی وجہ سے حد درجہ احتیاط کیا کرتے تھے۔ کرپشن کو انتہائی شرم ناک فعل سمجھا جاتا تھا۔باپ ‘بچوں کے سامنے اپنی خفیہ ڈیلز کا بھید نہیں کھولتا تھا اور بچے والدین کے سامنے۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ بیویوں اور بیٹیوں کو اس دھندے کی بھنک تک نہیں پڑنے دی جاتی تھی۔بچے چونکہ کرپشن کے ماحول میں آنکھیں کھولتے تھے‘ اس لئے وہ بلوغت کے ساتھ ساتھ ‘ دھندے سے بھی آگاہی حاصل کرتے جاتے اور بڑے ہونے سے پہلے ہی ‘ وہ نہ صرف کالا دھن کمانے بلکہ اسے سنبھالنے اور محفوظ رکھنے کے طور طریقوں پر عبور حاصل کر لیتے تھے۔ جس کی جو حیثیت ہوتی‘اس کے مطابق وہ دنیا کی مختلف مارکیٹوں میں اپنی بساط کے مطابق سرمایہ جمع کرتا۔ جیسے جیسے کمائی گئی دولت میں اضافہ ہوتا جاتا ‘ اس کی سماجی حیثیت اور اہمیت بڑھتی جاتی۔پرانے زمانے کی بیویاں بہت وضع دار ہوا کرتی تھیں۔اسی لئے گھر کے مرد انہیں کرپشن کے پیسے کی ہوا نہیں لگنے دیتے تھے۔اب وقت کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی کالے پیسے کی قدر و اہمیت کا اندازہ ہونے لگا ہے۔وہی خواتین جنہیں چند سال پہلے علم بھی نہیں ہوتا تھا کہ ان کے نام پر دولت جمع اور جائیدادیں خرید جا چکی ہیں۔ اب ان میں ہمت اور حوصلہ پیدا ہونے لگا ہے اور وہ شرماتے اور جھجکتے ہوئے کالی دولت کی پردہ داری کرنے لگی ہیں۔
دنیا میں دولت مندوں کے درجہ بدرجہ کلبز بننے لگی ہیں۔ انتہائی اعلیٰ سطح پر قائم کلبوں میں ‘ صرف چیدہ چیدہ لوگوں کو شرکت کی اجازت ملتی ہے۔جس طرح طاقتور ملک اپنا ایک کلب بنا کر دنیا پر حکمرانی کرتے ہیں‘ اسی طرح کرپشن کے مال پر سماجی درجہ بلند کرنے کے لئے ‘اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کلبیں قائم کی جاتی ہیں۔ ان کا نہ کوئی ریکارڈ ہوتا ہے اور نہ ہی شناخت۔یہ بچ بچا کر اپنا دھندہ جاری ر کھے ہوئے ہیں۔انہیں اندیشہ رہتا ہے کہ اگر خفیہ دولت کا سراغ لگ گیا تو ان کی ساکھ کے لئے مسئلہ بن سکتا ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں ناجائز دولت کی حوصلہ شکنی کے لئے محکمے اور قوانین بنے ہوئے ہیں۔ اگر کسی بڑے سرمایہ دار کے خزانے کا اتا پتا لگ جائے تو دوسرے درجے کے کرپٹ لوگ جمع ہو کر اس پر حملہ کر دیتے ہیں۔میڈیا والے اس کا چرچا کرتے ہیں۔ سیاسی بلیک میلر‘ اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ ایماندار افسر ان کی جان کو آجاتے ہیں اور پھر ہم دیکھتے ہیں‘ کس طرح یہ‘ قانون اور انصاف کے شکنجے میں آنے لگتے ہیں ۔پھر انہیں یا تو اپنا ملک چھوڑ کر روپوش ہونا پڑتا ہے یاناجائز کمائی ہوئی دولت سے جان چھڑانے کے طریقے تلاش پڑتے ہیں۔
ایسے دولت مند حکمرانوں کی ایک انتہائی خفیہ کلب معرض وجود میں آچکی ہے۔ پہلے اس کے اراکین کی تعداد بہت کم ہوتی تھی۔ جیسے جیسے وقت کے ساتھ دولت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے‘ اس کلب کے اراکین میں اس رفتار سے اضافہ نہیں ہوا۔بنیادی طور پر یہ حکمرانوں اور ان کے سہولت کاروں کی انتہائی خفیہ کلب ہوتی ہے۔لا محدود دولت رکھنے والے اپنی پہچان کبھی ظاہر نہیں ہونے دیتے۔صرف ایسے حکمران جو آمرانہ اختیارات کے مالک ہوں‘ ان کی ماتحتی میں کام کرنے والے مافیاز‘ہر ملک اور ہر سماج میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔وہ کسی کو اپنے کلائنٹ کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھنے دیتے۔ کوئی بدنصیب سرگوشی میں بھی ان کی دولت کا ذکر کر بیٹھے تو پھر اس کی نجات ناممکن ہو جاتی ہے۔ تمام سرکاری مشینریاں اور بین الاقوامی سطح کے عہدیداروں کے سرمائے کو محفوظ رکھنے کے ایسے انتظامات کئے جاتے ہیں‘ جو بادشاہوں اورسربراہان مملکت کے لئے بھی نہیں ہوتے۔ ایسے شخص پر دنیا میں کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے جس سے ذرا سے خطرے کا بھی اندیشہ ہو۔ایسے طاقتور حکمران چھوٹی چھوٹی بادشاہیوں کو بھی کرائے پر رکھ لیتے ہیں تاکہ بوقت ضرورت یہ ان کے کام آئے اور فوراً ہی شاہی دستاویزات تیار کر کے ‘اپنے باس کی مدد کو پہنچ جائے۔ اس طرح کے نو دولیتے بادشاہ اور شہزادے ہر لمحے‘ اپنے باس کی ہنگامی خدمات سر انجام دینے کے لئے دنیا کے کسی بھی کونے میں پہنچ جاتے ہیں۔جن ملکوں کی آپس میں شدید دشمنی ہو‘ ان کے سربراہ بھی اپنی کلب کے ساتھیوں کی مدد کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔یہاں تک کہ دو ملکوں کے مابین باہمی جنگ بھی ہورہی ہو‘ تب بھی حکمرانوں کے باہمی رشتے اور تعلقات بر قرار رہتے ہیں۔ وقت آنے پر ساری کلب کے ممبران ‘ان کو بچانے میں عارمحسوس نہیں کرتے۔ہمارا معاشرہ اللہ کے فضل و کرم سے بڑے منظم اور محتاط طریقے سے کرپشن کے اعلیٰ ترین درجے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہمارا مستقبل روشن ہے اور یہاں ''ہم ‘‘سے مراد‘ٹٹ پونجئیے مزدور اور سرکاری نوکر چاکر‘ تھانوں میں چودھراہٹ جمانے والے باوردی ملازم اور افسر وغیرہ شامل نہیں۔ایسے لوگوں کو عوام کہا جاتا ہے۔ اورکرپٹ حکمرانوں کا عوام سے کیا واسطہ؟ایسے عوام کو توکہیں سے بھی اپنا حق لینے کی اجازت نہیں ہوتی۔ عدالتوں سے بھی۔ایک وقت آئے گا جب ہماری قوم بھی کرپشن کے کلچر میں ڈھل کر ترقی یافتہ قوموں کے قریب پہنچ جائے گی۔کچھ نیم پاگل اور سر پھرے ‘کرپشن سے جمع کی گئی دولت چھین کر حکومت کی جیب میں ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔حکمرانوں اور ان کے مصاحبوں کا عتاب برداشت کرتے ہیں۔بدلے میں سارے فریقوں سے گالیاں کھاتے ہیں۔