تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     30-12-2016

وزیرِ اعظم بھی قوم پر رحم کریں!

دوسروں کی باز پرس کا انہیں حق ہے۔ مگر وزیر اعظم اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت بھی کبھی گوارا کریں۔ جس قوم کا حاکم ہی اس پہ رحم نہ کرے، دوسرے کیوں کریں گے؟
وزیر اعظم کہتے ہیں کہ اپوزیشن قوم پر رحم کرے۔ بجا ارشاد‘ مثال کے طور پر پاک چین تجارتی راہداری۔ افواج کی قیادت کو بنیادی طور پر کوئی اعتراض نہیں۔ میڈیا میں عظیم اکثریت مان گئی۔ وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک نے بھی خاموشی اختیار کر لی۔ اب وہ چین جائیں گے اور تفصیلات پر بات کریں گے۔ اب تک کوئی منصوبہ تجویز نہ کیا تھا‘ اب کریں گے۔ اس کے باوجود مخالفت ہے اور ایسے لوگوں کی طرف سے جو اس کا اور چھور ہی نہیں جانتے یا جن کا مقصد محض وزیر اعظم کو زچ کرتے رہنا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ خود چین کی حکومت نے سیاسی پارٹیوں سے اپیل کی‘ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ اتفاقِ رائے کی طرف بڑھیں۔ اشارہ اس میں یہ ہے کہ اگر اس موقع کو کھو دیا گیا تو دونوں ممالک ایک تاریخ ساز عہد کے امکانات کھو دیں گے۔ اب کوئی کوّے کو سفید کہنے پر تُلا رہے تو اس کا کیا علاج ہے۔
وزیرِ اعظم سے درخواست یہ ہے کہ وہ بھی قوم پر رحم کریں۔ مثلاً اس بات کو چھپانے کی کیا ضرورت تھی کہ لاہور کی اورنج ٹرین سی پیک کا حصہ ہے۔ پورے کا پورا منصوبہ وہ قوم کے سامنے کیوں نہیں رکھ دیتے۔ اس لیے بھی کہ بعض چینی کمپنیوں کے بارے میں تحفظات ہیں۔ اس لیے بھی کہ چیزوں کا شفاف ہونا ہی ملکوں اور معاشروں کے بہترین مفاد میں ہوتا ہے۔ آخرِ کار ہر چیز آشکار ہو کر رہتی ہے۔ اس لیے بھی کہ یہ قوم کا حق ہے۔ اس قوم کا‘ جس نے ماضی کی اندوہناک غلطیوں کے باوجود ان پہ اعتبار کیا کہ وہ تجربہ کار ہیں اور ان کے مدِمقابل شاید ابھی ملک کو سنبھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
وزیرِ اعظم بھی قوم پر رحم کریں۔ 44 نئے ہسپتالوں پر قومی سرمایہ بے دردی سے لٹانے کی بجائے‘ ان سینکڑوں ہسپتالوں کا نظام درست کریں مریض جہاں بلکتے اور تڑپتے رہتے ہیں۔ ان کا حق ہو یا نہ ہو‘ سرکار دربار میں معتبر اور دوسرے بارسوخ جہاں سے دوائیں لے اڑتے ہیں اور بے نوا سسکتے رہتے ہیں۔ جہاں معالج وقت پر نہیں آتے۔ جن میں سے بعض ایسے ہیں کہ مجبور و بے کس لوگوں کو‘ اپنی ذاتی علاج گاہوں کی راہ دکھاتے ہیں۔
وزیرِ اعظم سرکاری ہسپتالوں کے لیے نگرانی کا مؤثر نظام وضع کرنے پر غور کیوں نہیں کرتے؟ خاص طور پر پنجاب اور بلوچستان میں‘ جہاں جو چاہے وہ کر سکتے ہیں۔ کیا فقط اس لیے کہ اس پہ بہت تالی نہ بجے گی‘ بہت داد نہ ملے گی۔ کیا مصیبتوں کے مارے معاشرے میں لیڈر کی ترجیح فقط تالی ہونی چاہئے۔ عالی جناب لاہور کے میو ہسپتال اور نشتر ہسپتال ملتان کے بارے میں غور و فکر پہ کیوں آمادہ نہیں۔ آنے والے برسوں میں کیا الم کے مارے ان کے برآمدوں میں پڑے رہیں گے یا ایک ایک بستر پر دو دو تین تین۔ آخر کس نے ان کا ہاتھ پکڑ رکھا ہے کہ ابتدا کریں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امید بڑھتی جائے‘ امکان فروغ پائے‘ حتیٰ کہ کامیابی کی سعید ساعت طلوع ہو۔ نعرہ ہائے تحسین کا شوق وزیر اعظم پہ اس قدر کیوں غالب ہے کہ بہتے ہوئے آنسوئوں پہ‘ اجڑے ہوئے لوگوں پہ پائوں رکھتے گزر جاتے ہیں۔
وزیر اعظم بھی اس قوم پہ رحم کریں۔ زمین اور آسمان کے درمیان معلق اپنی قوم کے کروڑوں بچوں کی فریاد سنیں‘ جن کا کوئی مستقبل نہیں کہ علم سے؛ چنانچہ امکان ہی سے محروم کر دیے گئے ہیں۔ وہ اڑھائی کروڑ کمسن‘ جن پر کبھی کسی درس گاہ کا دروازہ نہ کھلا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ‘ جن کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ پھر وہ بھی جن کی دیہاتی مائیں‘ صبح سویرے جن کے لیے جاگتی ہیں۔ سخت کھردرے ہاتھوں سے‘ مسلسل اور جاں گسل مشقت نے جنہیں بے ڈھب کر دیا ہے‘ اجلے پیرہن پہنا کر سرکاری سکولوں کے لیے رخصت کرتی ہیں۔ کیا ان مکاتب میں واقعی کچھ سکھایا‘ کچھ پڑھایا جاتا ہے؟ وزیر اعظم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں۔ بس برائے نام ہی‘ بس بر وزنِ بیت‘ بقدرِ اشکِ بلبل۔ وگرنہ پرائیویٹ سکول کھمبیوں کی طرح نہ اگ رہے ہوتے‘ جن کی فیسیں ادا کرنے کے لیے وہ اپنا پیٹ کاٹتے ہیں۔ پھر بھی اکثریت دکھ میں مبتلا رہتی ہے کہ انگریزی کے چند حروف سکھانے کے سوا درحقیقت وہ کچھ بھی نہیں کرتے۔ ملک کی تمام یونیورسٹیاں مل کر بھی 70 ایسے انجینئر پیدا نہ کر سکیں کہ موبائل فون کی ڈھنگ کی ایک فیکٹری قائم کر سکتے۔ ہر سال اربوں روپے کا زرِمبادلہ اس چیز کی درآمد پر اُٹھ جاتا ہے۔ وہ جامعات‘ جن کے وائس چانسلر خوشامد کے ہنر پہ خوش نصیب ٹھہرتے ہیں۔ ان میں سے بعض لاکھوں کروڑوں ہڑپ کر جاتے ہیں۔ غبن کے مقدمات ان پر بنتے ہیں ۔ سرکار دربار کے لوگ ان کے شریکِ کار ہوتے اور انہیں بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ دھڑے بندی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اپنے ہی جیسے نالائق لوگوں کو مناصب سونپتے ہیں۔ ایک خوف زدہ نالائق‘ کسی لائق آدمی پہ اعتبار کیسے کر سکتا ہے؟
اس قوم پہ وزیر اعظم رحم کریں، جس نے اپنا ملک انہیں سونپ دیا ہے‘ 22 کروڑ انسانوں کا مستقبل۔ جب سرکاری افسروں اور اہم اداروں کے سربراہوں کے انتخاب کا مرحلہ آتا ہے تو کن لوگوں پر وہ اعتبار کرتے ہیں؟ اس پولیس والے پر، جس نے کہا تھا کہ اگر پنجاب کا سربراہ اسے بنا دیا گیا تو عمر بھر ان کے خاندان کا وہ وفادار رہے گا؟ سینئر کو چھوڑ کر، جونیئر لوگوں کا انتخاب وہ کیوں کرتے ہیں۔ بلوچستان میں‘ ملک کے مستقبل کی جنگ جہاں لڑی جا رہی ہے، سرکاری افسر کیا لوٹ مار کرنے والے سیاستدانوں سے مل کر خردبرد نہیں کرتے؟ ان کی عظیم اکثریت۔ چھ ماہ گزر جانے کے باوجود، صوبے کے ترقیاتی بجٹ کا ایک چوتھائی بھی اگر استعمال نہیں ہو سکا تو ذمہ دار کون ہے؟ پونے چار سال بیت جانے کے باوجود، اگر آج بھی عالمی سازشوں کی آماجگاہ بن جانے والے خطے میں، صرف 5 فیصد علاقہ باقاعدہ پولیس رکھتا ہے اور باقی ماندہ قبائلی سرداروں کی دستِ نگر لیویز کے ہاتھ میں ہے تو شکایت کس سے کی جائے؟ قومی سرمایہ کیا اسی طرح برباد ہوتا رہے گا اور وزیرِ اعظم کیا اسی طرح ٹک ٹک دیکھتے رہیں گے۔ اس لیے کہ اپوزیشن غیر منظم اور مفلس ہے۔ اپنے لیے کوئی خطرہ وہ اس سے محسوس نہیں کرتے۔ کتنی ہی عمارتیں ہیں جو برسوں سے وزیر اعظم اور ان کے وزرائے اعلیٰ کی راہ تک رہی ہیں‘ انسانی قدموں کی چاپ کو ترس رہی ہیں۔ کیا فقط اس لیے کہ وہ سیاسی مخالفین نے تعمیر کی تھیں؟ ہر چند ماہ بعد ان کے برادرِ خورد اعلان کرتے ہیں کہ زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائز کر دیا جائے گا۔ جنابِ وزیر اعظم، کیوں نہیں وہ ہو چکتا؟ کیا اس کے تکمیل نہ پانے سے لاکھوں خاندان عذاب میں مبتلا نہیں۔ عدالتوں کے چکڑ کاٹنے، وکلا کی فیسیں ادا کرنے اور اپنے مقدر پہ گریہ کرنے والے؟
وزیر اعظم اس قوم پہ اگر رحم کریں تو عدالتی نظام میں اصلاح کا آغاز کریں‘ انصاف جس میں پیہم قتل ہوتا اور اس کا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ تقاضا یہ نہیں کہ چند روز میں عدل ارزاں کرنے کی وہ بے نظیر مثال بن جائے۔ یہ سوال البتہ ہر باشعور ذہن میں جاگتا رہتا ہے کہ قوم کو اس لامتناہی اذیت سے چھٹکارا دلانے کا عزم کیوں نہیں‘ ارادہ ہی کیوں نہیں؟ کیا یہ جنات اور دیووں کا کام ہے؟ اگر بے شمار دوسرے ممالک اور اقوام میں یہ ممکن ہے تو اس پاک سرزمین میں کیوں نہیں‘ جس کے مکینوں سے پیمان تھا اور فراموش کر دیا گیا۔
وزیر اعظم بھی اس قوم پہ رحم کریں۔ اس کی پولیس کو پولیس اور اس کی افسر شاہی کو پبلک سرونٹ بنانے کا عہد پورا کریں‘ بارہا جو کیا‘ ہر بار بھلا دیا۔ نیم دلی سے نہیں، ٹالنے اور ٹرخانے کے لیے نہیں، واقعی کر گزرنے کے لیے۔
بے شک اپوزیشن کو شورش برپا نہ رکھنی چاہیے۔ ہمہ وقت ہنگامہ نہ اٹھا رکھنا چاہیے۔ وزیر اعظم بھی اگر اس قوم پہ ترس کھائیں۔ کارِ حکمرانی کو کم از کم اتنی اہمیت تو ضرور دیں، جتنا اپنے کاروبار کو دیتے ہیں۔ ان کا ذاتی کاروبار تو خوب پھل پھول رہا ہے، عظیم الشان امکانات کے باوجود ملک کیوں مرجھا رہا ہے؟
دوسروں کی باز پرس کا انہیں حق ہے۔ مگر وزیر اعظم اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت بھی کبھی گوارا کریں۔ جس قوم کا حاکم ہی اس پہ رحم نہ کرے، دوسرے کیوں کریں گے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved