تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     30-12-2016

انصاف کے تعاقب میں

انصاف کے تعا قب میں نکلنے سے تھوڑا پہلے میاں محمد بخش آف کھڑی شریف کے جانشین میاں عمر بخش صاحب ملنے تشریف لائے۔ ان کے ہاتھ میں آزاد کشمیر کے محکمہ اوقاف کا ایک نوٹس تھا۔ نوٹس کیا بلکہ اسے بھتہ پرچی بھی سمجھا جاسکتا ہے ۔کون نہیں جانتا دھمکی آمیز نوٹس کامطلب کیا ہوتا ہے ۔ایسے محکمے جن کے ذمے نوٹوں کی کرنسی کے ڈھیر گننے اور ان نوٹوں کو سرکاری خزانے میں جمع کروانے کی ڈیوٹی لگ جائے ‘وہاں پاناما کی کھڑکی کُھل جاتی ہے ۔
میاں عمر بخش انتہائی تعلیم یافتہ جوان ہیں۔ ان سے ملاقات میں جب بھی عارف کھڑی شریف کا کوئی شعر یا اُس کی کوئی کلی سنائی جائے تو وہ اس کے پہلے اور بعد کے اشعار کا انبار لگا دیتے ہیں۔ سادہ لباس میں جدا مجد کی یہ نشانی نہ جبہ ّ بردار ہے نہ بھڑکیلے کپڑے اور نہ ہی رنگ رنگیلی دستار والا۔ البتہ میاں محمد بخش کے ورثے کا امین اورمستقبل کا ستارہ۔امید ہے آزاد حکومت ان کے رتبے کا پاس رکھے گی‘ ساتھ ساتھ یہ شعر بھی مد نظر رکھے گی۔ ؎
خاصاں دی گل عاماں اگے نہیں مناسب کرنی
مٹھی کھیر پکا محمد کُتیاں اگے دھرنی
(ترجمہ ) اصیل لوگوں کی بات عامیوں سے شیئر مت کرو۔جیسے میٹھی شیریں کھیر پکا کرسگ کے آگے رکھ چھوڑنا بہت نا مناسب ہے ۔
آپ یقیناسوچ رہے ہوں کہ گزشتہ وکالت نامہ اس وعدے پر ختم ہوا تھا کہ آپ کو دبئی شہر کی فاختہ کا قصہ سنائوں گاجو پنج تارا ہوٹل کے پانچویں فلور کے سوئمنگ پول میں نہاتی ہے۔ لیکن فاختہ کی بجائے کھڑی شریف کا تذکرہ درمیان میں کیسے آگیا۔ پنجابی زبان اور عارفانہ کلام سے محبت کرنے والے خوب جانتے ہیںفاختہ کے بارے میں سب سے سبق آموز کہانی میاں محمد بخش نے سنارکھی ہے ۔دبئی کی ترقی یافتہ فاختائوں نے ایک ترقی یافتہ خان صاحب کا قصہ یاد کروادیا۔ خان صاحب شارجہ میں رہتے تھے۔ خوش خورا کی کی وجہ سے ان کا وزن اونٹ کے ہم وزن ہوگیا۔موٹاپے سے پریشان ہوکر خان صاحب ڈیرہ اسمٰعیل خان واپس چلے آئے۔اہلِ خانہ کے مشورے سے حکیم صاحب کے مطب پرجاپہنچے۔ حکیم صاحب نے مسئلہ پوچھا تو خان بولا ‘ہمارا وزن بہت بڑھ گیا ہے ۔حکیم نے جواب دیا ،تم روزانہ 10کلومیٹر پیدل چلاکرو‘سب ٹھیک ہوجائے گا ۔ایک سال بعد خان صاحب نے حکیم کو فون کیا اور بتایا کہ ہمارا وزن تو کافی کم ہوگیا ہے،مگر ہم افغانستان پہنچ چکاہے ۔ابھی ادھر ہی رُک جائے یا آگے روس کی طرف اپنا واک کو جاری رکھے۔ـ!!
ان دنوں عالمی سطح پر اسرائیل کی ریاست بھی حکیم صاحب کے نسخے پر چل رہی ہے ۔جس کا تازہ ترین ثبوت ابھی 2دن پہلے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں سامنے آیا ہے ۔جہاں70برس میں پہلی بار اسرائیل کے خلاف پیش ہونے والی قرارداد کو امریکہ نے ''ویٹو‘‘کرنے سے انکار کردیا۔یہ قرارداد مغربی کنارے پر یہودیوں کی آبادی کاری کے خلاف پیش ہوئی تھی۔ عالمی میڈیا اس قرارداد اوراس کے نتیجے میں اسرائیلی رد عمل سے بھراپڑا تھا۔ اسی دوران ہمارے قائدِاعظم ثانی کے دریافت کردہ نئے حکیم الحکومت نے اسرائیل کو ایٹم بم کی دھمکی دے ڈالی۔ اس پر پاکستان کے حوالے سے وہ کچھ لکھا اور بولا گیا کہ خداکی پناہ ۔ایٹمی ریاست کا دفاع کس کارٹون نماری ایکشن والے دماغ کی پارٹ ٹائم ذمہ داری ہے ۔
کوئی بھی ریاست کس طرح ترقی کررہی ہے ۔اس کا تازہ مظاہرہ دبئی کے حکمران نے کیا۔ جہاں سرکاری افسروں کو صبح 7:30بجے دفتر پہنچنے اورسرکاری امور پر بھرپور توجہ دینے کا حکم نامہ جاری ہوا۔ اگلے روز حکمران نے دبئی میونسپلٹی،انتظامی دفاتر اورائیر پورٹ کا دورہ کیا ۔یہ دورہ صبح 7بج کر 25منٹ پر شروع ہوگیا۔ائیر پورٹ پرپہنچ کر صبح کے 9بجے حاکمِ دبئی امیگریشن انچارج کے پیچھے کھڑے تھے ۔انچارج صاحب اپنے نئے سمارٹ فون پر کھیل میں مگن تھے۔کھیل ہی کھیل میں ان تینوں محکموں کے انچارج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گھر چلے گئے ۔سرکاری وقت کو کھیل تماشہ سمجھنے والے ان اہلکاروں میں دو عدد ڈائریکٹر ایسے بھی تھے جو حاکمِ وقت کے کلاس فیلو یعنی لنگوٹیے یارتھے ۔
اللہ تعالیٰ کا شکرہے کہ بہت دنوں بعد یہاںسات سمندر پار یہ زبان زد عام کاروائی سُن کر مجھے پھر سے یقین آگیا کہ کوئی شرم بھی ہوتی ہے اور کوئی حیا بھی۔ریاستی امور میں شرم وحیا کا ابتدائی تقاضا یہ ہے کہ قوم کے ساتھ ڈرامہ بازی اور میڈیا سپاٹ حاصل کرنے کے لیے شوبازی نہ کی جائے۔حاکم دبئی کے دورے میں صرف ایک عدد ڈرائیور ان کے ساتھ تھا۔ جس کی ڈیوٹی گاڑی پارک کرنے تک محدود رہی۔ڈرائیونگ حاکم دبئی خود کرتے ہیں۔ہمارے ہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔جس دن حکمران بس میں سفر کرتا ہے پورا لاہور بند کردیا جاتا ہے ۔بالکل ویسے ہی جیسے ان کے ''مرشدِعام‘‘ سائیکل چلانے کا مظاہرہ کیاکرتے تھے۔ 
بات ہور ہی تھی دبئی کی جہاں صحت کی سہولیات دیکھنے کے لیے میں نے دبئی کے سب سے پہلے ہسپتال کا چکر لگایا۔دبئی میں لائسنس یافتہ پاکستانی ڈاکٹروں کی تعداد پانچ ہزار ہے۔ہسپتال میں مصری ڈاکٹر نصرسے ملاقات ہوئی ۔ساتھ ڈاکٹر شمس سیدصاحب اپنے ہم وطن تھے۔معلوم ہواکہ جب دبئی میں ابھی کوئی بھی ٹاور تعمیر نہیں ہواتھا۔ تب سبزی منڈی کے علاقے میں یہ ہسپتال بنایا گیا ۔اور اس کا نام بھی دبئی ہسپتال ہی ہے ۔انتظامی سلیقہ دیکھنے کے قابل ۔ڈاکٹرصاحبان کی فرمائش پر میں نے بلڈ سی پی کا ٹیسٹ کروا لیا ۔ابھی میں ہسپتال سے نکلا ہی تھا کہ میرے لوکل فون پر یہ ایس ایم ایس نمودار ہوگیا ۔
Welcome to Dubai Hospital. We are happy to serve you and we welcome your comments. In case you require further assistance please contact 04-2195810 or 04-2195812. with our wishes for continued good health and happiness. Dubai Health Authority. 
دبئی میں ہر ثقافت کا رنگ موجود ہے ۔امریکہ سے افریقہ تک، انگلستان سے ایران تک اور پاکستان سے نورستان تک۔ہمارے ثقافتی رنگوں میں سے بائو انور قابل دید ہے ،چھ فٹ قد کندھے پر پنجابی لاچہ یا شالا ۔کالے رنگ کی کھلی ڈلی شلوار قمیض۔بائو انور شیخ کے گھوڑوں کا انچارج ہے لیکن ساتھ ساتھ پاکستانی تارکین وطن کا غم خوار بھی ۔دبئی میں فاٹا سے تعلق رکھنے والے مشران کے ایک جرگہ نے بھی مجھے ڈھونڈ نکالا ۔وہ جانناچاہتے تھے کہ فاٹا کا علیحدہ صوبہ بننا ان کے حق میں ہے یا پھر فاٹا کو کے پی کے میں شامل کرنا ان کے مفاد میں ہے ۔بنیادی طور پر یہ پاکستانی سفارتخانہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہم وطنوں کے ذہن میں اپنے مستقبل کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کا جواب دے ۔لیکن دبئی کا پاکستانی سفارتخانہ حکمرانوں کے علاوہ ان کے فرنٹ مین، ایجنٹوں اور انویسٹرز کی خدمت میں مصروف ہے ۔لہٰذا شہریوں کے لیے نو لفٹ کا بورڈ کام چلا رہا ہے ۔جس کے مقابلے میں فلپائن، بھارت،بنگلہ دیش اور دیگر ایشیائی ملکوں کے سفارتخانے گلی گلی ڈھونڈ کر اپنے شہریوں کونوکری دلاتے ہیں۔عربی کا ایک محاورہ عرب دنیا میں مواقع کے راستے کھولنے کی چابی سمجھاجاتا ہے ۔یہ محاورہ یوں ہے (الواسطہ فوق القانون)جس کے معنی ہیں ذاتی تعلقات قانون سے بھی بالا تر ہیں۔یہاں مقیم پاکستانی اس بات پر بہت شاکی ہیں کہ ان کے حکمران اور لیڈر اپنی جائیدادوں میں گم ہیں اور اپنے ذاتی کاروبار میں مصروف ۔اس لیے اہل وطن کا مفادسرے سے ان کے ایجنڈے پر موجود ہی نہیں۔ ملک کی کرپٹ اشرافیہ، پاکستان سے جو کماتی ہے‘اس کمائی سے دور دیس کے ملکوں میں موجیں اڑاتی ہے۔دبئی میں کس کا محل کہاں پر واقع ہے‘ یہ راز یہاں پر ہر پاکستانی تارکِ وطن خوب جانتا ہے۔ 
اے کاش، پاکستان میں اینٹی کرپشن کا کوئی محکمہ آکر اِن سے یہ راز معلوم کر لے۔قارئینِ وکالت نامہ! لگتا ہے فاختہ والی کہانی آج پھر رہ گئی۔چلتے چلتے دبئی کے چند کبابوں کے نام ـسُن لیجئے۔کباب کبڈی،جو جے کباب،اوستہ خان کباب، تکہ مستی،مے گو کباب، ماہی کباب، ٹائیگر پران کباب۔ یہ نام سن کر ایسے لگتا ہے کھابا برانڈ جمہوریت نے تکہ کباب کی دنیا میں پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنادیا ہے۔(جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved