نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اور نیشنل ایکشن پلان کے سربراہ جنرل ناصر جنجوعہ نے بڑی خوبصورت بریفنگ دی لیکن ظلم یہ کیا کہ انہوں نے اختتام پر یہ کہہ کر ہم سب کالم نگاروں اور صحافیوں کے پروں پر پانی ڈال دیا کہ یہ آف دی ریکارڈ تھی۔ لہٰذا جو کچھ انہوں نے بڑی تفصیل کے ساتھ دو گھنٹے تک بتایا اور سمجھایا ، وہ عام پاکستانی تک نہیں پہنچ سکے گا کیونکہ انہوں نے ہمارے منہ پر ہماری صحافتی اخلاقیات کا تالہ لگا دیا ۔ ویسے پہلے توانہوں نے کہہ دیا تھا وہاں موجود صحافی چاہیں تو جو مناسب سمجھیں وہ رپورٹ کردیں۔ لیکن آپ کو پتہ ہے پاکستانی سرکاری بیوروکریسی کب عوام تک ایسے باتیں پہنچنے دے گی جس سے پتہ چلے ان کے ٹیکسوں سے تنخواہ لینے والے کیا کیا کارنامے کرتے آئے ہیں اور ان سے کہاں غلطیاں ہوئی ہیں اور وہ اب کیسے درست کرسکتے ہیں۔ اپنی نااہلی وہ عوام تک نہیں پہنچنے دیتے‘ اس لیے حمودالرحمن کمشن رپورٹ سے لے کر ایبٹ آباد کمشن رپورٹ تک کچھ باہر نہیں نکلنے دیا۔ اب انہوں نے سیاستدانوں کو مزید پکا کردیا ہوگا جب سے قاضی فائز عیسیٰ کی رپورٹ باہر آئی کہ دیکھا ہم نہ کہتے تھے عوام تک کچھ نہ جانے دو۔ سب کو اندھیرے میں رکھو اور آرام سے ان کے ٹیکسوں پر مزے کر کے نسلوں سمیت حکومت کرو۔
اس لیے کسی سمجھدار بیوروکریٹ نے ایک چٹ اس وقت جنرل جنجوعہ کو بھیج دی جب وہ بریفنگ کے بعد سوال و جواب سیشن میں مصروف تھے۔ جنرل جنجوعہ جیساکھلا ڈلا بندہ بھی ان سرکاری افسروں کے چکر میں آگیا اور بریفنگ کو آف دی ریکارڈ کر دیا گیا۔ میرے خیال میں یہ اہم بریفنگ تھی اور جنرل جنجوعہ اور ان کی ٹیم نے محنت سے تیار کی تھی۔ عوام تک پہنچنی چاہیے تھے۔ اس اہم بریفنگ میں بڑے بڑے صحافی موجود تھے جن میں مجیب الرحمن شامی، نصرت جاوید، عارف نظامی، حامد میر، وجاہت مسعود، سلمان غنی ، مبشر زیدی، اعجاز حیدر، عامر ضیائ، جواد فیضی، حفیظ اللہ نیازی، صالح ظافر، عاصمہ شیرازی، اویس توحید، رحمن اظہر، طارق چوہدری، بینش، انوارالحسن، ڈاکٹر ہما بقائی، اور دیگر اہم صحافی اور اینکرز شامل تھے۔
حسب روایت میرے گرو عامر متین میرے ذاتی منت ترلے کے باوجود تشریف نہیں لائے۔میرے بڑے بیٹے کی طرح عامر متین کے پاس بھی کام نہ کرنے کے ہزاروں بہانے ہوتے ہیں ۔ اس لیے مجھے پتہ تھا جب شام کو پوچھوں گا کہ سرکار کیوں تشریف نہیں لائے تو ایسا ریڈی میڈ بہانہ تیار ملے گا کہ میں بریفنگ ہی بھول جائوں گا ۔ اللہ لمبی عمر دے میرے گرو عامر متین کو، انہوں نے مجھے بالکل مایوس نہیں کیا اور ایسا سنجیدہ بہانہ تراش کر پیش کیا کہ میری آنکھوں میں سے آنسو تقریبا گرتے گرتے بچے۔ خیر صحافی اخلاقیات کے تقاضے سے مجبور ہوں۔ جو کچھ جنرل جنجوعہ نے کہا وہ تو میںرپورٹ نہیں کرسکتا لیکن جو سوالات صحافیوں نے جنرل جنجوعہ سے پوچھے وہ آپ کے ساتھ شیئر کیے جاسکتے ہیں کیونکہ وہ بہت اہم تھے۔
مثلا مشہور صحافی حامد میر نے ایک اہم سوال اٹھایا کہ مدارس ریفارمز کی ضرورت اپنی جگہ ہوگی لیکن یہ بتایا جائے کہ اس ملک میں کتنے نظام تعلیم چل رہے ہیں اور مختلف طبقات پیدا ہورہے ہیں جس وجہ سے ان طبقات کے درمیان بہت بڑا گیپ پیدا ہورہا ہے جو ٹکرائو کی ایک اہم وجہ ہے۔ اسے کیسے حل کریں گے۔؟مایوسی ہوئی کہ ہمارے لاہور سے آئے بہت اہم صحافیوں کو یا تو موقع نہیں ملا یا پھر انہوں نے سوالات نہیں پوچھے۔ تاہم عارف نظامی نے بہت اہم سوال پوچھا کہ نیکٹا کی جو صورت حال ہے وہ تو اپنی جگہ کہ اس کے پاس تو کوئی ڈھنگ کی عمارت تک موجود نہیں لیکن آپ اپنی بتائیں کہ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کے دفتر کی کیا صورت حال ہے؟
تاہم ان سب کی کمی دبنگ حفیظ اللہ نیازی نے کی جب انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں بھارت کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول کی کلاس لی اور میرا خیال ہے جنرل جنجوعہ نے مناسب جواب دیا ۔ نیازی صاحب کا خیال تھا کہ ایسے مکار اور چالاک بھارتی سے بات کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ لیکن کیا کریں نہ چاہتے ہوئے بھی ورلڈ ڈپلومیسی میں دشمن سے بات کرنی پڑتی ہے۔ہمارے پاک نبی ﷺنے بھی تو حدیبیہ کے مقام پر دشمنوں سے بات چیت کے بعد ایک معاہدہ کیا تھا ۔ اگر ہم اپنے پاک پیغمبر ﷺکے ایسے شاندار واقعات اورفیصلے ذہن میں رکھیں تو شاید آج کی جدید دنیا میں ہم بہت سارے دشمنوں سے ڈپلومیسی کے ذریعے ڈیل کرسکتے ہیں ۔
جو بات تقریبا سب صحافیوں نے نوٹ کی کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز کے خلاف کاروائی نہ ہونے کا سارا نزلہ سرل المیڈا پر گرایا جارہا تھا کہ شاید وہ اگر اسٹوری فائل نہ کرتا تو پتہ نہیں اب تک پاکستان میں نان اسٹیٹ ایکٹرز کے خلاف کیا کچھ ہوچکا ہوتا۔ خیر میں اپنی تمام تر کوشش کے باوجود خاموش نہ رہ سکا اور دیہاتی لطیفہ سنا بیٹھا کہ جب گائوں میں کسی لڑکی نے کھیت میں اپنے محبوب سے ملنا ہو تو کیسے تیار ہوتی ہے اور جب اس کا ملنے کو جی نہ کر رہا ہو تو وہ کیسے کیسے عالی شان بہانے تراش لیتی ہے۔ اس لیے سرل المیڈا بھی ایک بہانہ بنایا گیا اور سول ملٹری قیادت نے کہا دیکھیں جناب اب ہم کوئی کارروائی نہیں کریں گے کیونکہ دیکھیں سرل المیڈا نے خبر چھاپ دی ہے۔ تو کیا ہماری سول ملٹری قیادت بہانہ ڈھونڈ رہی تھی تاکہ کوئی کارروائی نہ ہو لہٰذا کسی نے وہ خبر پہلے خود ہی لیک کرادی اور اب سب مکر گئے ہیں کہ ہم کچھ نہیں کریں گے؟میں نے کہا جنرل صاحب! ان گروپس کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ سرل المیڈا کے کالم یا اخباری خبروں کی بنیادپر نہیں کیا تھا بلکہ عالمی دبائو کی وجہ سے کیا تھا۔ آپ خود کہہ رہے ہیں کہ ان گروپس کی وجہ سے پاکستان پر دبائو بہت بڑھ گیا ہے لہٰذا بہتری اس میں ہے ان نان اسٹیٹ ایکٹرز کو اب روکا جائے۔ان کے منت ترلے کیے جائیں۔ انہیں ختم کیا جائے۔ اگر انہوں نے انسانیت کی خدمت کرنی ہے تو پھر وہ صرف انسانی خدمت کریں۔ اس لیے پلیز ہمیں یہ بہانہ مت بتائیں کہ سرل المیڈا کی خبر کی وجہ سے سارا آپریشن رک گیا ۔
دوسرے میں نے کہا آپ نے ابھی پولیس ریفارمز پر بات کی ہے۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ سب کام صوبوں نے کرنا ہے۔ جب کہ دوسری طرف پنجاب اور سندھ میں وہاں کی سیاسی قیادت نے پولیس کو گھر کی باندی بنا لیا ہے۔ ایک ضلع میں اب ڈی پی او کی حیثیت ایک تھانے کے محرر سے زیادہ نہیں ہے۔ وہ لاہور میں سیاسی وفاداری کا حلف اٹھا کر کسی ضلع میں نوکری کرنے جاتا ہے۔ وہ سیاستدانوں کے مخالفین پر روزانہ پرچے درج کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتا۔ وہ ایم این اے اور ایم پی اے کا غلام بن کر رہ گیا ہے۔ باقی وزراء کی خوشامد بھی اسے کرنی پڑتی ہے۔
وزیراعلیٰ اور ان کا برخودار ان پولیس افسران کا انٹرویو کرتا ہے کہ کون بہتر وفاداری دکھائے گا....اگر محمد علی نیکوکارا جیسا ہارورڈ یونیورسٹی کا گریجویٹ پولیس افسر اسلام آباد میں نہتی عورتوں اور بچوں پر گولی چلانے سے انکار کرتا ہے تو آپ لوگ اسے فوراً نشان عبرت بنا دیتے ہیں۔ آئی جی اسلام آباد آفتاب چیمہ وزیرداخلہ اور سیکرٹری داخلہ کو کہتا ہے کہ اسے اپنے طریقے سے دھرنا ہینڈل کرنے دیں تو اسے بھی سزا ملتی ہے۔ بہاول نگر کا ڈی پی او شارق کمال صدیقی اگر ایم این اے کے گھر کھانے سے انکار کرتا ہے تو اسے وزیراعظم کے حکم پر صوبہ بدر کردیا جاتا ہے۔ اگر سندھ کا آئی جی‘ اے ڈی خواجہ سندھ میں زرداری کے فرنٹ مین انور مجید کی شوگر ملوں کے لیے کسانوں سے گنے کی خریداری کے لیے پولیس کو استعمال ہونے سے روکتا ہے تو سابق صدر
زرداری اسے برطرف کرا دیتے ہیں ‘تو پھر مجھے بتائیں آپ کس چیز کی اصلاحات کرنا چاہتے ہیں؟ اگر آپ ایسے افسران کے ساتھ کھڑے نہیں ہوسکتے‘ انہیں سیاسی وڈیروں سے نہیں بچا سکتے۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ اچھے افسران کو برداشت نہیں کرسکتے تو پھر کیسے نیشنل ایکشن پلان پر عمل ہوسکتا ہے کیونکہ لڑائی تو پولیس نے لڑنی ہے؟ اس پولیس کو آپ نے غلام بنادیا ہے۔ وہ پولیس عوام کے لیے دہشت ہے بربریت ہے لیکن سیاستدانوں نے اسے سیاسی بنا کر لوگوں پر تشدد کرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ میں نے کہا آپ نے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ہوتے ہوئے کیا وزیراعظم سے بات کی کہ آپ ایماندار افسران کو کور دیں۔آپ نے شارق کمال صدیقی جیسے افسر کے لیے وزیراعظم سے احتجاج کیا آپ نے کیوں ایک ایم این اے کو خوش کرانے کے لیے اسے صوبہ بدر کیا ؟ اگر آپ نے محض بریفنگ پر ہی پولیس ریفارمز کو دہرانا ہے تو پھر دہراتے رہیںکیونکہ کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔پولیس کو سیاستدانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر آپ کیسے ریفارمز لاسکتے ہیں۔ اگر نیشنل ایکشن پلان کا سربراہ پولیس کو غیرسیاسی نہیں کرسکتا تو پھر اپ دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ میرے اس تلخ سوال کو بڑے تحمل سے جنرل جنجوعہ نے سُنا اورجواب دیا جو یہاں پیش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ انہوں نے اپنی ساری گفتگو کو آف دی ریکارڈکردیا تھا ۔ویسے اتنا کہتا چلوں جس سرکاری زکوٹا جن نے جنرل جنجوعہ کو مشورہ دیا تھا کہ اتنی اچھی اور اہم بریفنگ کو آف دی ریکارڈ کردیا جائے اس نے ان کے ساتھ اور ملک و قوم کے ساتھ اچھا نہیں کیا ۔ عوام کو حقائق جاننے کا حق ہے کیونکہ ان کی ٹیکسوں سے ہی یہ ملک چل رہا ہے اور انہیں پتہ ہونا چاہے کہ ان کے تنخواہ دار کیا کررہے ہیں۔
میں حیران ہوں اگر میرے سمیت بیس تیس صحافیوں پر اعتماد کیا جاسکتا ہے اور انہیں رازوں میں شریک کیا جاسکتا ہے تو پھر بیس کروڑ عوام کو کیوں نہیں۔؟ وہ عوام جن سے آپ ہر ماہ ایک تگڑی تنخواہ، بے پناہ مراعات ، ٹی اے ڈی اے وصول پاتے ہیں ؟