کرپشن کر کے گھروں میں بیٹھنے والوں کو
کسی صورت نہیں چھوڑا جائے گا۔ صدر ممنون
صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ ''کرپشن کر کے گھروںمیں بیٹھنے والوں کو کسی صورت چھوڑا نہیں جائے گا‘‘ بلکہ نیب پلی بارگیننگ کرکر کے ان کا کچومر نکال دے گی جو ان کے لیے کافی عبرتناک ہو گا اور ملکی خزانے میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ نیب والوں کا بھی کچھ بھلا ہوتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''کرپشن کے خلاف جہاد میرے ایمان کا حصہ ہے‘‘ اور ریکارڈ نکال کر دیکھ لیا جائے۔ سابق چیف جسٹس کے بعد اس کے خلاف میری تقریریں اس کی گواہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''معیشت اب بہتری کی طرف جا رہی ہے‘‘ اور حکومت نے اس سال 20کھرب سے زائد کے قرضے لے کر یہ کارنامہ بھی سرانجام دے دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''سی پیک میں ایک انچ کی بھی تبدیلی نہیں کی گئی‘‘ البتہ اسے پبلک نہیں کہا جا سکتا‘ تاہم کچھ مسائل حل ہونے کے بعد اسے پوری طرح ظاہر کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''نیشنل ایکشن پلان کے مثبت نتائج واضح ہیں‘‘ اور اگر حکومت اپنے ذمّے نکات پر عمل کر لیتی تو اس کے نتائج مزید مثبت ہو سکتے تھے۔ آپ اگلے روز کوئٹہ میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
اپوزیشن مسائل سے نمٹنے کے لیے ہٹ دھرمی
چھوڑ کر حکومت کا ساتھ دے۔ نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن ہٹ دھرمی چھوڑ کر مسائل سے نمٹنے کے لیے حکومت کا ساتھ دے‘‘ کیونکہ حکومت مسائل سے نمٹنے کی بجائے جن کاموں میں لگی ہوئی ہے وہ بھی بہت ضروری ہیں کیونکہ آئندہ الیکشن بھی قریب سے قریب تر ہو رہے ہیں اور ان کے لیے خرچہ بھی تواکٹھا کرنا ہے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''مسلم لیگ ن جمہوری اور عوام کی منتخب کردہ جماعت ہے‘‘ کیونکہ جہاں تک جمہوری ہونے کا تعلق ہے اس کے اندرونی انتخابات میں پرچی سسٹم کا جمہوری طریقہ نہایت کامیابی سے رائج ہے اور دیگر معاملات میں بادشاہت کا جمہوری طریقہ بھی‘ نیز یہ عوام‘ الیکشن کمیشن‘ عدلیہ‘ اور ملازم پیشہ عوام کی منتخب کردہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اپوزیشن کو ساتھ لے کر ہی حقیقی ترقی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے‘‘ اس طرح عوام کی مل کر خدمت کی جا سکے گی اور اپوزیشن بھی خوش حال اور مالا مال ہو سکتی ہے‘ آزما کر دیکھ لے‘ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے‘آپ اگلے روز وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں سے ملاقات کر رہے تھے۔
سُکھ کا سانس
سابق صدر زرداری کی تقریر کے بعد حکومت نے سُکھ کا سانس لیا ہے کیونکہ انہوں نے میثاق جمہوریت پر عمل پیرا ہونے کا پورا پورا ثبوت دے دیا ہے۔ اسی طرح چند روز پہلے بھی حکومت نے سُکھ کا سانس لیا تھا جب سابق چیف جسٹس نے پاناما کیس سے الگ ہونے کا اعلان کیا تھا جبکہ ان کی کل ملازمت کے ابھی 25دن باقی تھے اور دونوں طرف سے ثبوت بھی مکمل طور پر گزارے جا چکے تھے اور بحث کروا کر اس دوران فیصلہ دیا جا سکتا تھا‘ نیز کرپشن کے خلاف سب سے زیادہ تقریریں بھی صاحب موصوف ہی کیا کرتے تھے۔ نواز لیگ کی حکومت کا یہ وتیرہ ہے کہ وہ ہر طریقے سے اپنا کام نکال لینے میں مہارت کا مظاہرہ کرتی ہے چاہے اُسے کوئی بھی حربہ آزمانا پڑے۔ طارق چوہدری کی مثال سب کے سامنے ہے۔ اسے دھمکیاں ہی اس قدر اور اس نوعیت کی دی گئیں کہ اسے ملک ہی چھوڑ کر جانا پڑا حالانکہ عدالت نے بعد میں اس کے حق میں فیصلہ بھی دیا تھا نیز سپریم کورٹ پر حملہ تو ابھی کل کی بات ہے!
بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا
اخباری اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم نے زرداری کو رام کرنے کا ٹاسک مولانا فضل الرحمن کو دیا ہے۔ یہ بھی ایک طرح مولانا کی خاطر خدمت کا ہی ایک طریقہ ہے کیونکہ زرداری نے اپنی تقریر میں حکومت کو دھمکی نہیں دی بلکہ باپ بیٹوں نے الیکشن لڑ کر قومی اسمبلی کا رکن بننے کا ارادہ ظاہر کیا ہے اور جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ حکومت کو گرانے کا ہرگز کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ اب مولانا صاحب بھی رسمی طور پر زرداری صاحب سے ایک آدھ ملاقات کر کے اپنی کارروائی ڈالیں گے اور حق الخدمت کے امیدوار ہوں گے‘ صاحبِ موصوف عمران خاں کے خلاف تقریریں کر کرکے بھی کافی نمبر ٹانگ رہے ہیں اور وزیر اعظم ان کا بھی حساب رکھ رہے ہوں گے اور اگر وزیر اعظم نہیں تو مولانا ان کا حساب باقاعدہ رکھ رہے ہوں گے کہ ع
روٹی تو کما کھائے کسی طور مچھندر
اپنا اپنا کام
زرداری صاحب نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف کوئی تحریک چلانے کی بجائے قومی اسمبلی کا رکن بن کر حکومت کو سمجھانے کی کوشش کریں گے جبکہ بلاول کا اعلان ہے کہ جاتی امرا کی بادشاہت ختم کرنے کے لیے آ رہا ہوں۔ حالانکہ اس دو رنگی کو عوام خوب سمجھتے ہیں‘ کیونکہ اصل طاقت اور اختیار زرداری کے ہاتھ میں ہے اور اگر کچھ کرنا ہے تو موصوف نے کرنا ہے‘ بلاول کی چیخیں اور دھاڑیں صرف نمائشی اور عوام کو الو بنانے کے لیے ہیں۔ لیکن اگر زرداری سمجھتے ہیں کہ حکومت کے ساتھ نرم روی اختیار کر کے وہ حکومت سے اپنی باری لے لیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہے اور یہ بھی کہ پی پی کے پلّے ویسے بھی کم از کم پنجاب کی حد تک کچھ نہیں ہے اور جہاں تہاں حکومت کی گرفت اس قدر مضبوط ہو چکی ہے کہ وہ اقتدار پلیٹ میں رکھ کر زرداری کو پیش نہیں کرے گی جبکہ اس فرینڈلی اپوزیشن کی وجہ سے پی پی اپنی مقبولیت کا گراف مزید نیچے گرا لے گی۔
ایک وضاحت
اگلے روز میں نے اس کالم میں اکادمی ادبیات کے دو ملازمین کے بارے میں ایک آڈٹ رپورٹ کے حوالے سے کچھ گزارشات کی تھیں تاکہ اکادمی مزید کسی نقصان سے بچ جائے۔ اسی دوران محبی محمد عاصم بٹ‘ جن کا براہ راست تعلق اکادمی سے ہے‘ نے بتایا کہ دونوں افسر اپ رائٹ ہیں اور ان کے بارے میں کوئی شکایت ان کے علم میں نہیں آئی اور یہ کہ اسی وجہ سے آدھا سٹاف ان کے سخت خلاف ہے کہ یہ کسی کو ناجائز رعایت نہیں دیتے۔ میں ان حضرات کو نہیں جانتا اور نہ ہی میں نے اپنی طرف سے ان پر کوئی الزام لگایا ہے بلکہ آڈٹ رپورٹ میں ان دونوں کا نام بھی ہے اور الزامات کی تفصیل بھی۔ علاوہ ازیں ایک آفیسر ملک مہر علی نے فون کر کے بتایا ہے کہ نیا گھر انہوں نے ضرور بنایا ہے لیکن اپنے پراویڈنٹ فنڈ کے پیسے سے اور پرانا گھر بیچ کر۔ ممکن ہے دوسرے افسر محمد صدیق صاحب کا موقف بھی کچھ اسی طرح کا ہو۔ نیز اکادمی ہی کے ایک افسر اختر رضا سلیمی نے بھی ان دونوں کی صفائی دی ہے۔ بٹ صاحب اور سلیمی صاحب کے معتبر ہونے میں کوئی کلام نہیں اس لیے میں اپنی حد تک پوری طرح سے مطمئن ہوں۔
آج کا مقطع
مجبور ہوں‘ لکھتا ہوں زیادہ کہ ظفر
کم لکھنے کی فرصت ہی نہیں ہے مجھ کو