تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     30-12-2016

نیشنل ایکشن پلان یا نو ایکشن پلان؟

جنرل ایوب خان کے سامنے جب پہلی بار مقبوضہ کشمیر میںخفیہ طور پر اپنے لوگ بھیج کر جہاد شروع کرانے کا منصوبہ پیش کیا گیا تو انہوں نے سختی سے اسے مسترد کردیا۔ ان کے انکار کے بعد جہاد کا یہ پروگرام کچھ عرصے تک تو سرکاری فائلوں میں دبا رہا لیکن اس کے حامی جنرل ایوب کے گرد گھیرا ڈال کر اس منصوبے کے فیوض و محاسن کے گیت گاتے رہے۔پھر ایک دن نجانے کہاں سے یہ فائل نکلی اور اس پر دوبارہ بات ہونے لگی۔ اب فرق یہ تھا کہ جنرل ایوب خان بڑے ذوق و شوق سے اس منصوبے کی جزئیات خود طے کرنے لگے۔ انہوں نے اس منصوبے کی حتمی منظوری دے دی اور انیس سو پینسٹھ کے موسمِ برسات میں پاکستانی دستے مقامی مجاہدین کا روپ دھار کر مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوگئے۔ آپریشن جبرالٹر کے نام سے مشہور ہونے والے اس منصوبے کے بنانے والوں کا خیال تھا کہ ہمارے لوگ وہاں جا کر لڑائی شروع کریں گے ،مقامی لوگ ان کے ساتھ مل کر بھارتی فورسز سے لڑیں گے اور پاکستانی فوج بھارتی پنجاب میں داخل ہوکر کشمیر جانے والا راستہ کاٹ کر بھارت کو کشمیر چھوڑنے پر مجبور کردے گی۔ یہ خیال کتنا غلط تھا اس کا پتا اس وقت چلا جب پاکستان سے جانے والے بیشتر لوگوں کو بھارت نے چن چن کر شہید کرڈالا۔کشمیری اس جہاد میں شامل ہوئے نہ پاکستانی فوج آگے بڑھ کر بھارت اور کشمیر کو ملانے والا راستہ کاٹ سکی۔ البتہ بھارت نے ہمارے آپریشن کی ناکامی سے شہ پاکر انیس سو پینسٹھ کی جنگ چھیڑ دی جس میں ہماری فوج نے دفاعِ وطن کے لیے شجاعت کی جو داستان رقم کی ، وہ آج بھی دنیا میں ہماری عزت کا باعث ہے ۔
آپریشن جبرالٹر سے پاک بھارت تعلقات میں بڑی خرابی آئی کہ دونوں ملکوں کے خفیہ ادارے بھی سیاسی معاملات میں فریق بن گئے۔ بھارتی خفیہ اداروں نے کشمیر کا جواب مشرقی پاکستان میں دینے کی ٹھان لی اور بالکل پاکستانی منصوبے کی طرح مشرقی پاکستان میں اپنے لوگوں کے ذریعے گڑبڑ شروع کی جسے روکنے کے لیے سختی کی گئی تو مشرقی پاکستان کے لوگ بھارت کی طرف ہجرت کرنے لگے ۔ اس کو بہانہ بنا کر بھارت پاکستان میں داخل ہوگیا اور مشرقی پاکستان کوہم سے کاٹ کر الگ کردیا۔پھر چل سو چل ۔ہم پنجاب میں سکھوں کو ابھارتے تو وہ سندھی علیحدگی پسندوں کو شہ دیتے، ہم کشمیر میں انہیں گھیرنے کی کوشش کرتے تو وہ آزاد پختونستان کا نعرہ بلند کروا دیتے۔ اگلے مرحلے میں یہ خفیہ جنگیں سری لنکا، نیپال اور افغانستان تک جا پہنچیں۔ ان جنگوں کے بے چہرہ سپاہی اتنے طاقتور ہوگئے کہ عوامی طاقت سے برسراقتدار آنے والے سیاستدان ان کے سامنے بچے جمورے بن کر کبھی جھوم جاتے ، کبھی گھوم جاتے اور کبھی اپنے مداریوں کی انا کے بھینٹ چڑھ جاتے۔ پاک بھارت تعلقات کو خفیہ کاری کے میدان سے واپس سفارتکاری کی میز تک 
لانے کی پہلی باقاعدہ کوشش پچھلی صدی کے آخر میں نواز شریف اور واجپائی نے کی مگر دونوں ناکام رہے۔اس کے بعد افغانستان پر امریکی حملے نے کسی کو یہ موقع ہی نہیں دیا کہ وہ بگڑے ہوئے معاملات سنبھال سکے۔خطے میں امریکی مداخلت کے بعد وہ دہشت گرد مہرے جنہیں ایک دوسرے کی بربادی کے لیے تیار کیا گیا تھا، خود شاطر بن کر عالمی سیاست پر چالیں چلنے لگے ۔ان شاطروں نے کھیل تو پتا نہیں کس کا کھیلا مگر خون عوام کا ہی بہایا۔ 
پاکستان نے پچاس برس تک خفیہ جنگوں میں شکاری بن کر بھی دیکھ لیا ہے اور شکار ہوکر بھی، اس لیے پشاور میں آرمی پبلک سکول کے سانحے کے بعد ہماری سیاسی و فوجی قیادت نے یہ اچھی طرح سمجھ لیا ہے دوسروں کی تباہی کے لیے ہنکائے جانے والے ہاتھی کبھی رخ موڑ لیں تو اپنے مالکوں کو ہی روند ڈالتے ہیں۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کی تشکیل دراصل اسی سوچ کی عکاسی کرتی ہے اور وہ لوگ جو اس پلان پر عمل درآمد میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں وہی ہیں جنہوں نے آپریشن جبرالٹر کرکے پاکستان کو اس راہ پر ڈالا۔ انہی لوگوں نے جہاد کے نام پر ہمارے بچے تو کٹوا دیے مگر کشمیر میں ایک انچ زمین دشمن سے نہ لے سکے۔اگر یہ لوگ خود نہیں تو ان کے بھیس میں کچھ ایسے بھی ہیں جو بظاہر تو ہمارے دوست ہیں مگر ہمارے خلاف سازشیں کرنے سے باز نہیں آتے۔ ان لوگوں کو اچھی طرح علم ہے کہ جب اس پلان پر کام شروع ہوا تو یہ پاکستان میں کھایا ہوا بھس بن کر رہ جائیں گے۔ 
ہمارے ان اندرونی دشمنوں کے علاوہ صوبائی حکومتی مشینری کی نااہلی بھی اس معاملے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ بلوچستان کی پولیس اور حکومت کا پول تو جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اپنی رپورٹ میںکھول دیا ہے لیکن پنجاب ، سندھ اور خیبر پختونخوا میں بھی صورتحال کچھ زیادہ بہتر نہیں۔ صوبوں میں قائم مدارس کی رجسٹریشن، ان کے نصاب سے قابلِ اعتراض مواد نکالنا اور پولیس کو بہتر بنانے کے لیے جو کچھ انہیں کرنا چاہیے وہ ہوتا ہوا دور دور تک نظر نہیں آرہا۔ اسی طرح فوجداری نظامِ انصاف کی اصلاح صوبوں کو کرنا تھی اس پر بھی کسی قسم کی کوئی مشق ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ ابتداء میں لاؤڈ اسپیکر کے غلط استعمال پر پابندی لگانے میں صوبائی حکومتیں سرگرم ہوئی تھیں ، لیکن اب صورتحال ایک بار پھر ان کے ہاتھ سے نکلتی دکھائی دیتی ہے۔ کیا اپنی موجودہ اہلیت کے ساتھ صوبائی حکومتیں اس نیشنل ایکشن پلان پرآگے بڑھ سکتی ہیں، ایسا سوال ہے جس کا جواب گہری دھند میں لپٹا ہوا ہے۔ 
وفاقی حکومت جہاں صوبوں کے نسبت زیادہ قوت اور اہلیت پائی جاتی ہے اس کی حالت یہ ہے کہ چوھری نثار علی خان کی میز پرپڑے پڑے نیشنل ایکشن پلان پر گرد جمتی رہی اور کسی نے پوچھا تک نہیں۔ آٹھ اگست کو کوئٹہ میں وکلاء کے قتل عام کے بعدہی وفاقی حکومت حرکت میں آئی اوریہ دستاویز وزارت داخلہ کی فائلوں سے نکال کرقومی سلامتی کے مشیر جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کے ہاتھ میں تھما دی گئی۔ میری معلومات کے مطابق جب اس پر کام کا آغاز ہوا تو معلوم ہوا کہ اس میں دی گئی سادہ سی ہدایات پر عمل کرنے سے پہلے ہمیں اپنی خارجہ اور دفاع کی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ اپنے رویّوں پر بھی از سرِ نو غور کرنا ہوگا ۔ اس مقصد کے لیے ایک اجلاس وزیراعظم ہاؤس میں ہوا جس میں سول اور فوجی قیادت نے واضح کردیا کہ جو بھی ضروری تبدیلی ہوگی، وہ کر لی جائے گی ۔ اس اتفاقِ رائے کا منطقی نتیجہ ہے کہ اس منصوبے کے مخالفین جو سول ملٹری تعلقات کی الجھنوں کے پیچھے چھپے ہوئے تھے اب زیادہ دیر تک چھپے نہیں رہیں گے۔ ریاستی نظام کو اس پلان کے مطابق ہم آہنگ کرنے کی ذمہ داری اب جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کے کندھو ں پر ڈالی گئی ہے۔ ان کا ماضی گواہ ہے کہ وہ کوئی کام مکمل کرنے سے پہلے نہیں رکتے، اللہ کرے اب بھی ایسا ہی ہو۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved