گتھی زیادہ ہی الجھتی جا رہی ہے۔ اقتصادی راہداری کا عظیم منصوبہ ‘موجودہ پاکستان کو مستقل جغرافیائی اکائی سمجھ کر تیار کیا گیا تھا۔لیکن پاکستان کی ماضی کی روایات کے عین مطابق حکمران طبقے دست و گریبان ہونے لگے۔ اقتدار جس پارٹی کے کنٹرول میں ہے‘ وہ سیاسی اور انتظامی سربراہی کی ذمہ داریاں پوری کرنے کے بجائے‘ حصے داروں کی باہمی کشمکش میں شریک ہو گئی۔ اب اس بات کو فراموش کرنا وقت کے ساتھ ساتھ مشکل ہوتا جائے گا۔ اس خدشے کے اسباب کا اندازہ کرنا ہو‘ تو ایک زیرنظر تجزیہ ملاحظہ فرما لیں۔ مجھے مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں رہ گئی۔ دلی دعائے خیر کے ساتھ یہ تجزیہ پیش کر رہا ہوں۔
''اگر آپ پاکستان میں کسی سے پوچھیں کہ کیا وہ چینی زبان جانتے ہیں، تو بہت ممکن ہے کہ یا تو آپ پر ہنس دے یا آپ کو' 'پاک چین دوستی وانگ وؤئے‘‘ یعنی ''پاک چین دوستی زندہ باد‘‘ سْر میں سنا دے۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر پچھلی چار دہائیوں سے چلنے والا یہ گانا 1979ء میں دنیا کے آٹھویں عجوبے، شاہراہِ قراقرم کی تعمیر مکمل ہونے کی خوشی میں بنایا گیا تھا اور ہمارے ملک کی ایک بھاری اکثریت کے لیے طویل عرصے تک چین سے وابستگی کی واحد علامت تھا۔37 برس بعد بھی پاکستانیوں کی چین سے دوستی کی سب سے بڑی علامت ،ایک سڑک ہی کا منصوبہ تھا۔ لیکن اب وہ شاہراہ قراقرم نہیں، بلکہ 55 ارب ڈالر کی لاگت سے بننے والی پاک چین اقتصادی راہداری، یعنی سی پیک ہے۔تین سال قبل جب پاکستان مسلم لیگ (ن )نے مئی 2013ء میں ہونے والے الیکشن میں کامیابی حاصل کی تھی تو چینی وزیر اعظم لی کی چیانگ ،سب سے پہلے غیر ملکی رہنما تھے جنہوںنے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔دو مہینے بعد جولائی 2013ء میں ان کے پاکستانی ہم منصب میاں محمد نواز شریف نے چین کا جوابی دورہ کیا، جس میں وہ تاریخی معاہدہ طے پایا جو سی پیک منصوبے کی بنیاد بنا۔کاشغر سے گوادر تک دو ہزار کِلومیٹر لمبی سڑک کے منصوبے سمیت ، دونوں وزرائے اعظم نے مفاہمت کی آٹھ یادداشتوں اور مختلف معاہدوں پر دستخط کئے۔
اپریل 2015ء میں ،چینی صدر شی جن پِنگ کے دورہ پاکستان میں سی پیک سے منسلک منصوبوں کی تفصیلات سامنے آئیں، جن کی کل لاگت 46 ارب ڈالر تھی۔ اس میں سے تقریباً 34 ارب ڈالر توانائی سے متعلق منصوبوں پر ،جبکہ تقریباً دس ارب ڈالر سڑکوں اور آمد و رفت کے ذرائع لیے مختص کئے گئے تھے۔ چینی صدر نے اس موقع پر ملک کی قومی اسمبلی سے بھی خطاب کیا اور سی پیک کو دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کا محور قرار دیا۔ اس سال اکتوبر تک مزید آٹھ ارب ڈالرسے زائد کے منصوبوں کی منظوری کے بعد سی پیک تقریباً 55 ارب ڈالر کی لاگت کا منصوبہ بن چکا ہے اور اس کو ''گیم چینجر‘‘ یعنی ملک کی تقدیر بدلنے والے منصوبے کی حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے۔ حکومت اور منصوبے کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ سی پیک نہ صرف ملک کی تقدیر بدل دے گا بلکہ اس منصوبے سے پاکستان میں غربت اور دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہو گا اور لگتا ایسا ہے کہ جیسے دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔لیکن اس منصوبے کے آغاز کے تین برس گزرنے کے بعد بھی، سی پیک کو وہ غیرمشروط عوامی پذیرائی نہیں مل رہی جیسی شاہراہِ قراقرم کو ملی تھی۔ ناقدین کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ حکومت کی جانب سے سی پیک کے طے شدہ راستوں میں تبدیلی اور ایسی غیرشفاف پالیسیاں ہیں، جن کے تحت چھوٹے صوبوں کے خدشات کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور ان میں احساسِ محرومی بڑھ رہا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے رہنما اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سی پیک کے چیئرمین سینیٹر تاج حیدر نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسے حکومتی اقدامات سے وفاق کمزور ہو گا''اگر پورے ملک میں متوازن ترقی ہو تو یہ منصوبہ پورے پاکستان کو متحد کر سکتا ہے۔۔۔۔ لیکن اب یہ ہوتا نظر آ رہا ہے کہ جو منصوبہ وفاق کو متحد کر سکتا تھا، وہی وفاق کی کمزوری کا باعث بن رہا ہے۔‘‘
سی پیک سے منسلک تنازعات میں سب سے زیادہ اچھالا جانے والا معاملہ ،منصوبے کے تین راستوں کا ہے۔
مغربی راستہ: جو صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان سمیت پاکستان کے مغربی حصے میں پسماندہ علاقوں سے گزر کر گوادر پہنچے گا۔
مرکزی راستہ: جو ملک کے درمیانی راستے سے گزر کے گوادر تک جائے گا۔
مشرقی راستہ: جو پنجاب اور سندھ سے ہوتا ہوا گوادر تک جائے گا۔
ان تینوں راستوں پر مشتمل سڑکیں ،پاکستان کے مختلف حصوں سے گزرتے ہوئے ،گوادر کی بندر گاہ پر پہنچیں گی لیکن ان میں سے کون سی سڑک پہلے بنے گی؟ اس بات پر اتفاق رائے نہیں ہے۔منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر ،احسن اقبال پچھلے ایک سال سے کہتے چلے آ رہے ہیں کہ بعض لوگ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو صرف ایک سڑک سمجھ کر اس طرح کی تنقید کر رہے ہیں۔ پچھلے سال اپریل میں، بی بی سی کو ایک انٹرویو میں انہوںنے کہا تھا کہ ''پہلے دن سے لے کر آج تک اس منصوبے کے روٹ میں ایک انچ تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ یہ تاثر قطعی غلط ہے کہ سی پیک کے راستوں یا ان کی تعمیر کی ترجیحات میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی کی گئی ہے۔‘‘دوسری جانب بلوچستان حکومت کے سابق مشیر برائے اقتصادیات اور معاشیات ،قیصر بنگالی نے بی بی سی کو بتایا کہ انہیںمنصوبہ بندی کی وزارت نے منصوبے کے روٹ کے حوالے سے مسلسل سوالات کے باوجود کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔''پہلے کہتے رہے کہ روٹ میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ پھر کہا کہ تینوں ایک ساتھ بنیں گے۔ اس کے بعد کہا کہ تینوں الگ الگ بنیں گے۔ آخری جواب آیا کہ جب ایک راستہ (مشرقی) موجود ہے تو نیا روٹ کیوں بنائیں؟‘‘سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سی پیک نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ مئی 2015 ء میں سی پیک پر ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں ،وزیراعظم نواز شریف نے مغربی راستے سے متعلق جو وعدے کئے تھے حکومت ان سے منحرف ہو گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق مغربی راستے کی تعمیر کے بارے میں حکومت کا موقف ہے کہ جیسے جیسے وہاں پر ٹریفک کی آمد و رفت بڑھتی جائے گی ،اسے مرحلہ وار مشرقی راستے کی چھ لین موٹروے کی طرح ہی تعمیر کیا جائے گا۔تاہم کمیٹی نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ مشرقی راستہ مکمل ہونے کے بعد ٹریفک کے مغربی راستے سے گزرنے کے امکانات معدوم ہو جائیں گے کیونکہ ملک کی زیادہ تر آبادی، کارخانے اور آمدورفت کے ذرائع مشرقی راستے پر ہیں اور اسی لئے ضروری تھا کہ وعدے کے مطابق پہلے مغربی راستہ تعمیر کیا جاتا۔
''وانگ وؤئے‘‘ کے بعد اردو اور چینی زبان پر مشتمل گانا ''نی ہاؤ‘‘ شاید اب پاکستانیوں کے لیے سی پیک منصوبے سے منسلک رہے گا۔ یہ گانا 12 نومبر کو اس تقریب میں پیش کیا گیا ،جس میں وزیر اعظم محمد نواز شریف نے گوادر کی بندرگاہ پر سی پیک منصوبے کے پہلے قافلے کی آمد کا افتتاح کیا۔ تقریب میں پاک چین دوستی کے گن گائے گئے اور وقتاً فوقتاً گیم چینجر کی اصطلاح استعمال کی جاتی رہی لیکن ابھی تک حکومت اتنے بڑے منصوبے کی شفافیت کے مسئلے پر ،ناقدین کو مطمئن کرنے میں ناکام رہی ہے۔ سابق سینیٹر ثنا بلوچ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر یہ منصوبہ قومی مفاد میں ہے ،تو اب تک صوبائی حکومتوں کے پاس اس سے متعلق کوئی ایسی دستاویزات کیوں نہیں ہیں جن میں منصوبے کے مختصر اور طویل المیعاد فوائد اور چینی حکومت اور چینی کمپنیوں کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کا ذکر ہو؟ پاکستان اور چین کے تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار اور مصنف اینڈریو سمال نے بی بی سی کو بتایا کہ سی پیک کی باریکیوں کو خفیہ رکھ کر، حکومت صرف اپنے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ ''سی پیک منصوبے کے حوالے سے شفافیت کا فقدان ،اْن لوگوں کو فائدہ دیتا ہے ،جن کا کام اپنے مقاصد کی خاطر صرف سی پیک منصوبے کے خلاف قیاس آرائیاں پھیلانا ہے۔ مزید یہ کہ حکومت کے کام کرنے کا طریقہ کار کچھ ایسا ہے ،جس کی وجہ سے وہ صوبے جو سی پیک کے معاملے میں کافی حساس ہیں، ان کو منصوبے کے روٹ کے بارے میں پوری طرح معلومات نہیں دی گئیں۔‘‘سینیٹر تاج حیدر نے بھی شکوہ کیا کہ وزیر اعظم نواز شریف ،سی پیک سے متعلق قائمہ کمیٹی کی درخواست کے باوجود، ان سے ملنے پر راضی نہ ہوئے اور نہ ہی اب تک قائمہ کمیٹی کے ارکان کو ،سی پیک کے حوالے سے منعقد ہونے والی تقریبات میں مدعو کیا گیا ہے۔ ''سی پیک کی ہونے والی تقریبات میں صرف اس وجہ سے نہیں بلایا جاتا کہ شاید ہم میں سے کوئی کھڑا ہو کر کہہ دے کہ جناب یہ روٹ تو کچھ اور تھا اور آپ کچھ اور کہہ رہے ہیں۔‘‘
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس منصوبے کے لئے سرکاری مشینری پوری طرح استعمال کی جا رہی ہو اور فوج اور حکومت دونوں کی پوری توجہ اس منصوبے پر مرکوز ہو اور جب کوئی بھی شخص، سی پیک کی افادیت کی بارے میں سوال کرے، تو اس کی حب الوطنی پر شک کیا جاتا ہو، کیا یہ منصوبہ واقعی ملکی سالمیت اور مستحکم مستقبل کے لئے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے؟قیصر بنگالی کے نزدیک اس منصوبے میں جب تک شفافیت نہیں آئے گی، اس وقت تک یہ ملک کی تقدیر نہیں بدل سکتا۔''اصل بات یہ ہے کہ اس منصوبے کے بارے میں کسی کو بھی کوئی معلومات نہیں ہیں۔ یہ کسی صوبے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ منصوبہ ''انتہائی خفیہ‘‘ رکھا گیا ہے۔ یہ کیسے گیم چینجر ہو سکتاہے؟ کہنے سے تو کوئی چیز گیم چینجر نہیں ہو جاتی۔‘‘معاشیات پر گہری نظر رکھنے والے صحافی خرم حسین ،جو سی پیک کے پہلے قافلے کی آمد کی تقریب میں شریک تھے، کہتے ہیں کہ سی پیک ایک طویل مدتی منصوبہ ہے اور اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن جس طرح سے اس کے بارے میں پاکستان میں مبالغہ آرائی کی جا رہی ہے وہ ہوائی قلعے تعمیر کرنے کے مترادف ہے۔خرم حسین کے نزدیک پاکستان کو اگر اپنی تقدیر بدلنی ہے تو اس کے لئے پالیسی کی اصلاحات ضروری ہیں،جن کے بغیر کسی بھی قسم کا منصوبہ مکمل طور کامیاب نہیں ہو سکے گا۔‘‘