تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     31-12-2016

ہرا پاسپورٹ‘ نیلا پاسپورٹ

یہ نسبتاً امن کا زمانہ تھا۔ خالد حسن مرحوم نے اپنا سبز پاسپورٹ دکھایا تو اسے واپس بھیج دیا گیا۔ میں نے نیلا پاسپورٹ دکھایا تو مجھے داخل کر لیا گیا۔ خالد کے بغیر میں مسجدِ اقصیٰ کے اندر جانا نہیں چاہتا تھا۔ میں نے ایلن بی برج پر قائم ٹول پلازا کے عملے سے دو دو ہاتھ کرنے چاہے تو خالد نے مجھے روک دیا۔ ''اسرائیلیوں سے بحث کی ضرورت نہیں۔ دو دن بعد جب تم عمان لوٹو گے تو مجھے اسی ہو ٹل میں پائو گے جہاں ہم دو دن سے ٹھہرے ہوئے ہیں‘‘۔ خالد اردن لوٹ گیا اور میں ویسٹ بنک کو جانے والی بس پر سوار ہوا جسے اسرائیل ''اپنا‘‘ کہتا ہے۔ خالد کو اسرائیلیوں کا جواب تھا: جب پاکستان ہمارا وجود تسلیم نہیں کرتا تو ہم پاکستان کا پاسپورٹ قبول کیوں کریں؟
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل اپنی آبادکاری کی پالیسی ترک کرے‘ جو مشرق وسطیٰ میں دو ریاستوں کے قیام میں حائل ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ نے حسب معمول قرارداد کو ویٹو کرنے کی بجائے رائے شماری میں حصہ نہ لینے کو ترجیح دی‘ یا غیر حاضر رہا۔ کیا امریکہ نے اپنی پالیسی تبدیل کر لی ہے یا قرارداد کا کانٹوں بھرا ہار منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گلے میں ڈال دیا ہے؟ سلامتی کونسل کے الفاظ میں مشرقی یروشلم سمیت ان زمینوں پر خالصتاً یہودیوں کے لیے بستیاں بسانے کا ''قانونی جواز‘‘ نہیں‘ جن پر اس نے 1967ء کی جنگ میں قبضہ کیا تھا۔ چار لاکھ یہودی‘ ویسٹ بنک کی پندرہ بستیوں میں رہتے ہیں‘ جسے فلسطینی اپنے مستقبل کی ریاست کا جزو خیال کرتے ہیں اور جس میں خالد کو دریائے اردن کے اْس پار چھوڑ کر میں داخل ہوا تھا۔ آج کل دو لاکھ اسرائیلی ایسٹ یروشلم (بیت المقدس) میں بھی مقیم ہیں‘ جسے فلسطینی اپنے نئے ملک کا دارالحکومت دیکھنا چاہتے ہیں۔ بہت سے اسرائیلی ان بستیوں کو آبائی وطن کہتے ہیں۔ انہیں بائبل کے ناموں (جوڈیا اور سامریا) سے پکارتے ہیں اور ان کے لئے مرنے مارنے پر تیار رہتے ہیں۔ ٹرمپ بولے: اقوام متحدہ نے کون سا مسئلہ حل کیا ہے؟
بنجمن نیتن یاہو‘ جو سات سال سے وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہیں‘ صدر بارک اوباما سے مایوس ہو کر منتخب صدر ٹرمپ کے دامن میں پناہ لے رہے ہیں اور امریکہ کی نااہلی پر خوب برسے ہیں۔ ''پرانی دنیا کو اسرائیل سے بغض ہے‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے اوباما اور اقوام متحدہ پر حملہ کیا اور یہ عزم ظاہر کہ اسرائیل قرارداد منسوخ کرانے کے لئے لڑے گا۔ '' قرارداد توڑ مروڑ کا نتیجہ ہے۔ اس میں بیان کیا گیا ہے کہ یہودی آبادی اور دیوارِ گریہ مقبوضہ ہیں‘ جو لغو ہے‘‘۔ ان کا اشارہ مقدس یہودی مقامات کی جانب تھا جو پرانے شہر کے اندر ہیں۔ گول مسجد اقصیٰ (القدس) اور مسجدِ عمر بھی شہر کے وسط میں ہیں‘ اور ان کے پیچھے ایک قدیم قبرستان ہے۔ القدس معراج معلیٰ کی چٹان کے گرد تعمیر کی گئی ہے (اور اس کا طرزِ تعمیر تصویروں میں عیاں ہے) وہاں صرف نوافل ادا کئے جاتے ہیں اور پنجگانہ نمازیں سامنے مسجدِ عمر میں ادا ہوتی ہیں‘ جس سے متصل وہ دیوار ہے جس پر رو رو کر یہودی اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرتے ہیں۔
نیتن یاہو امریکہ میں پل کر جوان ہوئے ہیں۔ جدید تاریخ کے علاوہ یہودیت کے عروج و زوال سے بھی واقف ہوں گے۔ وہ اس بات سے بے خبر ہیں یا یہ بے خبری سیاسی لحاظ سے انہیں راس آتی ہے کہ جو مقامات شہر کے اندر ہیں یا جنہیں وہ اور ان کے پیروکار جوڈیا اور سامریا کہتے ہیں‘ ایک اندازے کے مطابق چھ سو سال مسیحیوں اور صرف دو سو سال مسلمانوں کے تصرف میں رہے اور پرانی دنیا کو جو بغض اسرائیل سے ہے وہ ان کے دوست مسیحیوں نے پالا تھا‘ جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ یسوع مسیح جس گھر میں پیدا ہوئے‘ یہود کا تھا اور موجودہ اسرائیل اور فلسطین سلطنت روم کے باجگزار تھے اور ڈراما 'وینس کا سوداگر‘ کسی مسلمان نے نہیں ولیم شیکسپیئر نے لکھا تھا۔ نیتن یاہو کی باتیں سن کر پاکستان کے قانون ساز خان محمود خان اچکزئی یاد آئے‘ جنہوں نے پچھلے دنوں ''افغانیہ‘‘ کے قیام کا مطالبہ کیا۔ وہ (نیتن یاہو) امریکی لیڈروں کو دھمکی دیتے ہیں کہ جس کسی نے اسرائیل کو نقصان پہنچایا اسے بھاری قیمت چکانا پڑی۔
سلامتی کونسل کے چار مستقل اور دس عارضی ارکان نے یہ قرارداد منظور کی۔ امریکہ‘ جو اس عالمی ادارے کا مستقل رکن ہے‘ قرارداد کے حق میں ووٹ دینے کی بجائے غیر حاضر رہا۔ یہ قرارداد کے خلاف ووٹ دینے کے مترادف تھا۔ اس نے اسرائیل کے خلاف کئی قراردادوں پر حق استرداد استعمال کیا تھا‘ مگر آٹھ سال میں یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے بستیوں کے خلاف ووٹ دیا۔ وہ متعدد بار تل ابیب کو ایسی بستیاں نہ بسانے کی تلقین کر چکا تھا۔ پاکستان اس آزمائش میں پڑنے سے بچ گیا۔ وہ سلامتی کونسل کا رکن نہیں تھا‘ مگر سینیگال اور نیوزی لینڈ کے علاوہ وینزویلا اور ملائیشیا اس مرتبہ رکن تھے۔ انہوں نے ووٹ دیے۔ دونوں ملکوں سے اسرائیلی سفیر واپس بلائے گئے اور افریقی ملک فوری طور پر اسرائیلی امداد سے محروم ہو گیا۔ برطانیہ‘ روس‘ چین اور فرانس نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیے۔ غیر حاضر رہنے والا واحد ملک امریکہ تھا۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا: اسرائیل چاہتا ہے کہ اس کے دوست اسرائیلی پالیسی پر چلیں‘ اور نیتن یاہو نے جواب دیا: جان کیری کی پریس کانفرنس سن کر ''بڑی مایوسی‘‘ ہوئی۔
قاہرہ میں صدر ابوالفتح السیسی کی حکومت اپنے افعال کا دفاع کر رہی تھی۔ پہلے تو وہ قرارداد تجویز کرنے والوں میں شامل ہوئے‘ اور پھر اسے واپس لے لیا۔ گو آخرکار اس نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ مصر کے علاوہ ترکیہ‘ انڈونیشیا‘ اردن اور مسلم اکثریت کے کئی ملک اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں۔ پاکستان نے بھی جنر ل پرویز مشرف کے دور میں اسرائیل سے کچھ سلسلہء جنبانی شروع کیا تھا‘ مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھی، گھر کے اندر اور باقی عرب دنیا میں اسرائیل کے سامنے ہاتھ جوڑنے کا تاثر دینے کی مذمت کی گئی۔ جب قرارداد منظور ہو چکی تو مصر نے کہا کہ قرارداد واپس لینے کا فیصلہ ضابطے کی کارروائی پوری کرنے کے لئے تھا۔ اسرائیل نے قرارداد کا مسودہ واپس لئے جانے کے لئے بڑی بھاگ دوڑ کی تھی۔ تجویز کرنے والوں کی صف سے مصر کے نکل بھاگنے کے باوجود اسے پاس ہو جانا تھا۔ چند لمحے قبل اسرائیل کی درخواست پر السیسی نے ڈونلڈ ٹرمپ سے رابطہ کیا تھا‘ اور انہوں نے کلیرنس دی تھی‘ جو حیرت ناک تھی۔ ٹرمپ اپنی انتخابی تقریروں میں وعدہ کر چکے ہیں کہ وہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کا نزاع دور کرنے کی کوشش کریں گے‘ اور اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب سے یروشلم پہنچائیں گے۔ دونوں موقف امریکہ کو قبول نہیں۔ وہ سلامتی کونسل کی تصدیق چاہتا ہے۔
گزشتہ سال جب اسرائیلی حکومت نے نئے ہاؤسنگ یونٹس کی منظوری دی تو امریکی محکمہ خارجہ نے اس پر کہا کہ اسرائیل کا یہ اقدام ''اشتعال انگیز‘‘ ہے۔ اس کے باوجود بستیوں میں 26 ہزار سے زیادہ نئے گھر بنائے جا چکے ہیں۔ اسرائیل‘ فلسطینیوں پر جمود کا الزام لگاتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ بطور ایک یہودی ریاست اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ امریکہ کو بھی اس مطالبے سے اختلاف ہے۔ کیری نے کہا کہ اسرائیل کو اپنے لئے یہودی اور جمہوری ریاست میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔ باایں ہمہ امریکہ نے اسرائیل کو اگلے دس سال کے لئے فوجی امداد کے طور پر جب 38 ارب ڈالر پیش کئے تو نیتن یاہو اسے جیب میں ڈال کر رفوچکر ہو گئے۔ یہ سب سے بڑا پیکیج تھا۔
اوباما کے عہد میں امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات پست ترین سطح پر رہے۔ نیتن یاہو نے 20 جنوری کو آنے والی ریپبلکن ایڈمنسٹریشن کا خیر مقدم کیا مگر ساتھ ڈیموکریٹوں کو بھی روند ڈالا‘ اور ان کے ایک ترجمان نے کہا کہ ہمارے پاس ''لوہے توڑ‘‘ ثبوت ہے کہ ڈیموکریٹ ایڈمنسٹریشن نے قرارداد منظور کرائی‘ اور سلامتی کونسل کی جانب سے ایسی قراردادیں اور بھی آنے والی ہیں‘ جو بالآخر فلسطین کے قیام پر منتج ہوں گی۔ وائٹ ہاؤس نے معذرت خواہانہ انداز میں جواب دیا کہ یہ قرارداد ''توازن‘‘ پیدا کرنے کے لئے تھی اور یہ کہ اس مضمون پر اور قراردادوں کا امکان نہیں ہے۔ امریکہ میں عرب آبادی تقریباً یہود کے برابر ہے مگر عربوں اور مسلمانوں میں زبان اور کلچر کے اختلاف کے باعث یک جہتی نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved