2016ء اپنی یادیں چھوڑ کر رخصت ہو گیا۔ اس ایک سال میں بہت کچھ ایسا ہوا جس کی توقع نہیں تھی۔ بہت کچھ ایسا ہوا جو ہر سال ہوتا ہے۔ صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے‘ عمر یونہی تمام ہوتی ہے۔ سورج مقررہ وقت پر طلوع ہوتا اور اپنے مقررہ وقت پر غروب ہوتا رہا۔ آبادی میں اضافہ ہوا اور کمی بھی ہوتی رہی۔ بہت سے نامور اور محترم اشخاص دنیا سے رخصت ہوئے۔ محمد علی باکسر سے لے کر عبدالستار ایدھی تک اپنے اپنے حصے کا کام کرکے اپنے اللہ کے حضور حاضر ہو گئے۔ ذاتی دوستوں کے حلقے میں بھی خلا پیدا ہوئے، بین الاقوامی اور قومی سیاست میں بھی محرومیاں دیکھنے کو ملیں۔ ایک ایک کا نام لکھنا ممکن ہے نہ ضروری۔ عالمِ اسلام کو شام کے حالات نے افسردہ رکھا۔ ایک ہی ملک کے رہنے والے ایک ہی اللہ کا نام لینے والے اور ایک ہی رسول کا کلمہ پڑھنے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ لاکھوں بے گھر ہوئے، لاکھوں کا خون بہا اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ حکمران طبقات کی ہوسِ اقتدار اور مخالفین کی منہ زوری نے معاملات کو الجھایا۔ ترکی، ایران، سعودی عرب، قطر، امریکہ اور روس نے اپنے اپنے حامیوں کی پیٹھ ٹھونکی اور ظلم و بربریت کی داستانوں میں اضافے ہوتے چلے گئے۔ اب روس، ایران اور ترکی نے مل کر جنگ بندی پر اتفاق کیا اور اپنے اپنے جنگجوئوں کو لگام دینے کا عہد کیا ہے۔ اس پر کس حد تک عمل ہو پاتا ہے، یہ 2017ء ہی بتا سکے گا۔ جنگ بندی سے امریکہ ابھی تک غیر متعلق ہے، اسے شریک گفتگو کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ افغانستان کے معاملے میں بھی چین، روس اور پاکستان مل بیٹھے ہیں اور اپنے ناخن تدبیر سے گرہیں کھولنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ امریکہ اپنی اس ''سبکی‘‘ پر صبر کر لے گا یا ہاتھ دکھانے کی کوشش کرے گا، اس بارے میں کچھ کہنا بھی قبل از وقت ہو گا۔ یہ ایک پیغام ضرور مل رہا ہے کہ دنیا کسی ایک سپریم طاقت کی مٹھی میں بند نہیں رہی۔ طاقت کے نئے مراکز اُبھر رہے ہیں اور اپنے وجود کا احساس دلا رہے ہیں۔ ان میں اپنے مسائل کو (الجھانے اور) سلجھانے کی امنگ بھی دھیمی نہیں ہے۔
امریکہ کے صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی نے پوری دنیا کو چونکا کر رکھ دیا۔ امریکہ کے اندر بھی کئی طاقتور حلقے اس صدمے کو برداشت نہیں کر پا رہے۔ امریکہ سے روسی سفارتکاروں کی ایک بڑی تعداد کو اس الزام پر نکال باہر کیا گیا ہے کہ انہوں نے صدارتی انتخاب میں مداخلت کی تھی۔ کہا جا رہا ہے کہ صدر پیوٹن کی براہ راست نگرانی میں ایسی معلومات افشا کی جاتی رہیں‘ جن سے ہلری کلنٹن کو نقصان پہنچا۔ گویا، ڈونلڈ ٹرمپ کا بطور صدرِ امریکہ چنائو روس کا مرہونِ منت ہے۔ اس کے گہرے سماجی، نفسیاتی اور سیاسی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا اسلوب ایسا ہے کہ امریکی معاشرے میں داخلی کھچائو تیز ہونے کے خدشات ابھر چکے ہیں۔ دنیا بھر کی ذہانتوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی امریکی صلاحیت خطرے سے دوچار ہے۔ یورپ کے اندر بھی یہی کشمکش سر اٹھا رہی ہے۔ دہشت گردی نے ہر معاشرے کو ہراساں کر دیا ہے۔ جرمنی سے لے کر فرانس اور انگلینڈ سے سکینڈے نیوین ممالک تک قوانین بدلے جا رہے ہیں۔ آبادیوں میں فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ امریکہ نے پہلی بار اسرائیل کے خلاف سلامتی کونسل کی قرارداد کو ویٹو نہیں کیا‘ اور یوں عرب مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے خلاف مذمت کی قرارداد نے منظور ہو کر ایک نیا منظر پیش کر دیا ہے۔
پاکستان کے نقطہء نظر سے دیکھا جائے تو پرانا سال نئے زخم لگا کر نہیں گیا۔ اس دوران دہشت گردی کے واقعات میں کمی ہوئی، توانائی کے بحران پر قابو پانے کی کوششیں تیز تر ہوئیں، مہنگائی کا جن قابو میں رہا۔ روس کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے، چین کے ساتھ تعلقات میں نئی وسعت اور گہرائی پیدا ہوئی۔ پاک چین تجارتی راہداری کی تعمیر شدت سے جاری ہے۔ گوادر کی بندرگاہ پر بھی کام کا آغاز ہو چکا ہے۔ پاکستان کو اپنے مسائل کے حل کے لئے جس بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، وہ چین سے فراہم ہو رہی ہے اور عالمِ پیر مر رہا ہے۔ جہان تازہ ابھر رہا ہے۔ اسلام آباد اور نئی دہلی کے تعلقات میں بہتری کے آثار نمودار نہیں ہوئے۔ دونوں ملکوں کو اپنے نان سٹیٹ ایکٹرز پر قابو پانا ہو گا۔ افغانستان، پاکستان اور ہندوستان میں دہشت گردی کو شکست دینے کے لئے مشترکہ حکمت عملی وضع کرنا ہو گی۔ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے ذریعے ہی اس عفریت پر قابو پانا ممکن ہو سکے گا۔ مسائل بہت ہیں، لیکن نہ یہ ایک دن میں پیدا ہوئے ہیں‘ نہ ایک دن میں حل ہو سکتے ہیں۔ پاکستانی جمہوریت اگرچہ لڑکھڑاتی رہی، لیکن اسے ڈی ریل کرنے کی خواہش پوری نہیں ہو سکی۔ پاناما لیکس کا ملبہ وزیر اعظم نواز شریف پر گرانے کی عمرانی خواہش ابھی تک پوری نہیں ہو سکی۔ بلاول بھٹو گرجنے کے باوجود برس نہیں پا رہے۔ زرداری صاحب اور ان کے درمیان توازن برقرار رکھنا دونوں کی ضرورت ہے۔ ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے درمیان دلچسپ کشاکش جاری ہے۔ وہ دور ہو کر قریب اور قریب ہو کر دور دکھائی دیتے ہیں۔ فوجی ہائی کمان میں تبدیلی نے منہ زور سازشیوں کو چپ سی لگا دی ہے۔ انہوں نے دم سادھ لیا ہے، لیکن اپنی جگہ موجود ہیں۔ سپریم کورٹ کی کمان بھی بدل چکی ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا اجتماعی نظم استوار نہیں رہ پاتا۔ گاڑی پٹڑی پر رہے گی تو ہی منزل پر پہنچے گی۔ 2016ء اپنے سے پہلے گزر جانے والے سال سے بہرحال بہتر تھا۔ 2017ء میں سپریم کورٹ کا کردار بھی اہم ہو گا کہ وہ پاناما کے ہنگامے سے کیسے نبٹتی ہے اور ان اہلِ سیاست کا بھی جو صبر کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ عوام کا پیمانہء صبر بہرحال لبریز نہیں ہے کہ 2018ء انتخابات کا سال ہے اور انہیں ووٹ کے ذریعے تبدیلی لانے کا حق استعمال کرنے کا موقع مل جائے گا، اگر وہ ایسا چاہتے ہیں تو۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ 2017ء انتظار کا سال ہو گا، 2018ء کا انتظار۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]