بہترہوتا اگرانگریز کا متروکہ کمشنری نظام بحال کر کے پنجاب میں پرانا اور فرسودہ نظام دوبارہ رائج کرنے کے بجائے‘ انگریز بہادر سے براہ راست درخواست کر دی جاتی کہ ''حضور والا! ہم نے 70 سال میں حکومتیں بنانے اور چلانے کے بے حد تجربات کر کے دیکھے، لیکن ہم وہ انتظامی معیار حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اس لئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ متروکہ کمشنری نظام بحال کرنے کے بجائے‘ ازراہ کرم آپ خود ہی دوبارہ اپنی متروکہ کالونی کا نظم و نسق سنبھال لیں۔ اس سے عوام بے حد خوش ہوں گے۔ انہیں بھی رشوت اور سفارش سے پاک نظام میسر آ جائے گا۔ ان کے دکھ درد بھی دور ہو جائیں گے اور آپ کو بھی ایک نئی کالونی ‘ سازشوں اور فوجی کارروائیوں کے بغیر حاصل ہو جائے گی۔ ہمارے اہل خاندان اور بال بچے آپ کو دعائیں دیں گے اور ہمارے ملک سے رشوت خوری‘ اقرباپروری اور وہ تمام نئے انتظامی طور طریقے‘ جنہیں ہم نے 70 برس میں نافذ کیا‘ ان سے عوام کو نجات مل جائے گی۔‘‘ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ خوئے غلامی بحال کرنے کے لئے ہماری اعلیٰ انتظامیہ یقینا بے چین ہو گی۔ لیکن اصل مسئلہ ہماری وہ مجبوریاں ہیں‘ جن کی وجہ سے ہم اپنے بال بچوں کے اخراجات پورے نہیں کر سکتے۔ ہمارے بچے اب اعلیٰ معیار کے انگریزی سکولوں میں پڑھتے ہیں۔ ان کی حفاظت کے لئے ہمیں سرکاری خرچ پر انتظامات کرنا پڑتے ہیں۔ بھاری فیسیں ادا کرنے کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ اگر انگریز بہادر کو واپس بلا کر‘ حکومت چلانے کی ذمہ داریاں واپس کر دی جائیں‘ تو ہمارا کیا بنے گا؟
میرے یہ تصورات و خدشات بلاوجہ نہیں۔ مجھے علم ہے کہ بحریہ ٹائون والے ملک ریاض عوام کی مدد کے لئے بے شمار تجاویز حکومتوں کے گوش گزار کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ہم نے کرپشن کا جو خالص اور دیسی ڈھانچہ ایجاد کیا ہے‘ وہ زمین بوس ہو جائے گا۔ مثلاً بحریہ ٹائون والے ملک ریاض نے قیدیوں کو مفت سحری و افطاری دینے کی پیش کش کی تھی۔ اس پیش کش کو رد کرنے کے متعدد حیلے بہانے تلاش کئے گئے۔ آخر کار بیوروکریسی نے یہ رعایت دے دی کہ صرف رمضان کے دوران‘ قیدیوں کو یہ سہولت مہیا کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ اس پر ملک ریاض کی حوصلہ افزائی ہوئی اور انہوں نے
پیش کش کی کہ میں پورا سال قیدیوں کو اپنے خرچ پر کھانے پینے کی سہولتیں مہیا کر سکتا ہوں۔ لیکن آپ کو اس کی اجازت دینا پڑے گی۔ یہ حیرت انگیز پیش کش پڑھ کر سارے محکمے میں کھلبلی مچ گئی، میٹنگیں ہوئیں، فائلیں چلیں، ورک پیپر تیار کئے گئے اور آخر میں معذرت کر لی گئی کہ ہم رمضان المبارک کے سوا‘ ایسی مزید سہولتیں مہیا کرنے نہیں دے سکتے۔کرپشن پسند حلقوں نے سختی سے منع کر دیا کہ قیدیوں کو جیل میں سزا کے لئے رکھا جاتا ہے‘ عیش و آرام کے لئے نہیں۔ لہٰذا قیدیوں کے کھانے پینے کا سارا انتظام حسب معمول انتظامیہ کرے گی۔ اس میں راز یہ تھا کہ موجودہ طریقہ کار کے تحت قیدیوں کی بودوباش اور خوراک کے لئے سرکاری فنڈز جاری ہوتے ہیں۔ اگر کوئی نجی ادارہ ان سارے کاموں کی ذمہ داری اٹھا لے‘ تو سرکاری فنڈز کہاں جائیں گے؟ ہمارے پاس ان میں خُورد برد کی کوئی گنجائش نہیں رہ جائے گی۔ ماتحت عملہ اپنی گزراوقات کہاں سے کرے گا؟ افسران کا گزارہ کیسے ہو گا؟ قیدیوں کی خوراک کے لئے مخصوص رقم ملازمین اور افسران ‘ نجی ضروریات پر کیسے خرچ کر سکیں گے؟ حقیقت یہ تھی کہ کسی نجی مخیر کی طرف سے یہ سارے اخراجات رضاکارانہ طور پر دے دیئے گئے‘ تو جیل کا عملہ اور ساری بیوروکریسی فاقہ کشی کا شکار ہو جائے گی۔ قیدی تو عیش و آرام کریں گے۔ لیکن ان کی دیکھ بھال پر مامور عملہ کیا کرے گا؟ ایسی ہی ایک تجویز ملک ریاض نے ہسپتالوں کے لئے پیش کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ پنجاب کے تمام بڑے سرکاری ہسپتالوں کے اخراجات وہ اپنی طرف سے اٹھانے کو تیار ہیں۔ حکومت کو ہسپتالوں پر ایک پیسہ بھی خرچ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ڈاکٹروں اور دوسرے عملے کی تمام تنخواہیں اور مراعات ملک ریاض خود مہیا کریں گے۔ ہسپتالوں کو خالص اور معیاری ادویات بھی بلامعاوضہ فراہم کی جائیں گی‘ جو مریضوں کو حسب ضرورت مہیا ہوں گی۔ ڈاکٹر حضرات جتنے بھی ٹیسٹ تجویز کریں گے‘ وہ سب کے سب ملک ریاض کے اخراجات پر کرائے جائیں گے۔ اعلیٰ معیار کی ایمبولینس سروسز مہیا کی جائیں گی۔ ڈاکٹر حضرات کو بیرونی ہسپتالوں میں خدمات انجام دینے کے مواقع مہیا کر کے‘ ان کا معیار کارکردگی بہتر بنایا جائے گا اور ترقی یافتہ ملکوں میں عملی تجربہ حاصل کرنے والے ڈاکٹر‘ واپس پاکستان آ کر مریضوں کو مفت خدمات مہیا کریں گے۔ سارے ٹیسٹ اور آپریشن بلامعاوضہ کئے جائیں گے۔ملک صاحب کی طرف سے یہ پیش کش آج بھی موجود ہے۔ لیکن اسے قبول کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ خود وہ لوگ ہیں‘ جنہوں نے محکمہ صحت کی ملازمتیں اس لئے حاصل کی ہیں کہ وہ حکومت کی طرف سے عوام کے لئے فراہم کردہ فنڈز کا کیا کریں گے؟ واقعی بہت درد بھری کہانی ہے۔ جب تنخواہیں دینے کی ذمہ داری نجی سپانسر اٹھا لے گا‘ تو پھر وہ فنڈز کس کام کے رہیں گے؟ محکمے کے افسروں کا کیا بنے گا؟ ہسپتال کے ڈاکٹروں کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟ کیا حکومتی فنڈز پڑے پڑے گل سڑ جائیں گے؟ علاج معالجے کے لئے مخصوص کی گئی سرکاری رقم کہاں اور کیسے خرچ کی جائے گی؟ ایسے ہی پریشان کن سوالات کی بنا پر ملک صاحب کی پیش کش قبول نہیں کی گئی۔ حالانکہ جو ادارے ملک ریاض کے زیرانتظام‘ ان کے ذاتی اخراجات پر چلائے جا رہے ہیں‘ وہ ہر اعتبار سے سرکاری ہسپتالوں سے بدرجہابہتر ہیں۔ ملک صاحب چند ہسپتالوں میں اپنی انتظامیہ کے تحت بدرجہا بہتر خدمات اور دوائیں مہیا کر کے‘ ہزاروں مریضوں کی دعائیں لے رہے ہیں۔ کسی مریض کی زندگی خطرے میں ہو‘ تو بلاتاخیر اسے بیرونی علاج کے لئے بھیج دیا جاتا ہے۔ جو ہسپتال ایک فرد کے ذاتی اخراجات پر خدمات مہیا کر رہے ہیں‘ ان میں مختلف امراض کے تربیت یافتہ ماہرین ترقی یافتہ ملکوں سے بھرتی کر کے لائے جاتے ہیں اور غریب پاکستانیوں کو اسی معیار کی طبی خدمات مہیا کی جاتی ہیں‘ جو یورپ اور امریکہ میں حکومت کی طرف سے فراہم کی جاتی ہیں۔
ملک صاحب کی ان ''عوام دشمن‘‘ سرگرمیوں کو سرکاری حلقوں میں شدید ناپسندید گی سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کی ہر ''شرپسندانہ‘‘ کوشش کو ناکام بنانے کے لئے ساری بیوروکریسی ہمہ وقت مستعد رہتی ہے۔ سرکاری ملازمین میں بھی اگر کوئی قسمت کا مارا اپنے فرائض ذمہ داری سے ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ تو میڈیا سمیت سارے مخالفین اور حریف اس کے گرد گھیرا تنگ کر دیتے ہیں۔ نیب کی واحد ذمہ داری یہ ہے کہ کرپشن کرنے والوں کو گھیرے میں لے کر ‘ ان سے حرام کی کمائی اگلوائی جائے۔ لیکن ''حرام خوروں کی برادری‘‘ متحد ہو کر ان کے پیچھے پڑ جاتی ہے اور ایسے حالات پیدا کر دیتی ہے کہ ناجائز کمائی پر ہاتھ ڈالنے کی طاقت چھین لی جائے۔ جب بھی کسی حرام خور پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے‘ تو فوراً ہی اعلیٰ ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں۔ بڑے سے بڑے افسر اور عہدیدار شکایات لے کر دربار عالیہ میں پہنچ جاتے ہیں اور ان کی شنوائی حیرت انگیز تیز رفتاری سے ہو جاتی ہے۔ ملک کے انتہائی بااختیار لوگ بھی گرفت میں آنے والے حرام خوروں کو عزت دار قرار دے کر‘ نیب والوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ بعض اوقات انہیں دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔ چونکہ نیب سرکاری محکمہ ہے‘ اس لئے ان کے پاس کرپشن کو روکنے یا ختم کرنے کے جتنے بھی اختیارات ہیں‘ ان سب کو بے اثر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مفلوج اختیارات کے بل بوتے پر نیب کو چلایا جاتا ہے۔ ہمارا سارا نظام ہی مفلوج اختیارات کے تحت چل رہا ہے۔ نہ خود کوئی بااختیار شخصیت آگے بڑھ کرفالج کا علاج کرنے کی کوشش کرتی ہے‘ نہ کسی کو کرنے دیتی ہے۔ ملک ریاض کی مثال میں پیش کر چکا ہوں کہ جو محکمہ عوامی خدمت اور فلاح کے جس کام پر مامور ہے‘ نہ تو اسے کرنے دیا جاتا ہے اور نہ کسی دوسرے کو اجازت دی جاتی ہے۔ انگریز بھی کتنے بدبخت تھے کہ انہوں نے عوامی استحصال کے ساتھ ساتھ‘ عوامی خدمات کا نظام بھی وضع کر رکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پرانے زمانے کے بزرگ آج بھی انگریز کو یاد کرتے ہیں۔ گویاغلامی کا موجودہ نظام جس میں عوام رہنے پر مجبور ہیں‘ غیرملکی آقائوں کا طرز غلامی اس سے کہیں بہتر تھا۔