تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     01-01-2017

مداوا

قوموں کے نصیب میں آخر کار وہی ہوتا ہے‘ جس کی انہوں نے کوشش کی۔ سرپرستوں کی بجائے‘ ہم دوست اور شریکِ کار کیوں نہیں ڈھونڈتے؟ ہماری نفسیات میں خرابی کیا ہے، اس کا مداوا کیا؟
دو طرح کے رویّے ہوتے ہیں۔ ایک حالات کا سامنا کرنے اور مواقع کے مقابل اُٹھ کھڑے ہونے کا۔ زندگی امکانات اور ان سے نمٹنے کے سوا کیا ہے؟ دوسرا گریزکا۔ جذبۂ عمل نہ جاگے تو عافیت پسندی کا۔ سوال بالکل سادہ اور سامنے کا ہے۔ جس ملک کے سیاستدان حریف سے بہتر جوہری اور میزائل پروگرام بنا سکتے ہیں۔ تاخیر سے آغاز کے باوجود‘ برسوں کی مسافت پر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ وہ کپاس‘ گیہوں اور دھان کے بہتر بیج کیوں تخلیق نہیں کرسکتے؟ سب جانتے ہیں کہ بھارت میں گندم اور کپاس کی پیداوار‘ پاکستان سے دوگنا ہے۔ آخر کیوں ؟
ایٹمی پروگرام پر کام کرنے والے ماہرین‘ کیا کسی اور آب و گل سے ڈھالے گئے ہیں؟ انہی کے بھائی بند ہیں۔ زیادہ تر انہی یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ۔ پھر اس میدان میں پاکستان اتنا کیوں پچھڑ گیا۔ عصر نو کی ایجادات کے ثمر سے محروم۔ اس کے کھیت کھلیان‘ عبرت کا نمونہ بنتے جا رہے ہیں۔ دیہی اور زرعی زندگی ماند پڑتی جا رہی ہے۔ مایوسی اور نامرادی کی تصویر ہو گئی ہے ؎
شام ہی سے بجھا بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
معاشروں کا زوال کوئی حادثہ نہیں ہوتا۔ رفتہ رفتہ، بتدریج نمودار ہوتا اور آخرکار المیہ بن جاتا ہے۔ انتخابی مہمات کے ہنگام‘ شکست کا اندیشہ کچے دھاگے سے بندھی تلوار کی طرح لٹکتا ہے تو تین تین‘ چار چار سو ارب کے پیکج کی گنجائش کہاں سے نکلتی آتی ہے؟ اس کا بیشتر برباد ہو جاتا ہے۔ حق داروں تک کبھی نہیں پہنچتا۔ کالی پیلی ٹیکسیوں‘ نوجوان بے روز گاروں کے لیے اربوں کے قرضے کہ حکمرانوں کی نئی نسل کا سیاسی مستقبل سنوارا جا سکے۔ یہی سرمایہ زرعی کالجوں‘ یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کے لیے کیوں مہیا نہیں؟
کیا یہ کوئی گہراتا ریک راز ہے یا وہی غیر ذمہ دارانہ اندازِ فکر‘ جو ہمارا شعار ہے؟ کابینہ کا کوئی اجلاس‘ ماہرین کا کوئی گروپ‘ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی کوئی کمیٹی کیوں اس پہ غور کیوں نہیں کرتی؟ احتساب کا ایک ایسا ادارہ تجویز کرنے کے لیے سینیٹ کے چیئرمین جناب رضا ربانی کو فراغت نصیب ہے‘ جو ہم سب جانتے ہیں کہ کبھی قائم نہ ہو گا۔ میاں محمد نوازشریف اس کے متحمل ہو سکتے ہیں‘ آصف علی زرداری‘ مولانا فضل الرحمن اور نہ محمود اچکزئی۔ ایک کے بعد دوسرے بحران کا شکار ہوتی قومی معیشت کے لیے کیوں نہیں؟ ملک کی تاریخ میں پہلی بار‘ قومی برآمدات میں 20 فیصد کمی ہو گئی۔ اتنی سی توفیق بھی وزیراعظم کو نہ ہو سکی کہ مباحثے کے لیے ماہرین کو جمع کرتے۔ جناب خرم دستگیر خاں کا وفاقی وزارت پہ ڈٹے رہنا‘ اگر ضروری ہے تو تجارت کی بجائے کوئی اور شعبہ انہیں سونپ دیا جائے۔ ان کا ہنر معلوم ہے اور یہ بھی کہ ہمیشہ برقرار رہنے والا ہے۔ یہ ذمہ داری پہل کاری رکھنے والے کسی سیاستدان کو سونپ دی جائے۔ بجا کہ قحط الرجال ہے‘ مگر ایسا بھی کیا قحط کہ خرم دستگیر کا متبادل بھی دستیاب نہ ہو سکے۔ سیالکوٹ اور وزیر آباد کی کٹلری‘ پارچہ جاتی گھریلو مصنوعات سے لے کر‘ مشاق طیاروں اور عقب میں چھپے ہدف کو نشانہ بنانے والے‘ ہیوی مکینیکل ٹیکسلا کے بنے پستول سمیت‘ برآمد کرنے کے لیے کتنی ہی چیزیں ہیں۔ چین کی اتنی بڑی مارکیٹ ہے‘ چالیس پچاس کروڑ کی مڈل کلاس‘ جاپان‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ ہے‘ افریقی منڈیاں ہیں۔ کوئی ایک مردِ کار بھی نہیں؟ چند لوگ بھی نہیں؟ آدمی سے فرق پڑتا ہے۔ ہمایوں اختر خاں کے پانچ سالہ دور میں‘ پاکستانی برآمدات میں سات آٹھ ارب ڈالر کا اضافہ تھا۔ خرم دستگیر کے دور میں چار پانچ ارب ڈالر کی کمی کیسے ہو گئی؟ ظاہر ہے کہ ساری حکومت ذمہ دار ہے۔ عالمی حالات کا عمل دخل بھی ہو گا۔ مگر خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ ایسا کیوں نہ ہوا؟ حد تو یہ ہے کہ ایران کے ساتھ‘ ہماری تجارت ایک بلین ڈالر سے کم ہو کر 270 ملین ڈالر رہ گئی۔ آخر کیوں؟ کوئی اس سوال کا جواب کیوں نہیں دیتا؟
سٹیٹ بینک کی تازہ رپورٹ یہ کہتی ہے کہ ٹیکس وصولی کم رہی ہے۔ بجٹ خسارے میں اضافہ ہوا۔ شرح سود کم ہونے کے باوجود بڑے صنعتی ادارے قرض حاصل کرنے سے گریزاں ہیں۔ کیا کوئی بتائے گا کہ کیوں؟ بینکوں کے دروازوں پہ صنعت کار کھڑے رہتے تھے۔ اب کیوں نہیں؟ ان کی ترجیحات اور ہیں‘ حضرت رضا ربانی اور جناب ایاز صادق سے کچھ زیادہ اُمید نہیں کی جا سکتی ہے۔ دو تین روز کی بحث تو بہرحال وہ کرا ہی سکتے ہیں۔ 
وزیراعظم کو غور کرنے کی فرصت کیوں نہیں کہ صنعت کار اپنے ملک اور ماحول سے اس قدر مایوس کیوں ہیں؟ اسحاق ڈار وزیر خزانہ بنائے گئے تو دعوے کرنے اور وقت سے پہلے خوش خبریاں سنانے والے اس آدمی نے کہا تھا کہ 9 فیصد سے ٹیکس وصولی کی شرح 13 فیصد تک پہنچا دی جائے گی۔ ٹیکس دہندگان میں اضافہ ہو گا کہ 30 لاکھ نادہندگان کی فہرستیں ایف بی آر کے پاس پڑی ہیں۔ کیا وہ بتانا پسند کریں گے کہ بالکل برعکس‘ ان کی تعداد امسال اور بھی کم کیسے ہو گئی؟ 
ٹیکس وصولی پہ تو اصرار بھی نہیں، اس کے باوجود پاکستان کا سرمایہ کار ملک سے بھاگ کیوں رہا ہے؟ صرف دبئی میں ہر سال دو سو ارب روپے کی جائیدادیں خریدی جا رہی ہیں۔ ملائیشیا میں پاکستانی سرمایہ کاری ہے‘ حتیٰ کہ بعض بنگلہ دیش جا پہنچے۔ ملک میں مثالی معیار کا گرم کپڑا بنانے والا قدیم ترین کارخانہ چین منتقل ہو چکا۔ کیا یہ خطرناک بات نہیں‘ کیا کسی کو اس پر کبھی شرم آتی ہے؟ ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ جس ملک کے حکمران اور اپوزیشن لیڈر بیرون ملک کاروبار فرما رہے ہوں‘ ان سے ایسے استفسار کا کیا جواز؟ پھر یہ سوال کس سے کیا جائے؟ کیا بالآخر وہ ایک ایسے اجڑے ہوئے ملک پر حکومت فرمائیں گے‘ جس کی کاروباری حیات برباد ہو گئی ہو۔کیا وہ سمندر پار جا بسیں گے؟
ایوان ہائے صنعت و تجارت کی فیڈریشن نے انیس صفحات کی ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ تجارتی راہداری کے منفی پہلوئوں پر جس میں تشویش کا اظہار ہے۔ چینی سرمایہ کاری کا سبھی نے خیرمقدم کیا ہے۔ ہر ہوش مند آدمی نے کہا غیر ملکی سرمایہ کا امکان پاتال پہ ہے‘ ہر تصویر کا لیکن ایک دوسرا رُخ بھی ہوتا ہے۔ صنعت کاروں کی نمائندہ تنظیم کا کہنا یہ ہے کہ چین کے ساتھ ہمارا آزادانہ تجارت کا معاہدہ ہے۔ کوئی روک ٹوک‘ کوئی پابندی اس میں نہیں۔ اندیشہ یہ ہے کہ چینی درآمدات کا طوفان‘ پاکستانی صنعت کار کو بہا لے جائے گا۔ ہم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے کہ اشیاء تیار کرنے کی اجرت اور قیمت‘ ہمارے ہاں زیادہ ہے۔ اس پر ستم یہ ہے کہ چین افرادی قوت بھی اپنے ساتھ لائے گا‘ ستر فیصد ملازمین ۔ کیا یہ خسارے کا سودا نہ ہو گا۔ یہ بات اتنی سہولت سے مان کیسے لی گئی۔ اس رپورٹ کے مطابق‘ ایک اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ کرپشن کے حوالے سے چینی کمپنیاں‘ مغرب کے مقابل کہیں زیادہ بدنام ہیں۔ چینی منصوبوں میں شفافیت نام کو نہیں‘کرپشن کی بلا سے چھٹکارے کا بندوبست کیا ہے‘ جو پہلے ہی دیمک کی طرح ہر چیز کو چاٹ رہی ہے۔ 
بے شک چین ہمارا بہترین دوست ہے مگر یہ کاروبار ہے۔ یہ کچھ لو اور کچھ دو کا نام ہوتا ہے‘ ہاتھ پھیلانے اور خیرات وصول کرنے کا نہیں۔ تجارتی راہداری سے وابستہ چین کے مفادات‘ پاکستان سے کہیں زیادہ ہیں۔ ان کے ساتھ سودی بازی کیوں ممکن نہیں۔ کیا شریف خاندان نے امریکہ بہادر کی بجائے‘ اب ایک نیا آقا ڈھونڈ لیا ہے؟
مصائب اور مشکلات میں کبھی ہم سعودی عرب کی طرف دیکھا کرتے اور کبھی مغرب کی طرف‘ کیا اب چین پہ مکمل انحصار کا فیصلہ ہے؟
قوموں کے نصیب میں آخر کار وہی ہوتا ہے‘ جس کی انہوں نے کوشش کی۔ سرپرستوں کی بجائے‘ ہم دوست اور شریکِ کار کیوں نہیں ڈھونڈتے؟ ہماری نفسیات میں خرابی کیا ہے، اس کا مداوا کیا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved