تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     01-01-2017

’’اب کوئی اور کرے پرورش ِگلشن ِغم‘‘ (2)

چیف سکیورٹی ایڈوائزر رحمن ملک میڈیا کو ، دم توڑتی ہوئی بینظیر بھٹو کے بخیروعافیت ہونے کی اطلاع دے رہے تھے ۔ قاتل نے سر کا نشانہ لیا تھا اور گولی عین نشانے پر لگی تھی ۔ محترمہ کے لئے ایک گاڑی ـ''سٹینڈ بائی‘‘ کے طور پر موجودہوتی ‘ اس روز یہ بلیک مرسیڈیزتھی ۔ کہا جاتا ہے محترمہ عین آخری لمحے فیصلہ کرتیں کہ انھیں کس گاڑی میں بیٹھنا ہے ۔ بلیک مرسیڈیز میں رحمن ملک ،بابر اعوان اور جنرل (ر) توقیر ضیاء جا بیٹھے تھے۔ محترمہ لینڈ کروزر میں مخدوم امین فہیم ، ناہید خان اور صفدر عباسی کے ساتھ تھیں ۔ ہجوم میں ایک طرف کچھ لوگ نعرے لگا رہے تھے ۔ محترمہ نے سن روف کھولا اور نعروں کا جواب دینے کے لئے کھڑی ہو گئیں ۔ ٹارگٹ زد میں آگیا تھا ، قاتل نے نشانہ لے لیا ۔ بلیک مرسیڈیز آگے تھی ۔ ایک ٹی وی انٹر ویو میں بابر اعوان نے بتایا کہ رحمٰن ملک نے بلیک مرسیڈیز کے بیک مرر سے دیکھا ،محتر مہ ہجوم میں گاڑی کی چھت سے باہر نکل آئی تھیں ۔رحمان ملک تشویش کا اظہار کر رہے تھے کہ بی بی خطرے کی زد میں آگئی ہیں لیکن وہ تو ان کے چیف سکیورٹی ایڈوائزر تھے ۔کیا دوسری گاڑی میں بیٹھے ان کی ذمہ داری صرف تشویش کے اظہار تک تھی ۔ یوں نہ تھا کہ ادھر محترمہ کا سر باہر نکلا اور اُدھر وہ فائر کی زد میں آگئیں ۔ وہ نعروں کے جواب میں کافی دیر ہاتھ ہلاتی رہی تھیں ۔ کیا یہ وقت کافی نہ تھا کہ رحمٰن ملک بلیک مرسیڈیز سے باہر آتے اور انہیں بیٹھ جانے کی تلقین کرتے؟ یا اتنا تو کرتے کہ محترمہ کی گاڑی میں موجود امین فہیم اور ناہید خان سے موبائل پر رابطہ کرتے کہ محترمہ کو بیٹھ جانے کے لئے کہیں ۔
حملے کے منصوبے میں صرف محترمہ کو فائرنگ کا نشانہ بنانا نہ تھا ، ان کی گاڑی کے باہر بم دھماکہ بھی ہوا ۔ اس افراتفری میں بلیک مرسیڈیز بھی بھاگ نکلی ۔محترمہ کی خیریت جاننے کے لئے میڈیا والے ان کے چیف سیکیورٹی ایڈوائزر سے رابطہ کر رہے تھے اور جواب میں وہ ان کے بخیریت ہونے کی اطلاع دے رہے تھے۔ دھماکے کے باعث محترمہ کی بلٹ پروف گاڑی کا ٹائر تباہ ہو گئے تھے ۔ لینڈ کروزر کچھ فاصلے تک چلتی رہی اور بالآخر جواب دے گئی۔ ایک ایک لمحہ قیمتی تھا ، محتر مہ کی سانس اکھڑ رہی تھی ۔اسی دوران شیری رحمٰن کی گاڑی اِ دھر سے گزری (وہ خود گاڑی میں نہ تھیں)۔ ڈرائیور نے لینڈ کروزر کو دیکھ کر گاڑی روکی ۔اور محترمہ کو اس میں ڈال کر جنرل اسپتال کا رخ کیا ۔بلیک مرسیڈیز کہیں اسلام آباد کی طرف نکل گئی تھی ۔ دنیا بھر میں کروڑوں آنکھیں اور کان ٹی وی سکرینوں پر لگے ہوئے تھے ۔ ؎
سانس تھامے ہیں نگاہیں کہ نجانے کس دم 
تم ٹھہر جائو، پلٹ آئو یا مڑ کر دیکھو 
دنیا کو محترمہ کے رخصت ہو جانے کی خبر میاں نواز شریف کو آنے والی ایک موبائل کال سے ملی ۔ محترمہ کے زخمی ہونے کی اطلاع پاتے ہی اُنھوں نے ہسپتال کا رخ کیا تھا ۔چند گھنٹے قبل خود ان کے استقبال کے لئے آنے والی ریلی پر فائرنگ میں چار مسلم لیگی کارکن جاںبحق ہو گئے تھے ۔ خیر اندیشوں نے انہیں سکیورٹی خطرات کے حوالے سے روکنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے سنی ان سنی کر دی ۔ وہ راستے میں تھے جب نیوز اینکر کی کال آئی ، میاں صاحب !اگر ہم آپ کو یہ بتائیں کہ محترمہ اس دنیا میں نہیں رہیں ؟ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟میاں صاحب کی آواز حلق میں گھٹ کر رہ گئی تھی ۔ تب لاکھو ں، کروڑوں دل بجھ گئے ۔ سیاسی مخالفین کے دلوں میں بھی یہ خبر تیر کی طرح پیوست ہو گئی تھی ۔ مجھے یاد ہے ، میری اہلیہ (مرحومہ) کو بینظیر سے کبھی ہمدردی نہیں رہی تھی ‘ مجھے جدہ میں لاہور سے کال آئی ‘ اس کے لئے بات کرنا مشکل ہو رہا تھا۔اس روز لاہور میں ہمارا گھر بھی ان ہزاروں گھروں میں ایک تھا جہاں رات کا کھانا نہیںپکا تھا ۔جدہ میںبھی سبھی پاکستانیوںکی یہی کیفیت تھی۔ دوسرے شہروں سے بھی ٹیلیفون کالز آرہی تھیں ‘یہ سب کا مشترکہ دکھ تھا ۔اُدھر راولپنڈی کے جنرل ہسپتال میں کارکنوں کا ہجوم تھا ۔ وہ رو رہے تھے ۔ نواز شریف کو اپنے درمیان پا کر وہ چیخنے لگے ، میاں صاحب !آپ اپنی حفاظت کریں اور وہ انہیں گلے لگا کر دلاسہ دے رہے تھے ، ان کا غم بانٹ رہے تھے ۔ 
فوجداری کی اس سنگین واردات میں پوسٹمارٹم لازم تھا لیکن ڈاکٹر تذبذب کا شکار تھے ۔وہ اس کے لئے مقتولہ کے ورثا کی رضامندی چاہتے تھے ۔ زرداری صاحب بچوں کے ساتھ دبئی سے روانہ ہو گئے تھے ۔ ڈاکٹروں کے بقول جنابِ زرداری نے انھیں پوسٹمارٹم سے روک دیا تھا۔ اس حوالے سے اخبار نویسوں کے استفسار پر ان کا استدلال تھا کہ پوسٹمارٹم کی صورت میں انہیں اپنی اہلیہ ، اپنے بچوں کی ماں اور قوم کی بیٹی کو توہین گوارا نہ تھی۔ اُدھر صرف اڑھائی ، تین گھنٹے کے اندر جائے وقوعہ کو دھونے کے علاوہ پورے علاقے میں سپرے بھی کر دیا گیا کہ لیزر گن سے کیے جانے والے حملے کے شواہد باقی نہ رہیں ۔ یہ خبر بھی آئی تھی کہ جس جگہ محترمہ کو نشانہ بنایا گیا وہاں سے 35فٹ کے فاصلے پر ایک لاش پائی گئی تھی ۔ مری روڈ سے جس خاتون کی لاش اُٹھائی گئی، وہ کون تھی ؟اس کے ورثاکو ن تھے ؟ کہاں تھے ؟ ۔
اس سانحہ کی تحقیقات کے لئے سکاٹ لینڈ یارڈ کی آمد پر''ٹائم‘‘نے بھی یہی سوال اُٹھایا ، اس عالم میں کہ وقوعہ کے چند گھنٹے بعد ہی جائے واردات کو دھو دیا گیا ۔اور اٹاپسی کے بغیر تدفین کو بھی ایک ہفتہ ہو چکا ، سکاٹ لینڈ یارڈ حقائق کی تہہ میں کس حد تک جا سکے گی اور اس کی کارکردگی باریک سی پرت کھولنے سے زیادہ کیا ہو گی؟ 
ڈکٹیٹر ، بیت اللہ محسود پر اس سانحہ کی ذمہ داری ڈالنے کے علاوہ خود محترمہ کو بھی اس کا ذمہ دار قرار دے رہا تھا ۔ جذبات سے عاری لہجے میں اُس کا کہنا تھا ، اسے باربار بتایا گیا تھا کہ وہ خطرے کی زد میں ہے ، اس کے باوجود وہ جلسے میں گئی ۔ پھر گاڑی سے باہر نکل کر کھڑے ہونے کا فیصلہ بھی اس کا اپنا تھا ۔ 
27 دسمبر کا یہ سانحہ خود امریکیوں کے لئے بھی گہرے صدمے کے علاوہ ایک بڑا نقصان بھی تھا کہ اُنھوں نے بڑی جدوجہد کے بعد مشرف ، محترمہ ڈیل کے ذریعے پاکستان میں مستقبل کی جو ''ڈریم ٹیم‘‘تیار کی وہ ختم ہو گئی تھی ۔ نواز شریف کو اس سارے کھیل سے باہر رکھا گیا تھا ۔ 10ستمبر 2007کو لندن سے اسلام آباد آمد پران کی دوبارہ جلاوطنی کے منصوبے میں امریکی بھی شامل تھے ، کنڈولیزارائس اس کی نگرانی کر رہی تھیں ۔ یہ الگ بات کہ محترمہ کی وطن آمد کے بعد نواز شریف کی واپسی کو روکنا ممکن نہ رہا تھا۔ مشرف اس کے لئے آخری دن تک کوشاں رہا ۔ وہ خود ریاض پہنچا لیکن شاہ کو راضی نہ کر سکا ۔محترمہ کے قتل کے بعد اب ملک میں واحد مقبول ترین لیڈر وہی تھے لیکن وہ امریکیوں کو اس حد تک ''آفر‘‘نہ کر سکتے تھے جس حد تک محترمہ کر چکی تھیں اور سب سے بڑا مسئلہ یہ کہ ان کے ہاں مشرف کے ساتھ مل کر کام کرنے کا تصور تک نہ تھا ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved