2017ء جنوری کی پہلی تاریخ۔ نئے سال کی پہلی صبح۔ سجری‘ سنہری، نئی نویلی! آج کا دِن امکانات سے بھرا ہے۔ آج میں اُمید اور خواب پر عمل اور مستقل مزاجی پر لکھنا چاہتی ہوں، مگر میرا قلم بار بار رُکتا ہے اور میری سوچ کی سکرین پر دس گیارہ سال کی ایک بچی نمودار ہوتی ہے۔ اپنے جلے ہوئے ہاتھ مجھے دکھاتی ہے۔ اُس کا چہرہ تشدد زدہ ہے۔ آنکھ سوجی ہوئی، میلے کپڑے اور جلے ہوئے۔ اُس کی روتی ہوئی آنکھوں میں سوال ہیں کہ اُس کے ساتھ ظلم کیوں ہوا؟ اور اب اس ظلم کا حساب کون لے گا؟
آپ نے بھی یہ خبر ضرور پڑھی ہو گی۔ طیبہ پر اسلام آباد کے معزز تعلیم یافتہ گھرانے میں بدترین تشدد ہوا۔ یہ بچی گھریلو ملازمہ کی حیثیت سے ملک کے معزز شہری ایک ایڈیشنل سیشن جج کے گھر میں گزشتہ دو برس سے رہ رہی تھی۔ یعنی وہ ابھی صرف آٹھ برس کی ہو گی جب بابل نے اپنا بوجھ اتارنے کے لیے اپنی پیاری بیٹی کو اس کھاتے پیتے گھرانے کی خدمت کے لیے بھیج دیا اور پھر پلٹ کر خبر نہ لی۔ طیبہ اپنے جلے ہوئے ہاتھ دکھاتے ہوئے بتاتی ہے کہ دو سال پہلے اس کے والدین اس گھر میں اُسے چھوڑ گئے تھے، اس کے بعد وہ ایک بار بھی اس کی خبر لینے نہیں آئے کہ ان کی دھی رانی کس حال میں ہے۔ اس کھاتے پیتے اور نام نہاد معزز گھرانے میں جو سلوک ایک بے بس ملازمہ کے ساتھ ہوا اس کا تصور کر کے ہر صاحب دل کی روح کانپ اٹھتی ہے۔کھیل کھلونوں اور سکول جانے کی عمر میں وہ اس گھرانے کی خدمت پر
مامور ہوئی اور کام کرتے ہوئے کسی غفلت پر اس کی ظالم مالکن نے اس کے ہاتھوں کو چلتے ہوئے چولہے پر رکھ دیا۔ یہ وہ بیان ہے جو تشدد زدہ طیبہ نے پولیس کو لکھوایا جبکہ جج اور اس کی بیوی کا موقف بالکل مختلف ہے۔ وہ اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کر کے اس بچی کی آوازخاموش کرانا چاہتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اس معاشرے میں سماجی اثر و رسوخ والا بندہ اپنی مرضی کے مطابق قانون کا رخ موڑنے پر قادر ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اگلے روز کے اخبارات میں متاثرہ بچی کے بیان کے بالکل برعکس خبریں شائع ہوئیںکہ بچی کام کرتے ہوئے حادثے کا شکار ہوئی۔ سیڑھیوں سے گری تو اس کے سر اور آنکھ پر چوٹ آئی۔ مگر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی مداخلت سے یہ کیس ایک بار پھر کھل چکا ہے اور اُمید ہے کہ اس میں متاثرہ بچی کو ضرور انصاف ملے گا۔
پھر سے سال کے پہلے دن کی طرف آتے ہیں۔ ہندسے بدلنے سے زندگی میں کوئی بدلائو تو نہیں آتا مگر ایک احساس ضرور پیدا ہوتا ہے، ایک سال کے گزرنے اور نئے سال کے آنے کا۔ یوں گزشتہ اور آئندہ کے اس سنگم پر کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ سود و زیاں کے اس حساب کتاب میں سب کو اپنا اپنا احتساب کرنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ کچھ لوگ نئے سال کے آغاز پر اس سال کے لئے اپنے ارادے (New year resolution) رقم کرتے ہیں۔ یعنی مستقبل کے حوالے سے جو بھی منصوبہ بندی اور ارادے ہیں، انہیں باقاعدہ تحریر کرلیتے ہیں۔ اس طرح پورے سال کے لیے ایک روڈ میپ تیار ہو جاتا ہے۔ ارادے اور خواب تو ہم سب کے بڑے اونچے، انقلابی اور تخلیقی ہوتے ہیں مگر اِن کا اصل ڈراپ سین تب ہوتا ہے جب ہم انہیں لکھ کر بھول جاتے اور اگلا قدم اٹھا نہیں پاتے۔ گویا اپنے ارادوں کو عمل میں نہیں ڈھالتے۔ آئیے، اس برس آپ بھی میرے ساتھ یہ ارادہ کریں کہ جو کچھ بھی سوچا ہے اُسے عمل میں ضرور ڈھالیں گے۔ صرف اپنے سیاستدانوں کی طرح تقریریں، وعدے اور دعوے ہی نہیں کریں گے بلکہ عمل کا بھاری پتھر بھی اٹھانے کی کوشش کریں گے۔
یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ آخر ہم اپنے نیک ارادوں کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام کیوں ہو جاتے ہیں؟ نئے سال کے ارادوں کی فہرست میں لگ بھگ نوّے فیصد افراد یہ ضرور لکھتے ہیں کہ اس برس وہ اپنا وزن ضرور کم کریں گے۔ وہ جوش و جذبے سے اپنے لیے مشکل ٹارگٹ سیٹ کر لیتے ہیں، جیسے ایک پائونڈ وزن ہر ہفتے کم کرنے کا عزم ۔ ظاہر ہے یہ بالکل غیر حقیقی ٹارگٹ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہر ہفتے ایک پائونڈ وزن کم کرنا ہے تو صرف تین ماہ میں 12پائونڈ وزن کم کرنا ہوگا جو تقریباً نا ممکن ہے۔ میں نے مصنف بننے کے شوقین ایسے افراد بھی دیکھے ہیں جو اپنی فہرست میں لکھتے ہیں کہ اس برس دو کتابیں شائع کروائیں گے اور یہ بھول جاتے ہیں کتابیں شائع کروانے سے پہلے خیالات کو ضبط تحریر میں لانا ضروری ہے۔ در اصل مصنف بننے کے شوقین افراد نے خیالوں میں تو افسانوں کے انبار لگا رکھے ہوتے ہیں مگر حقیقی دنیا میں کبھی کاغذ قلم پکڑ کر نہیں دیکھا ہوتا۔ اس لئے جو بھی ارادہ کریں اُسے حقیقت سے قریب رکھیں۔ ایک صاحب نے پچھلے برس یہ ارادہ کیا کہ اب وہ صبح پانچ بجے اٹھنے کی کوشش کریں گے جبکہ گزشتہ بیس برس سے ان کا باڈی کلاک گیارہ بجے اٹھنے پر سیٹ ہو چکا ہے، سو اس غیر حقیقی ٹارگٹ کو چند دِنوں میں حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ حقیقت پسندانہ طرزِ عمل یہ ہے کہ پہلے چند ہفتے وہ گیارہ کی بجائے ساڑھے دس بجے اٹھنے کی کوشش کریں، پھر رفتہ رفتہ آدھ گھنٹہ نیند گھٹاتے جائیں، اس طرح چند مہینوں کی محنت سے وہ صبح پانچ بجے اٹھنے کے قابل ہو سکیں گے۔ رات کو جلد سونے کے لیے آپ کو اپنے موبائل فون، انٹرنیٹ، فیس بک، وٹس ایپ وغیرہ مکمل طور پر بند کرنا ہوگا۔ اس لئے کہ ہم سوشل میڈیا اور سمارٹ فون کے بہت زیادہ عادی ہو چکے ہیں، اس عادت کو بتدریج ہی کم کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح وزن کم کرنے کے خواہش مند افراد اپنے لیے چھوٹے چھوٹے، سادہ اور آسان ہدف مقرر کریں۔ سب سے پہلے تو ان خطرناک غذائوں کی فہرست تیار کریں جو نہ صرف وزن بڑھانے کا موجب بلکہ صحت کے لیے بھی انتہائی خطرناک ہیں۔ کولڈ ڈرنکس‘ فروزن فوڈز اِن میں سرِ فہرست ہیں۔ غذائی عادات کو ایک دِن میں بدلنا ممکن نہیں ہوتا؛ سو، پھر وہی بات کہ اپنے لیے حقیقت پسندانہ ‘ سادہ اور آسان ہدف مقرر کریں اور پھر پوری مستقل مزاجی سے اِن اہداف کو حاصل کرنے کے لیے کمربستہ ہو جائیں۔
اور اب آخری بات۔۔۔ آج سال کے پہلے دِن ہم جو تازگی اور نیا پن محسوس کر رہے ہیں اور اپنی زندگی میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے پُرجوش ہیں، اس احساس اور جذبے کی حفاظت کریں اور سال کے ہر دِن کو اسی خوب صورتی اور نئے پن سے گزارنے کی کوشش کریں۔ دٍعا‘ اُمید اور عمل کی خوبصورت تکون کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ نیا سال آپ سب کو بہت بہت مبارک ہو!