تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     02-01-2017

انصاف کے تعاقب میں.... (3)

بحیرہ عرب عبور کرنے کے باوجود بھی میرے اندر کا وکیل سو نہیں سکا۔ لیکن اس ہمہ وقت بیدار وکیل کا بہت شکریہ جس کی وجہ سے مجھے جدید عرب تاریخ کے سب سے بڑے اور مقبول لیڈرکی بھتیجی حباء مجدی سلطان سے تفصیلی ملاقات کروا دی۔ ایک دوست کے مقدمے میں دبئی کی عدالتِ اپیل کی فائل پڑھنے کے لیے معزز دوست کے ساتھ شیخ زید روڈ پر پہنچے۔ شیخ زید روڈ کے کنارے عالی شان نسیمہ ٹاور کا تیسرا فلور ہماری منزل تھی۔ ہمارے ہاں20 سالہ جنگ کے باوجود کسی بھی عمارت میں بغیر شناخت اور تلاشی کے مٹر گشت کرنے والوں کی کمی نہیں، لیکن نسیمہ ٹاور میں داخل ہوتے ہی میرے دوست کو اپنا شناختی کارڈ سکین کرا کے کمپیوٹر ائزڈ انٹری کارڈ لینا پڑا، جس کے ذریعے ہمار داخلہ بذریعہ لفٹ تیسرے فلور تک محدود تھا۔ لفٹ میں داخل ہوتے ہی انٹری کارڈ سکینر پر رکھا گیا، جس کے ذریعے ہماری شناخت اور سکیورٹی کلیئرنس ہوئی۔ برق رفتار لفٹ نے ہمیں منظر الحمادی وکیل کی لاء فرم میں پہنچا دیا، جہاں تعارف کے بعد ایک مصری لیڈی وکیل نے مجھ سے عربی زبان میں پوچھا: کیا آپ جمال عبدالناصر کو جانتے ہیں؟ میں نے جواب دیا عرب کے سب سے بڑے عوامی راہنما جمال عبدالناصر کو کون نہیں جانتا۔ میں نے ان کے بارے میں سلطان فاروق اور جنرل نجیب سمیت کافی کچھ پڑھ رکھا ہے۔ یہ سن کر لیڈی وکیل صاحبہ کا چہرہ خوشی سے کِھل اُٹھا، مجھ سے کہنے لگیں میں جمال عبدالناصر صاحب کی بھتیجی حباء مجدی سلطان ہوں۔ خاتون نے بڑے سلیقے سے مقدمے کی فائل میرے سامنے کھول کر رکھی اور کہنے لگی کہ میں فائل کا انگریزی ترجمہ آپ کو سناتی ہوں۔ میں نے حباء مجدی سلطان صاحبہ کو سرپرائز دینے کے لیے مصری لہجے کی عربی میں اپیل کا میمورنڈم اونچی آواز میں پڑھنا شروع کر دیا۔ ان کے ساتھی وکیل بھی جمع ہوگئے اور ہمارے لیے ترکش سلمانی چائے منگوالی۔ مجھے یو ں لگا جیسے میرا ٹورکھرا ہوگیا ہے۔ دبئی میں کورٹس کمپلیکس کو محاکمہ کہتے ہیں۔ یہ کمپلیکس الخور کے علاقے میں واقع ہے۔ آپ اسے ماڈرن کچہری بھی کہہ سکتے ہیں، لیکن یہاں وکیل پھٹوں پر بیٹھے نظر نہیں آتے اور نہ ہی کمپلیکس کے ساتھ کوئی وکلا کے چیمبرز ہیں۔ وکیل عدالتی کام کرنے کے لیے صبح آٹھ بجے آتے ہیں، 2 بجے جوڈیشل کام میں ہاف ٹائم ہوتا ہے جبکہ تین سے چھ بجے شام تک جج دوبارہ بیٹھتے ہیں۔ پہلے ہاف کے بقیہ کام اور فیصلے سنانے کے لیے یہی وقت مخصوص ہے۔
آج کل گلف کے ممالک میں سرکاری ٹیلی ویژن سکرین پر فوج چھائی ہوئی ہے۔ دوڑ کر جہازوں پر چڑھتے ہوئے، ٹینک اور توپیں چلاتے ہوئے فوجی جوان اور ان جوانوں کو سلیوٹ کرتے ہوئے شہزادے دکھائی دیتے ہیں۔ پس منظر میں نشید الوطنی یعنی ملی نغمے سنائی دیتے ہیں۔ دبئی سے ڈیڑھ گھنٹے کے فاصلے پر سلطان قابوس کی سلطنتِ عُمان کا بارڈرہے۔ اس بارڈر سے عمان کے دارالحکومت مسقط کا فاصلہ اسلام آباد سے لاہور جتنا ہے، تقریباًچار گھنٹے کی ڈرائیو۔ دبئی سے ایک گھنٹہ 25 منٹ کی فلائٹ پر عمان کا تاریخی شہر سلالہ ہے۔ یہ علاقہ یمن کے بارڈر کے ساتھ لگتا ہے جہاں آج کل تباہ کن جنگ جاری ہے۔ اس جنگ کامظلوم فریق یمن کے معصوم بچے ہیں جنہیں نہ یہ پتا ہے کہ انہیں کیوں ماراجارہا ہے اور نہ ہی انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اعضاء کاٹ کر ان کو معذور کرنے والا کون ہے۔ عُمان پاکستان کا سب سے شاندار پڑوسی ملک ہے جس کی لازوال اورکمال مہربانی سے آج ہم گہرے پانیوںکی اپنی پہلی بندرگاہ گوادر کے مالک بن پائے۔گوادرکی انتہائی قیمتی اور وسیع زمین، پہاڑ اور سمندر، سلطنت ِعُمان نے پاکستان کوتحفے میں دیے تھے۔ دوسری جانب یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہمارے ایک آٹو کریٹ صدر کے دور میں ایران کو صوبہ بلوچستان کی وسیع وعریض پٹی (تقریباً 250 کلومیٹر) ہدیہ کی گئی جیسے طورخم بارڈر پر بابِ پاکستان گیٹ نصب کرنے کے لیے بطور احسان افغانستان کوایک چوکی عطیہ کردی ہے۔ میں ذاتی طور پر اپنے زیر بار احسان پڑوسیوں کی ادائوں پر کوئی تبصرہ کرنے کی بجائے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کا قول سنا دینا کافی سمجھتا ہوں: ''جس پر احسان کرو اس کے شر سے ڈرو‘‘۔ برسبیلِ تذکرہ یہ جاننا ضروری ہے کہ آج کل دنیا کے معروف کھلاڑی اورسیلبریٹیز یمن کے کچلے، مسلے اور جلے ہوئے بچوں کی تصویریں دیکھ کر سوشل میڈیا پر سخت ردِعمل دے رہے ہیں۔ بعض تو ایسے بھی ہیں جنہوں نے سالِ نَو کا پیغام کچھ یوں دیا: '' آئو ہم سب مل کر دنیا کے بے گناہ بچوں کو اسلحے کے بے رحم سوداگروں سے بچا لیں‘‘۔ 
بے رحمی سے یاد آیا کہ مجھے ابھی آپ کو دبئی کی فاختہ والی کہانی بھی سنانی ہے۔ یہ فاختہ اکیلی نہیں۔ فائیو سٹار سوئمنگ پول میں اکیلی نہیں آتی بلکہ اس کے ساتھ پورا ''ڈار‘‘ ہوتا ہے۔ معاف کیجیے گا یہ سمدھی والا ڈار نہیں جس کے دبئی والے ٹاور بہت مشہور ہیں۔کل اتفاقاً ایسے ہی ایک ٹاورکے پاس سے گزر ہوا، جہاں کچھ پاکستانی کھڑے ہوکر دل پشوری کرنے میں مصروف تھے۔ ایک کہنے لگا، میں نے زندگی میں ابا جی کے قرض حسنہ سے ایسا جادو والا ٹاور برآمد ہوتے نہیں دیکھا۔ دوسرے نے بے رخی سے قہقہ لگایا اور بولا میں نے اپنی قوم کا ایک ایسا خادم بھی دیکھا ہے جو 14/15سال کی عمر میں دنیا کے مہنگے ترین افرنگی اپارٹمنٹس کا مالک بن گیا۔ تیسرا تارک وطن بولا، یار یہ جادو نگری کی ترقی اور اللہ کے فضل وکرم کے سارے فارمولے اس ایک ٹولے پر ہی کیوں نازل ہو ر ہے ہیں؟ سننے والے حیران ہو کر بولے، کون سا ٹولا؟ جواب آیا، 40 علی بابا والا ٹولا۔ ایک حیران شخص نے کہا علی بابا ایک ہوتا ہے جبکہ چور 40 عدد۔ جواب ملا علی بابا 40 ہیں اور چوروں کی تعداد 400 تک پہنچ چکی ہے۔ 
آج کا وکالت نامہ سال 2016 عیسوی کی آخری رات لکھا جا رہا ہے۔ اب یہ بے چارہ انصاف کے تعاقب میں سال 2017ء تک بھاگے گا۔ آپ اسے نئے سال کے دوسرے دن پڑھ سکیں گے۔گزشتہ سال کی آخری شام میں نے دوعرب ریاستوں کی سرحد پر واک کرکے منائی۔ دبئی اور شارجہ کی سرحد ممذر بِیچ سے جڑتی ہے، جس کا پارک والا کنارا دبئی میں واقع ہے جبکہ ساحل سمندر پر شارجہ کی جانب آسمان سے باتیں کرتے ٹاور کھڑے ہیں۔ واک اور جوگنگ کے لیے اوّلین حلقہ یا رائونڈ ساحل کی ریت ہے۔ ساحل کی ریت کے تذکرے سے کالج کے زمانے کا جونیئر سید شکیل اختر یاد آیا، جو تب صرف رومانوی شاعر تھا، لیکن اب اللہ خیر کرے وہ علامہ ہوتا جارہا ہے۔ اس کی یاد آوری کی وجہ یہ شعر بنا ؎
اک نام تیرا کیا لکھا ساحل کی ریت پر
پھر عمر بھر ہوا سے میری دشمنی رہی 
یہاں بڑے سلیقہ سے بار بی کیو سپاٹ تعمیر کیے گئے ہیں، جہاں فیملیز گھریلو بار بی کیو کے مزے اڑاتی نظر آتی ہیں۔ چونکہ سچ جاننا آپ کا حق ہے اس لیے جو دیکھا وہ پورا بیان کروںگا وہ یہ کہ اب اسی ساحل کے کنارے دبئی کی حدود میں'' Key Club‘‘ بھی کھلا نظر آتا ہے۔ جوگنگ ٹریک کا دوسرا رائونڈ نازک اندام لوگوں کے لیے لال رنگ کے آسٹرو ٹرف سے بچھایا گیا ہے جبکہ سخت زمین پر دوڑنے کی عادی، سخت جان خواتین وحضرات کے لیے سخت ٹائل کا ٹریک بھی موجود ہے۔ نیا سال امن کی فاختہ کے لیے کیسا ہوگا؟ نئے سال میں شکرے کا مینیو اور ایجنڈا کیا ہوگا؟ اس پہ ضرور بات کر یںگے۔ نیا سال کیا لا رہا ہے اور گزراسال کیا دے گیا؟ اسے ابھی رہنے دیتے ہیں۔ نجومی نے کیا کہا؟ یہ بھی چھوڑدیں، لیکن عام آدمی کی توقعات نظر انداز نہیں ہو سکتیں
نظام زر سے توقع کیسی ۔۔۔۔؟ 
نتیجہ پھر وہی ہو گا
سنا ہے سال بدلے گا
پرندے پھر وہی ہونگے
شکاری جال بدلے گا
بدلنا ہے تو دل بدلو
بدلتے کیوں ہو ہند سے کو
مہینے پھر وہی ہونگے
سناہے سال بدلے گا
وہی حاکم وہی غربت
وہی قاتل وہی غاصب
بتائو کتنے سالوں میں
ہمارا حال بدلے گا
(جاری) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved