تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     02-01-2017

سُرخیاں‘ متن‘ ٹوٹا اور خانہ پُری

حکومتی کوششوں کے نتائج برآمد ہو رہے ہیں : نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''حکومتی کوششوں کے نتائج برآمد ہو رہے ہیں‘‘ اگرچہ سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق مالیاتی خسارے اور مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے‘ لیکن ہم نقصان کو بھی نفع اور فائدہ سمجھتے ہیں کیونکہ ہم قنوطیت پسند نہیں بلکہ رجائیت پسند واقع ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ملک کا مقدر بدل جائے گا‘‘ جو کہ ماشاء اللہ پہلے ہی کافی بدل چکا ہے کیونکہ گیس کے مہنگا ہونے کی وجہ سے بسوں اور ویگنوں کے کرایوں سمیت ہر چیز کی قیمت بڑھ جائے گی بلکہ پٹرول‘ ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہونے جا رہا ہے جس سے عوام کی طبیعت مزید درست ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان میں مثالی ترقی ہو گی‘‘ جس کی ایک درخشاں مثال اوپر بھی پیش کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ملکی ترقی کے لیے ہم ان تھک اور بے لوث کوششیں کر رہے ہیں‘‘ کیونکہ ہم تھکتے صرف کھانا کھانے کے دوران ہیں‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک رکن قومی اسمبلی سے گفتگو کر رہے تھے۔
پارلیمنٹ جانے کا شوق نہیں‘ عوام 
کی آواز بننے جا رہا ہوں : زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''مجھے پارلیمنٹ جانے کا شوق نہیں‘ عوام کی آواز بننے جا رہا ہوں‘‘ کیونکہ عوام بیچارے تھتھّے ہیں اور صحیح طور پر بات نہیں کر سکتے اور انہیں سخت ضرورت ہے کہ کوئی ان کی آواز بنے اور میرا گلا چونکہ میرے ماضی کی طرح بالکل صاف ہے اس لیے مجھے ہی عوام کی آواز بننا چاہیے‘ اگرچہ اس میں ہمارے کئی دیگر ساتھی بھی پوری طرح کوالیفائی کرتے ہیں جن میں سابق وزرائے اعظم اور رحمن ملک وغیرہ بطور خاص شامل ہیں جبکہ گیلانی صاحب کی ڈاکٹری کی ڈگری اس پر مستزاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عوام کے ساتھ ناانصافیوں پر خاموش نہیں رہ سکتا‘‘ جن میں ڈاکٹر عاصم حسین‘ ایان علی اور انور مجید بطور خاص شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''میں نے وہ کام کیے جو بھٹو کی سوچ اور فلسفہ تھا‘‘ جو کہ سرے محل سے لے کر کوٹیکنا اور آگوسٹا آبدوزوں تک پھیلی ہوئے ہیں۔ آپ اگلے روز نواب شاہ میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
عوام تبدیلی خاں اور اس کے حواریوں 
کو پہچان چکے ہیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''عوام تبدیلی خاں اور اس کے حواریوں کو پہچان چکے ہیں‘‘ لیکن خدا کا شکر ہے کہ انہوں نے ابھی مجھے پوری طرح نہیں پہچانا؛ حالانکہ میرے ظاہر و خفیہ سارے کارنامے ان کی نظروں میں ہیں‘ لیکن الحمد للہ کہ ان کی عقل پر پردہ پڑا ہوا ہے جو انشاء اللہ تا قیامت باقی رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''بعض نادیدہ قوتیں انتخابی نتائج کو تبدیل کر دیتی ہیں‘‘ جیسا کہ خاکسار ہر بار ہار رہا ہوتا ہے لیکن یہ قوتیں ہر بار نتائج تبدیل کر کے مجھے کامیاب کرا دیتی ہیں جس کے لیے میں ان کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم ان نادیدہ قوتوں کو بخوبی جانتے ہیں‘‘ لیکن خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہ ابھی خاکسار کو نہیں جانتے ورنہ بڑے مسائل پیدا ہو سکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان پینترے بدلنے کے ماہر ہیں‘‘ لیکن ہمارا ایک ہی پینترا ہے جو ہر حکومت کی طرف رہتا ہے‘ چاہے وہ سول ہو یا ملٹری۔ آپ اگلے روز نوشہرہ میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ 
عمران نے کہا جوڈیشل مارشل لاء لگا 
کر پارٹی کو جتوائیں گے : جاوید ہاشمی
سینئر سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ''عمران نے کہا تھا کہ جوڈیشل مارشل لاء لگوا کر پارٹی کو جتوائیں گے‘‘ اور یہ عمران خان کے خلاف میرا ایک سو بہترواں بیان ہے اور اُمید ہے کہ یہ بھی وزیر اعظم کی نظر سے گزرا ہو گا لیکن عجیب بات ہے کہ اُن کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی اور وہ میرے بارے میں کوئی فیصلہ ہی نہیں کر پا رہے جبکہ سینئر سیاستدان کہلا کہلا کر اب تو میں تنگ آ گیا ہوں‘ اتنی دیر میں تو رُوڑی کی بھی سُنی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان نے یہ باتیں میرے ساتھ اکیلے بیٹھ کر کی تھیں‘‘ اور اخلاق کا تقاضا تو یہی تھا کہ میں انہیں اپنے تک ہی رکھتا‘ لیکن وزیراعظم کے سامنے نمبر ٹانگنے کی اور کوئی صورت ہی نظر نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ ''میں اگر جھوٹ بول رہا ہوں تو وہ مجھے غلط ثابت کریں‘‘ اگرچہ اب تو پارلیمنٹ بلکہ عدالت کے سامنے جھوٹ بولنے کا رواج عام ہو گیا ہے اس لیے گزارش ہے کہ اسے میرا بھی سیاسی بیان ہی سمجھا جائے۔ آپ اگلے روز ایک انٹرویو میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
نیک کام
منقول ہے کہ کچھ لوگ وزیراعظم کے پاس گئے اور کہا کہ ہم ایک نیک کام کے لیے چندہ اکٹھا کر رہے ہیں، براہِ کرم آپ بھی اس میں حصہ ڈالیے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ مُلک سے مہنگائی اور بیروزگاری ختم کرنا نیک کام نہیں؟ انہوں نے کہا کہ یقیناً ہے۔ آپ پھر بولے‘ کیا عوام کو صحت اور تعلیم کی سہولیات مہیا کرنا نیک کام نہیں؟ انہوں نے کہا کہ واقعی یہ ایک بڑا نیک کام ہے۔ آپ نے پھر کہا کہ خطِ غربت کے بھی نیچے کیڑے مکوڑوں کی طرح زندگی بسر کرنے والوں کے حالات بہتر کرنا نیک کام نہیں؟ انہوں نے پھر کہا کہ ماشاء اللہ‘ اس سے زیادہ نیک کام اور کیا ہو سکتا ہے‘ جس پر وزیراعظم نے کہا کہ میں اگر اِن سے ایک بھی کام نہیں کرتا تو تمہیں چندہ کس لیے دوں؟
اور اب خانہ پُری کے لیے یہ تازہ غزل :
ماہ وشوں کی بھیڑ تھی‘ وہاں جا کر میں نے
جانے کس کو چُوم لیا گھبرا کر میں نے
پہلے تو کچھ جھجکا اور کچھ غور کیا‘ پھر
بے شرمی کر ہی ڈالی‘ شرما کر‘ میں نے
اپنا اپنا طور طریقہ ہے یہ‘ سب کو
گُڑ کھانے سے منع کیا گُڑ کھا کر میں نے
جمع کیا جوں توں کر کے سامانِ محبّت
پھینک دیا آخر یہ بوجھ اُٹھا کر میں نے
خود سے جھوٹ ہی بولتا آیا ہوں میں اب تک
یاد کیا ہے اور بھی اُسے بھُلا کر میں نے 
ٹکڑوں کا اک ڈھیر پڑا ہے سامنے میرے
توڑ دیا ہے کتنی بار بنا کر میں نے
سُوجھتا ہے اِس گھور اندھیرے میں کیا مجھ کو
دیکھنا ہے اپنا بھی دیا بُجھا کر میں نے
وہی پُرانا پن ہی چھایا ہوا ہے اِس پر 
لکھا ہے پہلے والے کو مٹا کر میں نے 
بات‘ ظفرؔ ، جو خود کو بھی معلوم نہیں تھی
سب کو خوش کر دیا ہے وہی بتا کر میں نے
آج کا مقطع
کسی کے دل میں ہیں کمرے بھی ‘ کھڑکیاں بھی ظفر
میں اُس میں رہ نہیں سکتا‘ مگر مکاں کوئی ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved