تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     03-01-2017

امیر ترین ریاست کے سرمایہ دار حکمران

نو منتخب امریکی صدر‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے ریکس ٹیلرسن کو اپنا وزیر خارجہ نامزدکیا ہے۔یہ خود بھی اپنے صدر کی طرح ایک بہت بڑی کمپنی ‘ ExxonMobil کے سربراہ ہیں۔جو کہ امریکہ اور روس کی مشترکہ آئل کمپنی ہے۔ ریکس نے بطور امریکی وزیرخارجہ‘ تنخواہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی ‘ سرکاری خزانے سے تنخواہ لینے سے انکار کر چکے ہیں۔ایک ہم ہیں کہ ہمارا پورے کا پورا حکمران خاندان‘ دونوں ہاتھوں سے دولت کے انبار جمع کرنے میں لگا ہوا ہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں میں مقدمے چل رہے ہیں۔کابینہ کے وزیربھی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ دونوں ہاتھوںسے دولت جمع کرنے میں مصروف ہیں۔کوئی منتخب ایوان میں جواب دہی کے لئے تیار نہیں۔جبکہ پاکستان جیسے مقروض ملک کے حکمران اپنی ریاست کے غریبوں سے وصول کردہ ٹیکس ‘ اپنے خاندانی اخراجات پردیدہ دلیری سے خرچ کرتے ہیں۔جب دل چاہتا ہے بادشاہ سلامت اپنے اہل خاندان کے لئے ٹرپل سیون جہاز لے کر بیرونی دورے پر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔دوسری طرف دنیا کی امیر ترین ریاست کے دو انتہائی امیر منتخب عہدیدارریاستی خزانے سے اپنی خدمات کا کوئی معاوضہ وصول نہیں کریں گے۔ 
'' امریکہ کے نو منتخب صدر‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈیوڈ فرائڈ مین کوا سرائیل میں امریکہ کا نیا سفیر مقرر کر کے ‘اپنے اسلام مخالف ایجنڈے کی سمت اپنا پہلا قدم بڑھا دیا ہے۔ یہ تقرری کرتے وقت مسٹر ٹرمپ نے مشرق وسطی میں قیام میں امن کی کوششوں کو مزید تیز کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے لیکن بد قسمتی سے ان کے منتخب نمائندہ سے یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ اسرائیل اور مقبوضہ علاقوں میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گا اور امریکی قیادت کے لئے مشکلات مزید بڑھیں گی۔ اسرائیل میں امریکی حکومت کے آئندہ سفیر ‘فرائڈ مین ایک وکیل اور مسٹر ٹرمپ کے قریبی دوست ہیں۔ ان کے پاس سفارت کاری کا کوئی تجربہ نہیں۔ یہ مغربی کنارہ کو اسرائیل میں ضم کر دئیے جانے کے حامی ہیں۔ امور دیوالیہ کے معروف وکیل‘ فرائڈ مین جنہوں نے اٹلانٹک سٹی کیسینو کے معاملوں میں مسٹر ٹرمپ کی طرف سے عدالت میں نمائندگی کی تھی ‘اس حساس ترین عہدہ پر اپنی خدمات انجام دینے کے حوالے سے تقریباً تمام امریکی سفارت کاروں کے برخلاف‘ سفارت کاری کے تجربہ سے عاری ہیں۔ اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں تھا‘ اگر وہ انتہا پسندانہ نظریات کے حامل نہیں ہوتے جو امریکی پالیسی اور زیادہ تر امریکیوں کے نظریات سے مطابقت نہیں رکھتے۔
فرایڈ مین اسرائیل فلسطین مسئلہ کے دو ریاستی حل پر یقین نہیں رکھتے جس کے تحت اسرائیلی اور فلسطینی پر امن طریقے سے ایک دوسرے کے پڑوسی بن کر رہ سکتے ہیں۔ بین الاقوامی قوانین ا ور ریپبلکن اور ڈیموکریٹک دونوں ہی انتظامیہ کی پالیسیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے‘ وہ مغربی کنارہ کے مقبوضہ علاقوںمیں اسرائیلی نو آبادیوں کی مسلسل حمایت کرتے رہے ہیں۔ ان علاقوں پر اسرائیل نے1967ء کی جنگ کے دوران‘ اردن سے چھین کر قبضہ کیا تھا۔صرف یہی نہیں‘ فرائڈ مین ان فلسطینی زمینوں پر اسرائیل کے قبضہ کی حمایت کرتے ہیں جس پر فلسطینی عوام اپنی علیحدہ ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ فرائڈ مین کے انتہا پسندانہ رویہ کا پتہ اس بات سے بھی لگتا ہے کہ وہ تل ابیب کے بجائے امریکی سفارت خانہ‘ یروشلم(بیت المقدس) میں قائم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ حالانکہ گزشتہ68سال سے دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ ‘امریکی سفارت خانہ بھی تل ابیب میں ہی واقع ہے۔ اسرائیل اور فلسطین دونوں ہی کا یروشلم پر دعویٰ ہے۔ دونوں ہی اس تاریخی شہر کو اپنا دارالحکومت قرار دے رہے ہیں۔ جہاں مسلمانوں‘ عیسائیوں اور یہودیوں کے مقدس مقامات ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ مسٹر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی‘ امریکی سفارت خانہ کو یروشلم منتقل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ایسی بات نہیں کہ اس طرح کا وعدہ صرف مسٹر ٹرمپ ہی نے کیا تھا بلکہ اپنے اپنے پہلے دور اقتدار کے لئے انتخابی مہم کے دوران‘ بل کلنٹن اور جارج ڈبلیو بش نے بھی امریکی سفارت خانہ کو یروشلم منتقل کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن صدر منتخب ہوتے ہی‘ ان دونوں رہنمائوں نے اپنے اس خیال کو ترک کر دیا تھا کیونکہ انہیں احساس ہو گیا تھا کہ اس طرح کے سنسنی خیز علامتی رویے سے‘ عربوں کے غصے میں مزید اضافہ ہو گا اور خطے میں امن کی کوششوں کو سخت دھچکا لگے گا۔
حسب توقع عرب رہنمائوں نے امریکہ کے نئے صدر کے اس فیصلہ اور نامزد امریکی سفیر کے اعلان پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ فلسطین کے سابق چیف مذاکرات کار اور نمایاں ذمہ دار صائب عریقات نے صاف لفظوں میں خبردار کیا ہے کہ اگر مسٹر ٹرمپ نے امریکی سفارت خانہ کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کے وعدے پر عمل کیا تو خطے میں امن اپنی موت مر جائے گا اور یہ اقدام اسرائیل کے ساتھ امن کے کسی بھی امکان کو برباد کر دے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ بیت المقدس ایسا مسئلہ ہے جس کا تعلق حتمی صورت حال سے ہے اور اس پر اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات ہوں گے کیونکہ فلسطینی بھی اسے مستقبل میں اپنی خود مختار ریاست کا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔ مسجد اقصی کے امام و خطیب الشیخ عکرمہ صبری نے بھی ڈیوڈ فرائڈ مین کے تقرر اور امریکی سفارت کانہ کی یروشلم منتقلی کے اعلان پر شدید ردعمل کا اظہارتے کرتے ہوئے اسے کھلا اعلان جنگ قرار دیا ہے۔الشیخ عکرمہ صبری نے با ضابطہ یہ اعلان کیا ہے کہ اسے فلسطینیوں‘ عرب ممالک اور عالم اسلام کے خلاف اعلان جنگ تصور کیا جائے گا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس دیرینہ اور حساس ترین مسئلہ کے حوالے سے اگر مسٹر ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران کئے جانے والے وعدے پر عمل کرتے ہوئے سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں کئی دہائیوں سے جاری امریکی پالیسی ختم ہو جائے گی۔ عالم اسلام میں غم و غصے کے جذبات بھڑک جائیں گے اور بین الاقوامی سطح پر بھی اس کا شدید ردعمل آئے گا ۔ اس اقدام کی بھر پو رمذمت سامنے آئے گی۔ خدشہ اس بات کا بھی ہے کہ مقبوضہ اراضی پر قائم بستیوں کو اسرائیل میں شامل کرنے کی صورت میں بھیانک نتائج سامنے آئیں گے۔
حالانکہ مسٹر ٹرمپ اور ان کے نئے سفیر کے لئے یہ کام اتنا آسان نہیں ہوگا کہ عالمی رائے عامہ کو ایک جھٹکے میں نظر انداز کر دیں لیکن یہ اعلان اسرائیل فلسطین مسئلہ کے حوالے سے دیرینہ امریکی پالیسی میں تبدیلی کی جانب اشارہ ضرور ہے۔فرائڈ مین نے بھی کہا ہے کہ '' میں اس ذمہ داری کو مرحلہ وار سر انجام دوں گا تاہم اس حوالے سے ابھی ہرگز کوئی تبصرہ نہیں کروں گا‘‘۔بہر حال مسٹر ٹرمپ کا یہ اعلان قابل مذمت اور نا قابل قبول ہے۔ یہ اعلان عالمی معاہدوں‘ بین الاقوامی قوانین اور فلسطینیوں کے مسلمہ حقوق کی سنگین پامالی ہے۔ پوری دنیا یہ تسلیم کرتی ہے کہ بیت المقدس پر اسرائیل کو کوئی حق نہیں۔اس تاریخی شہر پر اسرائیل کا تسلط باطل ‘ناجائز اور غیر قانونی ہے۔ اگر مسٹر ٹرمپ اور فرائڈ مین کے اس اعلان پر عمل درآمد ہو گیا تو اس بات میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہ جائے گی کہ امریکہ‘ فلسطینیوں کے بنیادی اور موروثی حقوق کی سودے بازی کی سازش کا مرتکب ہو رہا ہے۔در حقیقت امریکی سفارت خانہ کی یروشلم منتقلی بیت المقدس کو یہودیوں کی راجدھانی تسلیم کرنے کے مترادف ہو گی اور اسے اس مقدس شہرپر فلسطین کا حق ساقط کرنے کی سازش قرار دی جائے گی۔ یہ بات ملحوظ نظر رہے کہ فلسطینی ریاست کے حوالے سے امریکی حمایت کے ساتھ ہونے والے آخری مذاکرات2014ء میں ناکام ہو گئے تھے۔بہر حال کسی بھی نو منتخب صدر کی طرح مسٹر ٹرمپ کو بھی اپنی پسند کے نمائندوں کو چننے کا مکمل اختیار ہے لیکن اسرائیل میں امریکی سفیر کے طو رپر فرائڈ مین کے انتخاب نے ظاہر کر دیا ہے کہ مشرق وسطی کے دھماکہ خیز حالات کے حوالے سے وہ انتہائی غیر سنجیدہ ہیں۔ فرائڈ مین کو منصب سنبھالنے سے پہلے امریکی سینیٹ کی جانب سے منظوری کی ضرورت ہو گی۔ اب اس بات کی ذمہ داری سینیٹ پر ہے کہ وہ امریکہ کے نئے صدر‘ مسٹر ٹرمپ اور ملک کو اس نا عاقبت اندیش قدم سے بچائے‘‘۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved