اگلی بار اگر آپ کا سامنا زاہدانہ وضع قطع کے کسی مولانا سے ہو اور وہ فصاحت و بلاغت کے دریا بہاتے ہوئے، رقت آمیز لہجے میں مسلمانوں پر روا رکھے جانے والے ظلم و ستم کا ذکر کرتے ہوئے، نوجوانوں کو جہاد کی ترغیب دے رہا ہو، تو جذبات میں بہنے کے بجائے مولانا صاحب کا پس منظر معلوم کرنے کی کوشش ضرور کریں۔ یہ شخص شکار کی تلاش میں کسی خفیہ ایجنسی کا اہلکار بھی ہوسکتا ہے۔ دنیا کی مختلف ایجنسیوں کی طرح بھارت میں بھی ان کے ہم منصب اصل دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بجائے، حکومت اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے ایوارڈ اور شاباشی بٹورنے کے لئے دہشت گرد پیدا کرنے کا دھنداکرتے ہیں۔ یہ کسی ناول کا پلاٹ نہیں، بلکہ بھارت کے مرکزی تفتشی بیورو یعنی سنٹر ل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) کی ایک رپورٹ ہے، جس کو حال ہی میں دہلی کی ایک عدالت نے تسلیم کرتے ہوئے دو مسلم نوجوانوں ارشاد علی اور نواب معارف قمر کو 11 سال بعد بری کر دیا ہے۔ یہ دونوں افراد بھارت کے خفیہ ادارے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور دہلی کی اسپیشل پولیس کے مخبر تھے، جو بعد میں ان کے عتاب کا شکار ہوکر جیل میں چلے گئے۔ ان کے ہوشربا انکشافات سی بی آئی اور کورٹ کے ریکارڈ پر موجود ہیں۔
بھارت کے دارالحکومت دہلی کے قلب میں پارلیمنٹ ہائوس اور پریس کلب آف انڈیا سے چند قدم کی دوری پر نیوز پیپر پبلشرز کا 6 منزلہ دفتر واقع ہے۔ اس بلڈنگ میں دہلی سے باہر شائع ہونے والے اکثر اخبارات کے بیورو ہیں۔ تقریباً ایک دہائی تک کشمیر ٹائمز کے دہلی بیورو سے وابستگی کی وجہ سے میرے شب و رز اسی بلڈنگ میں گزرتے تھے۔ اس بلڈنگ کے صدر دروازے پر چائے کا کھوکھا ہے جو سنجے کی دکان کے نام سے مشہور ہے اور یہ پریس کلب کے بعد صحافیوں کے لئے ایک اہم میٹنگ پوائنٹ ہے، جہاں شام کو چائے پیتے ہوئے خبروں کا تبادلہ ہوتا ہے۔ کئی سیاسی کارکن بھی خبریں دینے کے لئے گھومتے نظر آتے ہیں۔ عمر رسیدہ صحافیوں کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی جب صرف رکن پارلیمنٹ ہوتے تھے، تو شام کو واک کرتے ہوئے سنجے کی دکان پر چائے پینے کے لئے رکتے تھے اور صحافیوں کے ساتھ تبادلہ خیال کرتے تھے۔ غالباً2007 ء میں دکان کے مالک سنجے نے آواز دے کر بتایا کہ میرے نام کوئی خط اس کے حوالے کر گیا ہے۔ بھیجنے والے کا نام ارشاد علی ولد محمد یونس اور پتہ تہاڑ جیل کا ہائی رسک وارڈ تھا۔ طویل خط میں ارشاد علی نے لکھا تھا کہ وہ اپنے ساتھی معارف قمر کے ساتھ کشمیر میں مخبری کا کام کرتا تھا اور چند افسران اس کو لائن آف کنٹرول پار کرکے لشکر طیبہ میں شامل ہونے کے لئے دبائو ڈال رہے تھے۔ جان کے خوف سے جب اس نے انکار کیا تو اسے بات چیت کرنے کے لئے دہلی بلا کر دو ماہ تک قید میں رکھا گیا۔ بعد میں البدر سے وابستہ دہشت گرد قرار دے کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ یہ خط من و عن دہلی سے شائع ہونے والے اردو اخبار راشٹریہ سہارا کے اس وقت کے ایڈیٹر عزیز برنی نے خاصی جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شائع کر دیا۔ اسی دوران دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے جیل سے ارشاد علی کی اپیل منظور کرتے ہوئے، حقائق کا پتا لگانے کے لئے سی بی آئی کو حکم دیا، جس نے اس خط کے مندرجات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ گرفتاری سے قبل یہ دونوں حضرات آئی بی اور دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کے اعلیٰ افسران سے رابطے میںتھے۔ ارشاد علی کے خط کے مندرجات میں یہاں نقل کرتا ہوں:
''میں دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کے لئے مخبری کا کام کرتا تھا۔ اس سیل کا کام خفیہ ایجنسی، آئی بی کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہے۔ مگر کام کرتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ بجائے دہشت گردوں کو پکڑنے کے یہ دہشت گردوں کو پیدا کرتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی غور کرنے کی کوشش کی ہے کہ دہشت گردانہ واقعہ کے فوراً بعد یہ کتنی سرعت کے ساتھ ملوث افراد کو پکڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں؟ آخر کیسے؟ میرے پاس اس کے جوابات ہیں۔ شاباشی اور میڈل بٹورنے کے لئے ان اداروں نے معمولی سے مشاہرہ پر لاتعداد مخبروں کی ایک فوج بھرتی کی ہوئی ہے۔ یہ اکثر آوارہ گرد نوجوان ہوتے ہیں، جن کو موبائل فون اور پولیس کی سرپرستی مل جاتی ہے۔ وہ شہر کے کسی علاقہ میں رہائش اختیار کرکے بے روز گار نوجوانوں کے ساتھ دوستی کرکے ان کو اپنے جال میں پھنسا دیتے ہیں۔ ایک گروپ بنا کر اور ہتھیار فراہم کرکے کہیں ڈاکہ ڈالنے کا پروگرام بنتا ہے۔ چوری کی گاڑی بھی ان کو اسپیشل سیل سے ہی فراہم کروائی جاتی ہے۔ آپریشن کے دن موقع پر وہ مچھلی کی طرح ایک جال میں پھنس جاتے ہیں، کیونکہ وہاں تو پولیس پہلے سے ہی گھیرا ڈالے ہوتی ہے۔ میڈیا میں اگلے دن خبر ہوتی ہے کہ کس طرح پولیس نے ایک گروہ کو پکڑا، مگر اس کا سرغنہ چکمہ دے کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا ہے اور اس کی تلاش جاری ہے۔ ان نوجوانوں کو کبھی بھی یہ ادراک نہیں ہوتا کہ ان کو پھنسایا گیا۔ وہ پوری عمر اپنی قسمت کو کوستے رہتے ہیں‘‘۔
''اس سے بھی زیادہ خطرناک ان کا دہشت گردی سے نمٹنے کا طریقہ ہے۔ یہ ایجنسیاں حکومت اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتی رہتی ہیں۔ آپ نے میڈیا میں اس طرح کی خبروں پر غور کیا ہوگا کہ دہلی یا ممبئی میں دہشت گرد کسی واردات کے فراق میں ہیں یا اتر پردیش یا کسی اور علاقہ میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے ٹھکانے بنائے ہیں۔ اس کو سچ ثابت کرنے کے لئے کسی مسلم علاقہ میں زاہدانہ وضع قطع کا کئی مولوی ٹائپ شخص روانہ کیا جاتا ہے، جو علوم اسلامی میں دسترس رکھتا ہو۔ یہ حضرت یا تو کسی مسجد کے آس پاس مکان کرایہ پر لیتے ہیں یا مسجد میں ہی ڈیرہ جماتے ہیں۔ اس کے متقی اور پرہیزگار ہونے سے متاثر ہوکر محلہ یا گائوں کے افراد اس کے گرویدہ ہو جاتے ہیں ۔یہ حضرت رقت آمیز بیانات میں مسلمانوں پر ہو رہے ظلم و ستم کی داستانیں سنا کر جذباتی اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو شناخت کرکے ان کو جہاد کی ترغیب دیتے ہیں۔ لوہا جب خوب گرم ہوجاتا ہے، تو ایک دن یہ حضرت معتقدین کے اس گروپ پر ظاہر کرتے ہیں کہ وہ دراصل لشکر طیبہ یا کسی اور تنظیم کے کمانڈر ہیں۔ جذبات میں مغلوب اور برین واش نوجوان اب کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ ان کو ہتھیار چلانے کی معمولی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ ایمونیشن اور گاڑیاں بھی آجاتی ہیں۔ یہ مولوی صاحب اس دوران مسلسل افسران کے رابطے میں ہوتے ہیں‘‘۔
''ٹارگٹ کا معائنہ بھی کیا جاتا ہے۔ آخر میں یہ نوجوان پکے پھل کی طرح ان سکیورٹی ایجنسیوں کے بنے جال میں گر جاتے ہیں اور اگر ان کا انکائونٹر نہ ہو جائے، تو زندگی کا بیشتر حصہ جیلوں میں گزار تے ہیں۔ میڈیا میں خبر آتی ہے کہ دہشت گردوں کے ایک بڑے نیٹ ورک کا پردہ فاش کیا گیا، مگر اس کا سرغنہ یا ایک دہشت گرد فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ ان پکڑے گئے افراد کو بتایا جاتا ہے کہ ازراہ ترحم ان کو جیل بھیجا جاتا ہے ورنہ ان کا انکائونٹر لازمی تھا۔ وہ بھی اسپیشل سیل کے احسان مند رہتے ہیں کہ مارنے کے بجائے ان کو جیل بھیج دیا گیا، جہا ں اگلے سات تا دس سال گزارنے کے بعد وہ رہا ہوجاتے ہیں۔ جن کا انکائونٹر کرنا ہوتا ہے ان کو یہ ایجنسیاں حوالات کے بجائے دہلی کے نواح میں فارم ہائوسز میں رکھتی ہیں۔ یہ اکثر اغوا شدہ افراد ہوتے ہیں اور ان کی گرفتاری کا کہیں کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا۔ ایک صوبہ کا انسداد دہشت گردی سیل، دوسرے صوبہ کے اسی طرح کے سیل کے ساتھ حراستی افراد کا تبادلہ بھی کرتا ہے۔ مثلاً دہلی کے اسپیشل سیل، کشمیر کے اسپیشل آپریشنز گروپ سے دو افراد لیتا ہے اور اس کے بدلے دو افراد فراہم کرتا ہے، جن کو کشمیر کے کسی علاقہ میں پاکستانی دہشت گر د قرار دے کر ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ چونکہ یہ گیم نہایت اعلیٰ سطح پر کھیلی جاتی ہے، مقامی پولیس یا تو لاعلم ہوتی ہے یا خاموشی میں ہی عافیت جانتی ہے۔ حکومت کے رولز کے تحت وزارت داخلہ کی ایک ٹیم کو ہر پولیس مقابلہ کی جانچ کرنا ہوتی ہے۔ مگر وہ بھی اپنی جانچ رپورٹ انکائونٹر سے پہلے ہی تیارکرکے رکھتی ہے‘‘۔
''کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ مقابلوں میں مارے گئے افراد کے پاس کس طرح ان کا پورا شجرہ نسب موجود ہوتا ہے اور پولیس کا ایک بھی جوان ہلاک یا زخمی نہیں ہوتا! اگر ان مقابلوں کا کشمیر میں فوج کی طرف سے کئے گئے آپریشنز سے موازنہ کیا جائے، جہاں ہر مقابلے میں فوج کا کوئی اہلکار ہلاک یا زخمی ہوتا ہے، تو یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اسپیشل سیل میں بھرتی اہلکار فوج سے زیادہ تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور کشمیر اور شمال مشرقی ریاستوں میں فوج اور نیم فوجی دستوں کے بجائے ان کو ہی تعینات کیا جانا چاہیے۔ علاوہ ازیں ان کی رگ رگ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بھری ہوتی ہے۔ میرا قصور یہی تھا کہ میں نے ان کے خاکوں میں رنگ بھرنے سے انگار کر دیا تھا۔ میں دو ماہ ان کو قید میں تھا، میرے والد نے گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی تو کورٹ میں پیش کرکے اسلحہ کی برآمدگی دکھا کر ہمیں البدر تنظیم کا کمانڈر جتلا کر جیل میں ڈال دیا گیا‘‘۔
خط کے آخر میں ارشاد نے اسپیشل سیل اور آئی بی کے ان افسران کے نام اور فون نمبر بھی دیے تھے، جن سے وہ گرفتاری سے قبل مسلسل رابطے میں تھا، جس کی تصدیق کورٹ اور سی بی آئی کر چکی ہے۔ جن افسران کے نام ارشاد نے لیے ہیں ان میں بدقسمتی سے ایک مسلمان افسر بھی ہے، جس کو پچھلے 15برسوں میں کئی اعزازات اور ترقیاں ملیں ہیں۔ 2001ء میں جب اس کی تقرری مغربی اتر پردیش میں ہوئی تھی، تو آئے دن اس علاقے سے مسلم نوجوان آئی ایس آئی کے ایجنٹ ہونے کی پاداش میں پکڑے جاتے تھے۔ جب ہم نے ان کیسز کی اسٹڈی کی، تو معلوم ہوا کہ کم از کم چار الگ الگ کیسز میں تو ہاتھ سے بنایا گیا ایک ہی اسکیچ چارج شیٹ میںشامل ہے، جو استغاثہ کے بقول دہلی یا آگرہ کنٹونمنٹ کا نقشہ تھا اور یہ افراد اس کو پاکستان بھیج رہے تھے۔ ٹورسٹ لٹریچر میں اس سے بہتر نقشہ دستیاب تھا۔ یہ افراد کئی سالوں تک جیلوں میں رہے۔
دہشت گردی ایک حقیقت ہے، اور اس کے خلاف جنگ سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ مگر اس عفریت سے لڑنے کا کیا یہی طریقہ ہے؟ کیا اس طرح یہ جنگ جیتی جاسکتی ہے؟ میڈل اور شاباشی کے حصول کے لئے معصوم نوجوانوں کو دہشت گرد قرار دے کر خاندان تباہ و برباد کئے جاتے ہیں اور دہشت گردانہ واقعہ کے اصل ملزم کہیں دور پھر کسی واقعے کی پلاننگ کر رہے ہوتے ہیں۔ اس جنگ کو منظقی انجام تک پہچانے کے لئے تمام حکومتوں پر لازم ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کا احتساب کریں اور جانچ کریں کہ کہیں وہ ان کی اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوششں تو نہیں کر ر ہے ہیں۔