تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     03-01-2017

اہل ملتان کی محبت اور قوت برداشت

ایک عالمی ریکارڈ قائم کرنے کے بعد بالآخر ہمارا بلدیاتی نظام خواہ بے اختیار ہی سہی‘ مگر بہرحال تکمیل کو پہنچا۔ عالمی ریکارڈ اس طرح کہ یہ سارا عمل گھسیٹ گھسیٹ کر کلینڈر کے حساب سے دو سال میں مکمل ہوا۔ یہ عمل 2015ء میں شروع ہوا اور 2017ء میں ختم ہوا۔ پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کا پہلا مرحلہ 31 اکتوبر‘ دوسرا مرحلہ 19 نومبر اور تیسرا مرحلہ 5 دسمبر کو وقوع پذیر ہوا۔ ان نمائندوں نے حلف جنوری 2016ء میں اٹھایا۔ مخصوص نشستوں پر الیکشن 9 نومبر 2016ء میں ہوا۔ میئرز اور چیئرمینوں کے الیکشن 22 دسمبر 2016ء کو ہوئے اور انہوں نے اپنا حلف 31 دسمبر کو اٹھایا۔ اگر ایک دن بھی اور گزر جاتا تو ان کا معاملہ 2017ء میں جا پڑتا اور یہ ریکارڈ مزید بہتر ہو جاتا۔
مجھے 31 دسمبر کو ہونے والی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ موصول تو ہوا مگر میں نے ماضی میں ہونے والی ایسی تمام تقریبات کے حشر نشر کی تاریخی آگاہی کے باعث اس میں جانے سے پرہیز کیا اور الحمد للہ میری یہ احتیاط اور دور اندیشی بہت ہی صائب ثابت ہوئی۔ اس تقریب میں بھی وہی ہوا جو ماضی میں ہوتا رہتا ہے۔
تقریب سے چار پانچ دن پہلے شاہ جی نے پوچھا کہ کیا میں اس حلف برداری کی تقریب میں جا رہا ہوں؟ میں نے کہا شاہ جی، اوّل تو کسی عزت دار آدمی کو ایسی تقریبات میں جانا ہی نہیں چاہیے؛ ہاں! اگر مجبوری ہو تو اور بات ہے۔ تاہم میرے ساتھ ایسی کوئی مجبوری جڑی ہوئی نہیں، لہٰذا میں گھر بیٹھ کر مزے کروں گا اور ساری خبر آپ سے لے لوں گا۔ شاہ جی کہنے لگے میں آپ کو شکل سے احمق یا بے وقوف لگتا ہوں کہ ایسی تقریب میں جا کر اپنی ''عزت سادات‘‘ کو دائو پر لگائوں اور اس عمر میں ''لچے لانڈوں‘‘ سے دھکے کھاتا پھروں۔ تاہم شاہ جی نے وعدہ کیا کہ وہ مجھے اس تقریب کی تفصیل سے آگاہ ضرور کریں گے۔ میں نے پوچھا کہ آپ یہ حال کس طرح دیں گے؟ شاہ جی کہنے لگے آپ بے فکر ہو جائیں۔ میرے دو تین مرید ایسے ہیں جنہیں ایسی تقریب میں دھکے کھانے کا اور ذلیل و رسوا ہونے کا قدیمی شوق ہے۔ وہ ہر حال میں یہاں جائیں گے اور اپنی ذلت و رسوائی کی داستان نہایت تفصیل سے آ کر مجھے بتائیں گے۔ میں نے کہا شاہ جی وہ اس سلسلے میں ڈنڈی تو نہیں ماریں گے؟ شاہ جی کہنے لگے آپ بالکل بے فکر ہو جائیں۔ وہ اپنی ذلت سے لے کر دیگر تفصیلات تک‘ ہر بات نہایت ایمانداری اور جزیات نگاری کے ساتھ بتائیں گے۔ ان کا دھکے کھانے کا شوق ایسی جگہ پر‘ لیکن ان کے بطور راوی ثقہ ہونے میں کوئی کلام نہیں۔ انہوں نے پچیس دسمبر کو قائد اعظم اصلی اور قائد اعظم ثانی میاں نواز شریف کی مشترکہ سالگرہ کی تقریب میں شرکت فرمائی تھی اور وہاں جو کچھ ہوا تھا اس کی نہ صرف مکمل تفصیل سنائی تھی بلکہ بطور ثبوت ایک ویڈیو کلپ بھی بنا کر لائے تھے، جس میں مسلم لیگ نون کے ورکرز اور لیڈر سالگرہ کا کیک کھانے کی بجائے ایک دوسرے کے منہ پر مل رہے تھے اور اس کیک کے ٹکڑے ایک دوسرے کو اس طرح مار رہے تھے جیسے مری وغیرہ میں برف باری کے بعد بچے برف کے گولے بنا کر ایک دوسرے کو مارتے ہیں۔ یہ کلچر تو پیپلز پارٹی کا بھی نہیں کہ وہ سالگرہ وغیرہ کی تقریب میں مچنے والی ہڑبونگ کے باعث کیک کھانے سے محروم رہ جاتے ہیں‘ مگر رزق کی اس طرح بے توقیری اور توہین نہیں کرتے‘ جس طرح مسلم لیگ نون والوں نے یہ سب کچھ کر کے ایک اور قبیح روایت کا آغاز کیا ہے۔
معتبر راوی نے شاہ صاحب کو آ کر ساری روداد تفصیل سے سنائی اور شاہ جی نے یہی تفصیل تھوڑا مرچ مسالہ لگا کر مجھے سنانے کی کوشش کی۔ جونہی شاہ جی نے چسکے لینے شروع کیے مجھے اندازہ ہو گیا کہ شاہ جی اپنی عادت سے مجبور ہو کر کہانی میں چاشنی پیدا کرنے کی غرض سے اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لا رہے ہیں۔ میں نے فوراً ٹوکا اور کہا شاہ جی! آپ نے اللہ کو جان دینی ہے یا نہیں؟ شاہ جی نے فوراً لاحول ولاقوۃ پڑھ کر مجھے گھورا اور کہنے لگے آپ کا کیا خیال ہے میں صاحب ایمان نہیں؟ میں نے کہا شاہ جی ایسی کوئی بات نہیں مگر آپ روایت بیان کرتے ہوئے اپنی ذاتی خواہشات کو اس میں شامل نہ کریں تو آپ کی مہربانی ہو گی۔ شاہ جی نے برا سا منہ بنا کر کہا اس کے بعد خاک مزہ آئے گا؟ میں نے کہا میرے بھائی! مزے پر لعنت بھیجیں‘ صرف حقیقت بیان کریں۔ شاہ جی نے افسردگی سے کہا کہ تقریب میں ویسی ہی بدنظمی ہوئی جیسی ہمیشہ ہوتی ہے اور جیسی توقع بھی تھی۔ بس باہر ڈھول پارٹی والا پارٹ اچھا تھا اور لوگوں نے اسے کافی انجوائے کیا لیکن شنید ہے کہ ڈھول پارٹی بعد میں بلانے والے کو ڈھونڈتی رہی۔ اللہ جانے اسے بلانے والے ملے یا نہیں اور خدا معلوم اسے اپنا معاوضہ وصول ہوا یا نہیں۔ اگر مجھے تھوڑا مرچ مسالہ شامل کرنے کی اجازت ہوتی تو میں آپ کو بھی مزے کرواتا مگر اب آپ نے صرف حقائق کے بارے پوچھا ہے تو مجھے علم نہیں کہ ڈھول پارٹی کا کیا بنا۔
پھر شاہ جی نے بتایا کہ ملتان کے میئر نوید ارائیں چودہ حرفی حلف کے دوران تیرہ بار اٹکا اور تلفظ بھی الا ماشا اللہ تھا۔ میں نے کہا شاہ جی ہم کو تلفظ سے غرض اور اٹکنے سے کیا مطلب؟ تخت لاہور نے انتخاب کیا تھا ہم لوگوں نے تو صرف حکم کی تعمیل میں ووٹ ڈالے ہیں اور جب ووٹ پورے ہوں تو قابلیت کون دیکھتا ہے؟ میں نے شاہ جی سے کہا کہ ایمانداری سے بتائیں حلف کے الفاظ کتنے تھے اور میئر صاحب کتنی بار اٹکے تھے؟ شاہ جی کہنے لگے، حلف کے الفاظ کی تعداد تو خیر میں نے اپنے پاس سے جوڑی تھی لیکن راوی نے اٹکنے کے بارے میں تیرہ بار کا استعمال دو بار کیا تھا اور اس پر میں قسم اٹھا سکتا ہوں۔
کل ہمارے دوست کے بیٹے کا ولیمہ تھا، میں وہاں پہنچا تو حسب توقع بہت سے دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ جب میں واپس آنے لگا تو پنڈال میں داخل ہوتے ہوئے چوہدری وحید ارائیں سے ٹاکرا ہو گیا۔ چوہدری بذات خود شریف آدمی ہے اور ہمارا دوست بھی۔ دو شناختی کارڈوں کے پھڈے پر نہ صرف یہ کہ وزارت اور صوبائی اسمبلی کی نشست سے فارغ ہو گیا بلکہ آئندہ الیکشن لڑنے کے لیے نااہل بھی ہو گیا۔ صرف اسی شریف آدمی پر یہ ملبہ گرا وگرنہ بہت سے دیگر لوگ اسی جرم میں ابھی تک کیس بھگتا رہے ہیں اور اسمبلی کے مزے لے رہے ہیں۔ ادھر اس کا کیس سپریم تک سے شتابی میں فارغ ہو چکا ہے۔
میں نے چوہدری وحید ارائیں سے پوچھا کہ سنا ہے آپ کا چھوٹا بھائی چوہدری نوید ارائیں حلف پڑھتے ہوئے تیرہ بار اٹکا ہے؟ وحید ارائیں نے اپنی دائیں طرف کھڑے ہوئے ایک ایم این اے کی طرف اشارہ کیا اور کہنے لگا‘ آپ اس شریف آدمی سے پوچھ لیں‘ یہ وہاں موجود تھا۔ میں نے قہقہہ لگایا اور کہا اگر آپ کے نزدیک شریف آدمی کا معیار یہ ہے تو میں اپنا سوال ہی واپس لے لیتا ہوں۔ چوہدری وحید کہنے لگا، میئر شپ ووٹوں سے ملتی ہے اور حلف پڑھنے میں اگر بندہ اٹک بھی جائے تو اس سے اس کی میئر شپ پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ویسے آپ میری بات کا یقین کریں، بھائی حلف پڑھتے ہوئے تیرہ بار نہیں اٹکا۔ میں نے کہا مطلب یہ ہوا کہ معاملہ اب گنتی پر آن اٹکا ہے۔ ویسے مجھے سیاست دانوں کی بات کا یقین نہیں آتا۔ چوہدری وحید نے پوچھا وہ کیوں؟ میں نے کہا پہلے ایک واقعہ نما لطیفہ سن لو۔
کسی ملک میں دس بارہ سیاست دان ایک چھوٹے سے چارٹر جہاز میں دور دراز کے کسی قصبے میں جا رہے تھے کہ صحرا کے درمیان میں ان کا جہاز گر کر تباہ ہو گیا۔ جہاز کی تباہی کی خبر ملتے ہی جائے حادثہ تلاش کرنے اور پھر بذریعہ سڑک اس دور دراز علاقے میں امدادی پارٹی کو پہنچنے میں پورے چوبیس گھنٹے لگ گئے۔ جب امدادی پارٹی وہاں پہنچی تو دیکھا کہ جہاز کا ملبہ تو پڑا ہے مگر کوئی زخمی یا مردہ شخص وہاں موجود نہیں۔ انہوں نے جائے حادثہ کے قریب ہی واقع ایک پٹرول سٹیشن اور سٹور کے بوڑھے مالک سے پوچھا کہ اس جہاز کے مسافروں کا کیا بنا؟ دور نزدیک سینکڑوں میل تک کوئی آبادی نہ تھی صرف سڑک پر صحرا کے درمیان یہی ایک پٹرول سٹیشن تھا۔بوڑھے نے کہا میں نے ان سب کو وہاں سامنے صحرا میں اس درخت کے نیچے دفن کر دیا ہے۔ امدادی پارٹی کے سربراہ نے پوچھا کیا سب مر گئے تھے؟ بوڑھے نے کہا میرا ذاتی خیال تو یہی ہے۔ اس نے پوچھا تمہارا ذاتی خیال سے کیا مراد ہے؟ کیا ان میں سے کوئی زندہ نہیں بچا؟ بوڑھے نے کہا ان میں دو تین یہ کہہ رہے تھے کہ وہ زندہ ہیں مگر تمہیں خود بھی پتا ہو گا کہ یہ کمبخت سیاست دان مرتے دم تک سچ نہیں بولتے۔ بس میں نے بھی ان کی بات کا یقین نہیں کیا اور انہیں دفن کر دیا۔ 
اردگرد موجود سب دوست ہنسنے لگ گئے اور میں باہر روانہ ہو گیا۔ شوکت کہنے لگا تم نے شہر میں کسی سے بنا کر بھی رکھی ہے؟ میں نے کہا تم سے بنی ہوئی ہے، میرے لیے اگر صرف یہی ایک دوستی بھی ہو تو کافی ہے۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ ابھی شہر میں بہت سے لوگ ہیں جو مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ شوکت ہنسا اور کہنے لگا، وہ اس محبت کی وجہ سے تمہیں برداشت بھی کرتے ہیں۔ میں نے کہا یہ بھی اس اوپر والے کا کرم ہے وگرنہ اس صورتحال میں کون کسے برداشت کرتا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved