اگرچہ اب ہمارے ہاں چینی زبان کو بھی کچھ اہمیت حاصل ہو چکی ہے لیکن انگریزی کا زور ابھی ٹوٹا نہیں۔ سپریم کورٹ نے اُردو کے نفاذ کا حکم بھی دے رکھا ہے مگر انگریزی اپنی جگہ ڈٹی ہوئی ہے۔ سرکاری محکموں میں اب بھی انگریزی ہی کا ڈنکا بجتا ہے۔ اصل میں ہمارا سب کچھ تو انگریزی زبان میں تحریر ہے، تو پھر اس سے مفر کیسے ممکن ہو۔ مجھے یاد ہے کہ پچاس برس پہلے بھی ریڈیو پاکستان کی نشریات تو اردو زبان میں ہوتی تھیں مگر ساری سرکاری خط و کتابت انگریزی ہی میں ہوا کرتی تھی۔ ہمارے افسروں میں سے اگر کسی افسر کی انگریزی زبان پر گرفت انتہائی مضبوط ہوتی تو اس افسر کا وقار دیگر کی نسبت بہت بلند ہوتا تھا۔ انگریزی میں نوٹ لکھنا اور ڈرافٹ بنانا ایک فن ہے جس کی مدد سے بڑے بڑے دشمنوں کو شکست دی جاتی تھی۔ پاکستان کے شروع کے زمانے میں جبکہ ابھی ون یونٹ قائم نہیں ہوا تھا، پنجاب کے کرتا دھرتا افسران کے من میں سمائی کہ صوبے کا اپنا ریڈیو سٹیشن ہونا چاہیے، لہٰذا پنجاب کے چیف سیکرٹری کی طرف سے انگریزی زبان میں ایک خط وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کو بھیج دیا گیا کہ صوبے کو ریڈیو سٹیشن کی اجازت دی جائے۔
جن لوگوں کو بیورو کریسی کے کام کرنے کے طریقے معلوم ہیں، وہ جانتے ہوں گے کے وزارتیں اس قسم کے خطوط کے جواب خود نہیں دیتیں بلکہ متعلقہ محکمے کو جواب کے لیے بھجوا دیتی ہیں۔ لہٰذا یہ خط وزارت اطلاعات و نشریات کی طرف سے زیڈ اے بخاری صاحب کے دفتر پہنچا جو کہ ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ ریڈیو پاکستان کے حکام کو خدشہ یہ تھا کہ پنجاب حکومت کو الگ سے ریڈیو سٹیشن کھولنے کی اجازت تو نہیں مل پائے گی مگر یہ ضرور ہو جائے گا کہ صوبوں کی حکومتوں کا کچھ عمل دخل اُن ریڈیو سٹیشنوں پر ہو جائے جو اُن کے صوبوں میں واقع ہیں۔ یہ بات ریڈیو پاکستان کو منظور نہ تھی۔ لہٰذا طریقہ یہ نکالا گیا کہ کوئی انگریزی زبان لکھنے کا ایسا ماہر ڈھونڈا جائے جو اس خط کا وہ جواب دے کہ یہ خط پھر فائلوں میں ہی دبا رہے۔
اس زمانے میں رشید احمد صاحب ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ہوتے تھے جو بعد ازاں ڈی جی بھی بنے۔ وہ احمد شاہ بخاری پطرس کے شاگرد تھے اور انگریزی لکھنے میں ماہر سمجھے جاتے تھے۔ بخاری صاحب نے وہ خط اُن کے حوالے کیا اور خواہش ظاہر کی کہ ایسا جواب ہونا چاہیے کہ یہ خط دوبارہ ہم تک نہ آئے۔رشید صاحب نے اس کام پر ہفتہ بھر لگایا اور پنجاب حکومت کے خط کا جواب بخاری صاحب کو پیش کر دیا۔ بخاری صاحب نے جوابی خط کا جائزہ لے کر اس کو انتہائی خوشدلی سے منظور کر لیا اور رشید صاحب کے ڈرافٹ کے اُوپر کونے میں لکھا ''مانتا ہوں سلیمان‘‘۔ کسی فن میں اگر کسی کو استاد مان لیا جائے تو اس کو شرفاء کہا کرتے تھے: ''بھئی مانتا ہوں سلیمان‘‘۔
وہ خط گیا وزارت اطلاعات و نشریات اور وہاں سے پنجاب کے چیف سیکرٹری کے دفتر۔ آج تک وہ پنجاب کے چیف سیکرٹری کے دفتر ہی میں ہو گا کیونکہ بعد میں کسی طرف سے اس بارے میں کوئی پیشرفت منظر عام پر نہ آئی۔ یہ محض رشید صاحب کی انگریزی دانی کا کمال تھا جس نے پنجاب حکومت کو لاجواب کر دیا تھا۔
ریڈیو میں جن افسروں کی انگریزی اتنی اچھی نہیں ہوتی تھی اُن کو حسرت ہوتی تھی کہ کاش وہ بھی ایسی انگریزی لکھ سکتے کہ کم از کم افسران بالا کے تو مُنہ بند کر سکتے۔ اسی طرح کے ہمارے افسر ہوتے تھے طاہر شاہ صاحب۔ وہ کراچی سٹیشن کے ڈائریکٹر ہوتے تھے مگر انگریزی پر کچھ زیادہ عبور نہیں تھا۔ ہمارے ایک پرانے افسر حمید نسیم صاحب جو ریٹائر ہو چکے تھے اور ریڈیو سٹیشن آتے جاتے تھے، وہ بہت کمال کی انگریزی لکھتے تھے۔ ایک روز طاہر شاہ صاحب نے حمید نسیم صاحب کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا: ''اگر مجھے حمید نسیم جتنی انگریزی آتی تو میں ہیڈ کوارٹر کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا‘‘۔ جو ذیلی دفاتر ہوتے ہیں اُن کے لیے ہیڈ کوارٹر کے خطوط ہمیشہ سوہان روح ہوتے ہیں۔ ہیڈ کوارٹر میں عام طور پر سینئر افسر
تعینات ہوتے ہیں اور اکثر سٹیشنوں کو مصیبت میں ڈال کر خوش ہوتے ہیں۔ ہیڈ کوارٹر والوں کا خیال ہوتا ہے سٹیشنوں والے موج کرتے ہیں۔ جس کو چاہتے ہیں ریڈیو پر بُک کر لیتے ہیں، تقریبات کرواتے ہیں‘ سرکاری گاڑیوں میں گھومتے پھرتے ہیں۔ ہیڈ کوارٹر میں بہرحال یہ سہولتیں نہیں ہوتیں۔
تو طاہر شاہ صاحب ہیڈ کوارٹر کے خطوط اور انکوائریوں وغیرہ سے تنگ تھے اور اس کا علاج اُن کے ذہن میں یہ تھا کہ کاش انگریزی اتنی اچھی آتی ہوتی تو ہیڈ کوارٹر والوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا۔ ویسے یہ حقیقت بھی ہے، ریڈیو سٹیشن سے بعض انگریزی کے ماہر افسران نے ہیڈ کوارٹر کو ایسے ایسے جواب بھجوائے کہ آج تک ان کا جواب نہ آیا۔ یہ ایک فن ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کے معروف مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے بھی اپنے ایک مضمون میں کسی بیورو کریٹ کی انگریزی دانی کی دھاک کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پوری افسر شاہی میں کوئی بھی موصوف سے بہتر سیمی کولن (Semi Colon) نہیں لگا سکتا تھا۔ ظاہر ہے، یوسفی صاحب نے تو اس طرح مزاح کا ایک خوبصورت رنگ پیش کیا لیکن اس کے پس منظر میں یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ انگریزی لکھنے کی ہماری افسر شاہی میں بہت اہمیت رہی ہے اور غالباً اب بھی کم نہیں ہوئی۔ معیار ممکن ہے گر گیا ہو۔
باریکیاں تو ہر زبان میں ہوتی ہیں مگر انگریزی زبان کی باریکیوں سے ہمارے افسران کچھ زیادہ ہی واقف رہے ہیں کیونکہ نوّے سال تو براہ راست انگریز ہی یہاں افسر رہے تھے اور وہ اپنی میراث میں یہ باتیں بھی چھوڑ گئے تھے۔
مجھے یاد ہے، ہمارے افسر سید سلیم گیلانی نے ایک مرتبہ اپنے ایک ماتحت کی کارکردگی کی سالانہ رپورٹ لکھی جس کا اس ماتحت افسر کی ترقی کے لیے مثبت ہونا ضروری تھا۔ لیکن وہ ماتحت افسر تھا نالائق۔ اس کی کارکردگی کی رپورٹ لکھ کر ہیڈ کوارٹر روانہ کرنے کے بعد وہ فارغ ہو کے دفتر میں بیٹھے تھے کہ ایک ساتھی افسر آئے اور بولے ''گیلانی صاحب! مشکل ہی ہے کہ آپ نے مثبت رپورٹ دی ہو‘‘ گیلانی صاحب مسکرائے‘ بولے : لکھی تو میں نے منفی ہی ہے مگر پھر بھی وہ پروموٹ (Promote) ہو جائے گا۔ کچھ عرصے بعد وہی ہوا۔ اس ماتحت افسر کی واقعی ترقی ہو گئی۔
اب گیلانی صاحب نے راز کھولا۔ انہوں نے کہا، میں نے اس ماتحت کے بارے میں لکھا تھا He works to his own entire satisfaction یعنی یہ افسر اپنی عین تسلی کے مطابق کام کرتا ہے۔ ہیڈ کوارٹر والوں نے اس کو مثبت تبصرہ سمجھا، حالانکہ یہ مثبت نہیں منفی ہے۔ He should work to his superior`s satisfaction یعنی اس کو تو اپنے اوپر جو افسر ہیں اُن کی تسلی کے مطابق کرنا چاہیے۔
اصل وجہ یہ تھی کہ گیلانی صاحب چاہتے بھی یہی تھے کہ وہ ترقی پا جائے اور غلط بیانی بھی نہیں کرنا چاہتے تھے، لہٰذا انگریزی زبان کی باریکی کا سہارا لے کر سرخرو ہو گئے۔