شاید اخباری کالموں کے عادی‘ افسانوی طرز کی اس کہانی سے لطف نہ اٹھا سکیں لیکن انسانی جذبوں کی باریکیوں تک پہنچنے والے قارئین ‘ الفاظ کی تہوں کے اندر سے جھانکتے ہوئے درد کی ان لہروں کو ضرور محسوس کریںگے۔جمشید اقبال کی دھیمے سروں والی یہ کہانی شاید اس درد بھرے گیت کے خدو خال نمایاں کر سکے جو ہمیشہ دھول میں اٹے رہتے ہیں۔
''جب بھی کم عمر ہندو بچیوں کے اغوا‘ مذہب کی جبری تبدیلی اور اس کے خلاف بننے والے قانون کی مخالفت دیکھتاہوں تو چنبیلی کی یاد آنے لگتی ہے۔وہ ہمارے قصبے کے ہندو خاکروب کی بیوی تھی۔ خاکروب کا نام نہ صرف ہمیں بلکہ شاید کسی کو یاد نہ ہو کیونکہ کبھی کسی نے اس کا نام لے کر نہیں‘ ہمیشہ جمعدار کہہ کر پکارا ۔ و ہ سارا دن بیوی کے ساتھ صفائی کرتا‘ سانپ کے ڈسے کا زہریلا خون چوستا اور فراغت میں زمین پر بیٹھ کر خلاؤں میں گھورتا رہتا۔ جمعدار کے برعکس چنبیلی ہر چند جملوں کے بعد خود اپنا نام دہراتی۔ کھیل کھیل میں اگر کوئی طاقتور بچہ کسی کمزور بچے پر حملہ کرتا تو وہ چنبیلی کی گود میں پناہ لیتا اور وہ آستینیں چڑھا کر کہتی :' 'اب یہ میری امان ہے۔ ہاتھ لگایا تو چنبیلی نام نہیں میرا‘ ‘۔ جمعدار بٹوارے کے بعد مٹی کی محبت میں یہاں رہ گیا یا پھر کہیں اور سے آیا کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ قصبے کے قدیمی حصے میں ہندوؤں کی چھوڑی ہوئی حویلیاں‘ ماڑیاں اور دھرم شالہ کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ ان ماڑیوں میں بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے آباد ہوئے جبکہ جمعدار کو سڑک پر پناہ ملی۔ بعد میں کسی خْدا ترس نے سر چھپانے کے لئے اسی سڑک کے کنارے ایک نیم پکی کوٹھڑی دان کر دی۔ کوٹھڑی دان ہوئی تو چند روز غائب رہا‘ واپس آیا تو چمکیلی ساڑھی میں لپٹی تلک لگی چنبیلی ساتھ تھی اور پھر یہ کوٹھڑی گھر بن گئی۔پانچ بچوں کے اس کنبے کے لئے یہ گھر بہت چھوٹا سہی لیکن یہ ایک زندہ گھر تھا۔ چنبیلی نے کمرے کے سامنے پکی مٹی کا چولہا بنایا تو اس پر چھوٹے چھوٹے رنگ برنگے شیشے لگا دیے اور کمرے کے ایک کونے میں چھوٹا سا مندر بنا لیا۔ 'پوجا کے سمے اودھم مچایا تو چنبیلی نام نہیں میرا ‘۔ ہم صبح کے وقت مسجد سے نکلتے تو ہمیں اکثر اس کی آواز سنائی دیتی۔بچے بڑے ہوئے تو انہوں نے اپنے انداز میں گھر کی آرائش شروع کر دی۔ یہ مومی لفافوں کے کور میں لپٹی فلمی ستاروں کی تصاویر تھیں جو بچوں نے کوٹھڑی کی سامنے والی دیوار پر سجا دی تھیں۔ انہیں دیکھ کر لگتا کہ جیسے قصبے میں کوئی کچی ٹاکی ( چھوٹا سینما ) کھل گئی ہو۔ہمارے گھر میں کبھی وی سی آر نہیں رہا مگر ریکھا، سری دیوی، متھن چکروتی، جتندر اور امیتابھ کے چہروں سے شناسائی انہی تصاویر کے ذریعے ہوئی۔رہے انیل کپور تو ان کا تعارف ہمیں اس خاندان کے امکانی داماد نے‘ جو شہر سے ہر دوسرے روز گلے میں نیلے پیلے رومال باندھے واک مین لگائے چنبیلی کی بیٹی کو دیکھنے آتا تھا، اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا۔ ہمیں انیل خاصا دلچسپ لگا لیکن چنبیلی کی آنکھ میں وہ کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا ۔ چنبیلی نے بچیوں کو واک مین سے مرعوب ہوتے دیکھا تو اس نے اپنی جمع پونچی کے عوض خانہ بدوش سے ایک بڑا ٹیپ ریکارڈر خرید لیا۔ اس گھر میں ٹیپ ریکارڈر آتے ہی اصل منورنجن کا آغاز ہو گیا۔ کبھی وی سی آر ہٹس اور کبھی بناکا گیت مالا کے پائیدانوں پر سجنے والے سجیلے گیت سب اسی گھرانے کے توسط سے ہم تک پہنچے۔ چنبیلی کی تربیت میں پلے ہوئے بچوں نے خوشیاں بانٹنے میں کبھی بخل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ہم نے کئی بار دیکھا کہ سڑک سے کسی کی بارات گزری اور چنبیلی نے اپنے بچوں کے ساتھ مل کر شادی بیاہ کے گانے چلا دیے۔ سب نے مل کر تالیاں بجائیں اور جوڑے کو دعائیں دیں۔اسی دوران چنبیلی کے گھر کے سامنے سڑک کے پار ایک گھر مسمار ہوا۔ جب ملبہ اٹھا تو ہم نے اسے کھیل کا میدان بنا لیا اور کنکریٹ کا کاروبار کرنے والے نے وہاں ریت بجری ڈھیر کر دی۔ گرمیوں کے دن تھے۔ شام کے وقت وہ ٹیپ ریکارڈر پر اونچی آواز میں گانے لگاتے اور ہم ریت یا بجری کی ڈھیری پر بیٹھ کر سنتے رہتے۔ پھر موسمِ گرما کی چھٹیاں ہوئیں تو ہم دن کا زیادہ تر حصہ قصبے کے چھوٹے بڑے لڑکوں کے ساتھ اس میدان میں درخت کے نیچے کرکٹ کھیلنے میں گزارنے لگے۔ اْس روز بھی ہم کھیل رہے تھے لیکن ٹیپ نہ چلا اور نہ چنبیلی کی آواز سنائی دی۔ شاید اْس روز قیامت کی بُو پا کر اس نے اپنے بچے ننہیال روانہ کردیے تھے۔ کھیل کے دوران مجھے گھر سے بلاوا آگیا، میں نے گھر کی راہ لی لیکن کچھ دوست کھیل میں مصروف رہے۔ ابھی میں گھر سے دْور کچھ فاصلے پر تھا کہ عورتوں کی چیخوں اور اور گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دیں اور میں دوڑتا ہوا گھر پہنچ گیا۔ بھائی کو چیخوں اور گولیوں کے بارے میں بتایا تو والدہ نے اْسے بھی باہر جانے سے روک دیا لیکن شام تک خبر کی آگ پورے قصبے میں پھیل چکی تھی۔
جو درناک چیخیں مجھے سنائی دی تھیں وہ ان تین بچیوں کی چیخیں تھیں جن کے بھائی کو ان کی آنکھوں کے سامنے قتل کرنے کے بعد زمینداروں کا گروہ تقریباً دو میل تک برہنہ سڑکوں پر گھسیٹتا، پیٹتا اور ہانکتا آرہا تھا۔ چیخ سے پہلے جو چٹاخ کی آواز سنائی دیتی تھی وہ ان کے برہنہ جسموں پر پڑنے والے بھاری مردانہ ہاتھوں کے چابک کی تھی۔ظالموں کا یہ قافلہ مسجدوں، منبروں، شرفا کے گھروں،زہد و تقویٰ کے دعویداروں، شرم و حیا کے پیکروں کے بڑے بڑے گھروں کے سامنے سے گزرا، مظلوم عورتیں چیختی چلاتی، مدد کو پکارتی رہیں، خدا رسول کے واسطے دے کر بچیاں آوازیں لگاتی رہیں لیکن ظالموں کا راستہ روکنے کی کسی کو توفیق نہ ہوئی۔ قصبے میں زہد اور شرم و حیا کے دعویدار تو بہت تھے لیکن اْس روز بے لباس کی جانے والی بچیوں نے سب کا پول کھول دیا۔ کسی مسجد سے ان کی مدد کا اعلان نہ ہوا۔ کسی نے دستِ قاتل کو جھٹکنے اور مظلوم بچیوں کا جسم ڈھانپنے کی جرأت نہ کی لیکن جب یہ قافلہ شرفا کی دیواروں کے سایے میں چلتا چلتا چنبیلی کی کوٹھڑی کے سامنے آ یا تو ایک قدم آگے نہ بڑھ سکا۔میرے گھر چلے آنے کے بعد چشم دید گواہوں نے بتا یا کہ وہ ڈ ر کے مارے درخت کی اوٹ سے یہ سب دیکھ رہے تھے۔ جب ہوس کار بے بس بچیوں سے اجتماعی زیادتی کا اعلان کررہے تھے اسی وقت چنبیلی کوٹھڑی سے باہر نکلی اور پھر اندر چلی گئی۔ دوستوں کا خیال تھا کہ اب باہر نہیں نکلے گی لیکن انہوں نے دیکھا کہ وہ دو چادریں لے کر باہر آگئی‘ سڑک کے وسط میں ظالموں کا راستہ روک کر کھڑی ہوگئی اور بولی :''کوئی راستے میں آیا تو میرا نام چنبیلی نہیں ‘‘ ۔ دیکھنے والے کہتے ہیں اس کی آواز میں وہ جلال تھا جس کا قصہ انہوں نے ولیوں کی کہانیوں میں سنا تھا۔چند لمحوں کے لئے کوئی ٹس سے مس نہ ہوسکا جب تک اْس نے اپنے آپ کو ڈھال بناتے ہوئے بچیوں کو چادروں اور اپنے دوپٹے سے ڈھانپا اور بچیوں نے بھاگ کر اس کی کوٹھڑی میں پناہ لی۔ کچھ لوگ آگے بڑھے، چنبیلی کو یقین تھا کہ اس غریب کا دروازہ ان کی ایک لات بھی برداشت نہیں کرسکتا تو وہ خود دروازے کے آگے کھڑی ہوگئی۔بچیاں میری امان میں ہیں اور میں ابھی زندہ ہوں۔ جب لوگوں نے ایک نہتی غریب عورت کو تن تنہا بھیڑیوں کے بپھرے ہوئے جتھے سے لڑتے دیکھا تو قریبی بینک کا ایک چوکیدار بندوق لے کر آگے بڑھا۔ شہرِ مدفون میں زندہ چنبیلی نے اپنی آواز کا صور پھونکا تو سب اٹھ کر کھڑے ہوگئے، آگے بڑھے تو ظلم کو منتشر ہونا پڑا۔چنبیلی نے مظلوم مسلمان عورتوں کے تحفظ کے لئے اپنی جان داؤ پر لگا ئی تو ہم جیسوں کو نوعمری میں گیان ہوگیا کہ انسان دوست، نیک اور عظیم انسان پیدا کرنے کا ٹھیکہ کسی ایک مذہب کے پاس نہیں ہے۔ یہ دیکھ کر قصبے میں بعض نے کہا کہ وہ اندر اندر سے مسلمان ہو چکی تھی تو اکثر نے یہ نتیجہ نکالا کہ باہر باہر کا مسلمان ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔ ان باتوں کا چنبیلی کو پتہ چلا تو اس نے کھل کر کہہ دیا کہ وہ ایک ہندو ہے اور ہندو مرے گی۔
ملتان کے نواحی قصبے ‘نواب پور کا یہ سانحہ 1980ء کی دہائی کے اوائل میں پیش آیا۔ بعد میں چنبیلی پر اخبارات میں مضامین لکھے گئے‘ رنگین صفحات شائع ہوئے اور تو اور کسی نے روایتی طرز کی ایک پنجابی فلم بھی بنا ڈالی۔ مگر یہ سب کرنے والے اس کی ہندو شناخت سے انصا ف نہ کر پائے۔ اخبارات نے محض خاکروب کا اشارہ دیا تو فلم اس دور میں بدمعاشوں کے موضوع پر بننے والی اکثر فلموں کی طرح انتہائی غیر معیاری تھی۔اگر چنبیلی کی مذہبی شناخت کے ساتھ انصاف ہو پاتا تو جن سوالات نے قصبے میں جنم لیا تھا وہ پورے ملک میں اٹھائے جاتے۔ تاہم یہ ضیائی دور تھا جس کے دوران ابلاغِ عامہ کے اداروں سے وابستہ ہرایک کو اور کچھ یاد ہو نہ ہو یہ سبق ضرور یاد تھا کہ اچھائی کا پیکر کوئی مردِ مومن ہوسکتا ہے مگر چنبیلی نہ تو مرد تھی اور نہ ہی مومن۔ انہیں یہ بھی ازبر تھا کہ کسی دْوسرے مذہب کے فرد اور خاص طور پر کسی ہندو کی اچھائی کو تسلیم کرنے سے مصنوعی شناخت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ لوگ سوچنے پر مجبور ہوسکتے ہیں کہ نیکی اور عظمت پر کسی مذہب کی اجارداری نہیں۔ اگر چنبیلی کی مذہبی شناخت کے ساتھ انصاف کیا جاتا‘ کوئی یادگار تعمیر کی جاتی تو شاید کم سن ہندو بچیوں کو اغوا کرکے مذہب تبدیل کرانے اور اس عمل کی روک تھام کے قانون کی مخالفت کرنے والے‘ چنبیلی کو یاد کرکے شرمندہ ضرور ہوتے۔ شرمندہ نہ بھی ہوتے تو کم ازکم لوگوں کو اس دیوقامت عورت کے سامنے بونے ضرور لگتے‘‘۔