کچھ عرصہ پہلے راقم نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ نریندر مودی نے انڈین کرکٹ بورڈ کو ہدایت کی ہے کہ بھارتی کرکٹ ٹیم میں مسلمان کھلاڑیوں کو کم از کم جگہ دی جائے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے کرکٹ ٹیم میں انڈین بورڈ نے ایک بھی مسلمان کھلاڑی کو شامل نہیں کیا تھا جبکہ چند ٹیسٹ میچوں میں صرف شامی کو بطور فاسٹ بائولر رکھا گیا۔ میرے اس کالم پر مڈل ایسٹ اور دوسرے ممالک میں مقیم بھارتیوں کی جانب سے سخت نکتہ چینی کی گئی۔ ان تمام ناقدین کی اطلاع کے لئے ایک اور خبر دے رہا ہوں جو میری اختراع نہیں بلکہ بھارت کی AYUSH MINISTRY کی جانب سے آر ٹی آئی کے تحت دی گئی رپورٹ پر مبنی ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلم دشمنی میں مودی حکومت اور بھارت کے اخبارات کی تنظیم پریس کونسل آف انڈیا ایک ہی صفحے پر ہیں۔
نئی دہلی پولیس نے مودی سرکار کے حکم پر جب پندرہ روزہ ملی گزٹ کے سینئر تحقیقاتی رپورٹر پشپ شرما کو گرفتار کیا تو بھارت میں موجود تمام غیر ملکی میڈیا اداروں سے منسلک لوگ حیران رہ گئے کہ یہ کیسی سب سے بڑی جمہوریت ہے، جو آزادی اظہار کا گلا دبا رہی ہے۔ جمہوریت کا سب سے پہلا اصول ہی یہ ہے کہ میڈیا آزاد ہو اور اظہار رائے پر پابندی نہ ہو۔ جب پشپ شرما کو نئی دہلی کی ساکٹ کورٹ میں انویسٹی گیشن افسر سنجیو منڈل نے ہتھکڑیاں لگا کر پیش کیا تو یہ منظر دیکھنے والوں کو نریندر مودی کا ایک اور بھیانک چہرہ دیکھنے کا موقع ملا اور وہ ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ پشپ شرما پر مودی سرکار کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا کہ اس نے آر ٹی آئی ( رائٹ ٹو انفرمیشن) کے تحت حاصل کی گئی معلومات کے بر عکس غلط مواد استعمال کرتے ہوئے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کو سرکاری ملازمت دینے سے پرہیزکیا جا رہا ہے۔ اس پرAYUSH MINISTRY نے مرکزی حکومت سے شکایت کی اور شرما کے خلاف کارروائی کرنے کا مطا لبہ کیا۔ وزارت کی طرف سے کہا گیا کہ ملی گزٹ کی اس خبر سے بھارت کی دنیا بھر میں رسوائی ہو رہی ہے۔
اس سے پہلے پشپ شرما کوکوٹلہ مبارک پورہ پولیس اسٹیشن میں بلا کر تفتیش کے بہانے ہراساں کیا جاتا رہا۔ نئی دہلی کی صحافتی تنظیموں کی مداخلت اور سخت احتجاج پر انہیں اس وقت گھر جانے کی اجازت دی گئی جب اس نے آر ٹی آئی کے اصل کاغذات اور رپورٹس پولیس کے حوالے کر دیں تاکہ وہ انہیں کسی بیرونی میڈیا ادارے کے سپرد نہ کر دے۔ اس کے با وجود اس سے اس بات کی ضمانت لی گئی کہ وہ ملک چھوڑ کا باہر نہیں جائے گا اور اگر وہ دہلی سے باہر جانا چاہے تو اسے پولیس سے پیشگی اجا زت لینا ہوگی۔کوٹلہ مبارک پورہ پولیس نے ملی گزٹ کے ایڈیٹر ڈاکٹر ظفر السلام کو بھی اس خبر کے متعلق سیکشن161کے تحت پوچھ گچھ کے لئے بلایا۔ پریس کونسل آف انڈیا نے بھی اس خبر پر سوموٹو کارروائی کرتے ہوئے یہ رپورٹ شائع کرنے کے الزام میں ملی گزٹ کی جواب طلبی کر لی۔ جب ڈاکٹر ظفر السلام نے پولیس، آیوش منسٹری اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو کہا کہ اگر میرے میگزین میں شائع ہونے والی رپورٹ غلط ہے تو پشپ شرما، مجھے اور میرے میگزین کو ہراساں کرنے کے بجائے آپ اس خبر کی تردید کیوں نہیں کرتے تاکہ سب کو پتا چل سکے کہ سچ کیا ہے۔ ملی گزٹ نے پریس کونسل آف انڈیا کے نوٹس کا جواب دیتے ہوئے اپنے اگلے شمارے میں مودی حکومت کو بھی مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ اگر میگزین میں شائع ہونے والی خبر غلط ہے تو وزارت جو بھی بیان جاری کرے گی اسے پہلے صفحے پر شائع کیا جائے گا۔ لیکن آیوش منسٹری اور پریس کونسل آف انڈیا نے اس کا کوئی جواب دینے کی ہمت نہیں کی۔ سینئر تحقیقاتی رپورٹر پشپ شرما کی اس رپورٹ کے مطابق متعلقہ وزارت میں کسی بھی مسلمان کو ملازمت نہیں دی جا رہی؛ حالانکہ کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ہربل ادویات اور آیور ویدک میں اس خطے کے مسلمانوں کو ہمیشہ غلبہ رہا ہے۔ یہ خبر ہر لحاظ سے درست تھی، بلکہ اب تو آیوش منسٹری کے ان افسروں اور اہلکاروںکے خلاف محکمانہ کارروائی کی جا رہی ہے جنہوں نے رائٹ ٹو انفرمیشن کے تحت متعلقہ اخبار کے رپورٹر کو یہ انفارمیشن جاری کی تھی۔
ڈاکٹر ظفرالسلام نے آیوش منسٹری کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آر اور پریس کونسل آف انڈیا کی جانب سے کی گئی سو موٹو کارروائی کو Clear attempts to stifle the freedom of press کے مترادف قرار دیتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی اور کہا کہ آیوش منسٹریکو اس خبر پر اگر کوئی اعتراض تھا تو وہ ملی گزٹ کے سینئر رپورٹر کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے سے پہلے ان سے رابطہ کرتی۔ پریس کونسل آف انڈیا نے بھی مودی سرکار کو اپنی خدمات گنوانے کے لئے عجلت میں سو موٹو ایکشن لے لیا جو کسی طور پر بھی مناسب نہیں۔ ان دونوںکی یکجہتی سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ پریس کونسل آف انڈیا اور نریندر مودی مسلم دشمنی میں ایک ہی ایجنڈے پر ہیں۔ یہ سلسلہ صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ بھارت میں بسنے والی ہر اقلیت کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے۔ جب سے نریندر مودی کی حکومت آئی ہے بھارت میں اس پالیسی پر فخریہ عمل کیا جا رہا ہے۔
Rom Lantos Human Rights Commission کی طرف سے جاری کی گئی رپورٹ میں حقائق کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے کہ ''بھارتی معاشرہ اپنے اندر موجود مذہبی اقلیتوں کو کسی طور قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اقلیتوں کے حقوق تو بہت دور کی بات ہے، ان کا وجود بھی ان کے لئے ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ ان پر اس قسم کی ظلم ڈھائے جاتے ہیں کہ انسانیت کانپ کر رہ جاتی ہے۔ گجرات کے مسلمان مرد، عورتوں اور بچوں کا اجتماعی قتل عام، سکھوں کے خلاف وسیع پیمانے پر فسادات، عیسائیوں، دلت اور دوسری مذہبی اقلیتوں کی نسل کشی کرنے اورکرانے والوں کے لئے سزا تو ایک طرف، یہ لوگ ملکی سیاست پر اپنے انتہا پسندانہ نظریات کی وجہ سے قومی لیڈر بن چکے ہیں۔ نریندر مودی کی مثال سب کے سامنے ہے جسے بحیثیت وزیر اعلیٰ گجرات 2300 سے زائد مسلمانوں کے قتل عام پر امریکی حکومت نے PERSONA NON GRATA قرار دیتے ہوئے امریکہ کا ویزہ دینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ بھارت کا وزیر اعظم بننے کے بعد جب امریکہ کی دعوت پر نریندر مودی امریکہ کے دورے پر جانے لگا تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے بھارت کی سب سے بڑی عدالت نے اس دورے کی راہ ہموار کرنے کے لئے اسے تمام الزامات سے با عزت بری کر دیا۔ بھارتی عدلیہ کے اس فیصلے کی آڑ لیتے ہوئے امریکہ نے ودی کو ویزہ جاری کر دیا جبکہ اس فیصلے کی اصلیت اور مقاصد امریکہ سے پوشیدہ نہیں۔ انٹرنیشنل ڈیموکریسی اور ہیومن رائٹس کمشن کی کرامات دیکھیں کہ اب وہی نریندر مودی امریکہ اور مغرب سمیت این جی اوز اور ان کے سر پرستوں کے لئے ڈارلنگ بن چکا ہے۔