پاکستان اور بھارت‘ ان دنوں مختلف بیرونی طاقتوں کے زیراثر باہمی تنازعات حل کرنے کے لئے غیررسمی بات چیت کر رہے ہیں۔ لیکن ایسے خفیہ رابطوں سے ٹھوس نتائج برآمد نہیں ہوتے۔جب تک متنازع مسائل پر دونوں حکومتیں اپنا اپنا موقف عوام کے سامنے پیش کر کے‘ ان کا اعتماد حاصل نہیں کرتیں‘ کسی سمجھوتے پر عمل نہیں کیا جا سکے گا۔ دونوں ملکوں کے عوام اپنے اپنے تعصبات کے تحت‘ باہمی تنازعات پر اپنے اپنے موقف میں کسی لچک پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ کشمیر کا تنازع اسی وجہ سے حل ہونے میں نہیں آ رہا۔ دونوں حکومتوں نے اپنے عوام کے خوف سے باہمی تنازعات کا حل تلاش کرنے میںہمت اور حوصلے سے کام نہیں لیا۔ دونوں حکومتیں ‘ اپنے اپنے عوام سے ڈرتی ہیں اور جب تک اختیار کئے گئے موقف پر ازسرنوغور نہیں کیا جاتا‘ کسی دیرپا حل پر اتفاق نہیں ہو سکے گا۔ اس کے برعکس تنازعات بڑھتے چلے جائیں گے اور جب آج سے دس برس کے بعد ہم نے ایک بار پھر مفاہمت کا راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کی‘ تو وہ مزید دشوار ہو چکا ہو گا۔ پاکستان کے درمیان اس وقت دشمنی کے جذبات زیادہ پائے جاتے تھے‘ جب سندھ طاس معاہدہ کیا گیا۔ لیکن یہ معاہدہ طویل مدت گزرجانے کے باوجود آج بھی برقرار ہے جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان متعدد جنگیں ہوئیں۔ لیکن یہ معاہدہ قائم رہا۔ ہمیں اسی طرح مفاہمت کے تھوڑے تھوڑے وقفے تلاش کر کے‘ آگے بڑھنے کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ ذیل میں سینئر بھارتی صحافی کلدیپ نیئر کا ایک تازہ مضمون پیش کر رہا ہوں‘ جس میں انہوں نے اپنے طور پر دونوںملکوں کے درمیان مفاہمت کے کچھ راستے ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔ ہمارے دانشوروں کی اکثریت ‘ عوامی تعصبات کے دبائو سے نکلنے کا حوصلہ بہت کم کرتی ہے۔ مناسب یہی ہو گا کہ پاکستان اور بھارت کے دانشور اور سیاسی مفکر‘ باہمی تنازعات کے دبائو سے نکلنے کے لئے عارضی یا دیرپا راہیں تلاش کرتے رہیں اور اسی طرح مفاہمت کے راستے کا ایک ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے‘ مستقل مفاہمت اور امن کی طرف آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ذیل میںمذکورہ مضمون پیش کر رہا ہوں۔ تعصب کی نظر سے دیکھیں‘ تو اس مضمون میں امید کی کرنیں بالکل دکھائی نہیں دیں گی۔ اگر ممکنات پر توجہ دی جائے‘ تو کئی راستے دریافت کئے جا سکتے ہیں۔
''اسلام آباد نے عالمی بینک سے کہا ہے کہ وہ سندھ آبی معاہدے کا احترام کرے‘جس پر 1960ء میں ہندوستان اور پاکستان نے دستخط کئے تھے۔ یہ بات وزیراعظم نریندر مودی کے اس بیان کے جواب میں کہی گئی ہے کہ ہندوستان بہہ کرسمندر میں جانے والے پانی کو استعمال کرنے کے لئے آزاد ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ معاہدے کے مطابق ہندوستان دریائے سندھ کے 20فیصد حصہ سے زیادہ پانی استعمال نہیں کرسکتا۔
عالمی بنک نے اسلام آباد اور نئی دہلی کو کسی نکتہ پر متفق کرنے کے لئے کئی سال محنت کی۔ مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد اس وقت کے وزیراعظم جواہرلعل نہرو اور سابق مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب نے ایک ہی کار میں سفر کیا تھا۔میاں افتخار الدین نے یہ تجویزرکھی کہ کیوں نہ وہ اسی جذبہ کے تحت کشمیر کے بارے میں ایک معاہدے پر دستخط کردیں۔ اس پر دونوں نے خاموشی اختیار کر لی۔ اس وقت افتخارالدین مسلم لیگ کے ایسے ممتاز لیڈر تھے‘ جو کئی سال تک کانگریس میں رہنے کے بعدمسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے۔
اس معاہدے کے مطابق ہندوستان راوی‘بیاس اور ستلج سے پانی لے سکتاہے‘تو پاکستان سندھ اور جہلم کا پانی استعمال کرسکتا ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک یہ محسوس کرتے تھے کہ ان کے علاقے سے ہو کرگزرنے والے پانی کو وہ اپنے استعمال میں لا سکتے ہیں۔ معاہدے کی وجہ سے وہ ایسا کر نہیں رہے تھے۔ دراصل سندھ آبی معاہدہ ‘ پوری دنیا کے لئے ایک مثال ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کی صورتحال پیدا ہوجانے کے بعد بھی دونوں اپنے معاہدے پرقائم رہے۔
مودی کے اس اچانک تبصرے نے پاکستان میں کھلبلی مچا دی اور آبی معاہدے سے متعلق عالمی بینک کو اس کی ذمہ داری یاد دلاتے ہوئے اسلام آباد نے اس سے یہ درخواست کی ہے۔ عالمی بینک کے صدر جم یونگ کم کے نام اپنے مراسلہ میں پاکستانی وزیرخزانہ اسحق ڈار نے کہا ہے کہ معاہدے میں ایسی کسی صورتحال کی شق نہیں دی گئی تھی کہ کوئی فریق اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کو ''موقوف‘‘ کر دے اورعالمی بینک کا یہ رویہ اس معاہدے کے تحت پاکستان کے مفادات اور حقوق کو نقصان پہنچائے گا۔
میرا خیال ہے کہ پاکستان نے اپنے خوف کے اظہار میںمبالغہ سے کام لیا ہے۔ ہندوستان اس معاہدے میں کوئی تبدیلی نہیں چاہتا۔ اپنے ردعمل میں عالمی بینک نے کہا ہے کہ اس نے ہند-پاک آبی تنازع میں اپنی ثالثی موقوف کر دی ہے اور یہ کہ ایسا وہ سندھ آبی تنازع کے تحفظ کے لئے کر رہا ہے۔ ہندوستان بحیرہ عرب میں بے مصرف جانے والے پانی کو روکنے کے لئے کوئی یک طرفہ قدم نہیں اٹھائے گا۔ پھر بھی یہ ایسا معاملہ ہے‘ جس کے بارے میں دونوںملکوں کو باہم بیٹھ کر ایک دوسرا معاہدہ وضع کرنا چاہیے۔ کیونکہ پہلا معاہدہ فرسودہ ہو چکا ہے۔ اس وقت یہ سوچا گیا تھا کہ راجستھان کو دیا گیا پانی‘ ملک کے دیگر حصوں میں بھی کام میں لایا جائے گا‘ کیونکہ یہ صوبہ جو ریگستانی علاقہ ہے ‘ اس قابل ہے نہیں۔ لیکن یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ راجستھان اپنے لئے مقرر کردہ پانی کی مقدار استعمال کر چکا ہے اور مزید پانی چاہتا ہے۔
ایسے میں جبکہ وزیراعظم مودی‘ پاکستان سے اچھے روابطہ کے خواہاں ہیں اور اپنے ہم منصب نوازشریف کو ان کی سالگرہ کی مبارکباد بھی دے چکے ہیں‘ وہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے‘ جو پاکستان کے لئے نقصان دہ ہو۔ یک طرفہ اقدام پر مائل کرنے کے لئے اسلام آباد کی طرف سے کئی اشتعال انگیز باتیں ہوئی ہیں۔ مثلاً۔ اڑی اور پٹھانکوٹ پر حملہ میں کئی شہریوں کی جانیں گئیں۔ بصورت دیگر بھی یہ بات دونوں ملکوں کے مفاد میں ہو گی کہ خطہ میں امن و امان کا بول بالا ہو۔ اس سے دونوں کو فائدہ ہی پہنچے گا۔
دونوںملکوںکے درمیان اختلاف کی جڑمسئلہ کشمیر ہے۔ دونوں طرف کے نمائندوں کو باہمی گفت و شنید سے یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے۔ نوازشریف بلاوجہ پاکستانی ٹیلیویژن چینلوں پر وعظ کر رہے ہیں کہ کشمیر پاکستان کا ہے اور یہ کہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنائے بغیر خطہ میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ ایک ملک کے وزیراعظم کا یہ غیرذمہ دارانہ بیان وادی میں سیاحوں کی تعداد کو اور بھی کم کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان نواز حرییت لیڈر سید شاہ گیلانی کو‘ سیاحوں کو وادی میں بلانے کے لئے نکلے ایک جلوس میں شامل ہونا پڑا۔ ان کا زور اس بات پر تھا کہ یہ پیغام نئی دہلی تک جائے تاکہ وہ کشمیر میں سیاحوں کی واپسی کے اقدامات کرے۔
وادی کے علیحدگی پسندوں کو یہ احساس نہیں ہے کہ سیاچین وادی کو اپنے ملک کا حصہ سمجھتے ہوئے وہاں آئے تھے۔ آزادی کا مطالبہ یا انتشار کے خطرہ نے انہیں خوفزدہ کر دیا ہے۔ انہوں نے ہندوستان کے کسی دیگر پہاڑی مقام کا انتخاب کر لیا‘ جو شاید وادی کی طرح حسین نہ سہی‘بڑی حد تک اس جیسا ضرور ہے۔ اگلے سال اپنا منصوبہ سفر بنانے سے پہلے وہ یہ دیکھنے کے منتظر رہیں گے کہ وادی میں امن بحال ہو گیا ہے یا نہیں۔
کوئی بہتر متبادل ملنے تک کشمیریوں کے لئے بہتر یہی ہو گا کہ وہ موجودہ حیثیت یا صورتحال میں کوئی ردوبدل نہ کریں۔ یہ اس وقت ممکن ہے‘ جب تینوں فریق یعنی ہندوستان‘ پاکستان اور کشمیری عوام گفت و شنیدکے لئے ایک ساتھ بیٹھیں۔ نئی دہلی اس کے لئے تیار نہیں ہے۔ کیونکہ اسلام آباد اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کے تصرف میں نہ دینے کے وعدے سے پھر گیا ہے۔
اس پر اس وقت بھی اتفاق ہوا تھا‘ جب پاکستان جنرل مشرف کے زیراقتدار تھا۔ دورہ آگرہ کے موقع پر اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ ایک معاہدے پر وہ دستخط کرنے والے تھے۔ جب تک یہ خبر افشا ہوتی کہ اس وقت کی وزیراطلاعات سشما سوراج نے معاہدے میں تبدیلی کر کے کشمیر کو اس کے متن سے حذف کر دیا۔ اس کے بعدسے دونوں ملکوں میں دوری بدستور ہے۔ کارگل میں مشرف کی ناکام مہم نے معاملات کومزید بدتر کر دیا۔
واجپائی اس کے لئے قابل تعریف ہیں کہ انہوں نے بذریعہ بس لاہور کے سفر کا آغاز کیا۔ جب انہوں نے نئی دہلی کا وہ ٹیلی گرام دکھایا‘ جس میں کہا گیا تھا کہ جموںمیں کئی ہندوئوں کو قتل کر دیا گیا ‘تو میں بس میں ان کی نشست کے پیچھے ہی بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا مجھے معلوم نہیں کہ میرے لاہورکے سفر کا ملک کے عوام پر کیا ردعمل ہو گا۔ لیکن وہ نوازشریف کے ساتھ روابط استوار کرنے کے لئے پرعزم تھے۔
سندھ آبی معاہدے کی جگہ دوسرا معاہدہ کیا جا سکتا ہے‘ جس کے لئے پاکستان کی رضامندی ضروری ہے۔ جب وہ دریا کے بہائوسے بجلی حاصل کرنے کی اجازت دینے پر آمادہ نہیں تو یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ وہ دریائے سندھ کی ندیوں کے استعمال پر متفق ہو جائے گا۔ حالانکہ ان کا پانی آبپاشی یا پن بجلی پروجیکٹوں کے مصرف میں آئے بغیر بحیرہ عرب میں گر رہا ہے۔
پاکستان میں عام رجحان ہر معاملہ کو مسئلہ کشمیر سے جوڑ دینے کا ہے اور اسے حل ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ سندھ آبی معاہدے پر نظرثانی جس سے دونوں ملک مطمئن ہوں‘ امن کے امکانات کو بڑھائے گی۔ باقی باتیں بعد میں طے ہوتی رہیں گی۔ قابل غور نکتہ یہی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان دوری کو کیسے کم کیا جائے؟‘‘