تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     05-01-2017

بیچارے

سبھی مجبور ہیں‘ سبھی لاچار۔ حاصل خاں بزنجو سے لے کر زہری صاحب‘ انور مجید اور ڈاکٹر عاصم کے دکھوں میں مبتلا آصف علی زرداری سے لے کر عمران خان کے زخم خوردہ وزیراعظم تک۔ قوم ان بیچارگان کی مدد کرے۔ ان مصیبت کے ماروں کی۔
جہاز رانی اور بندرگاہوں کے وفاقی وزیر حاصل بزنجو‘ کل زیادہ لاچار نظر آئے۔ کراچی کے اخبار نویسوں کو انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے ساحلی مقامات پر آبی حیات خاتمے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ''اگر یہی عالم رہا‘‘ انہوں نے کہا: ''تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ ہمارے بچے گھروں میں پالی گئی نمائشی مچھلیاں ہی دیکھ پائیں گے‘‘۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے بارے میں بتایا جس پر 5.8 ملین ڈالر‘ عالمی ادارے نے صرف کئے ہیں۔ یہ انتباہ اسی میں کیا گیا ہے۔ یہ سانحہ کس طرح رونما ہو رہا ہے کہ ایک ملک کے سمندر‘ اپنی اس مخلوق ہی سے محروم ہو جائیں‘ جس کے بغیر نیلے پانیوں کا کبھی کوئی تصور ہی آدمی کے ذہن میں نہ تھا۔ لاکھوں‘ کروڑوں برس سے جو جیتی چلی آئی۔ جس کے خاتمے کی کبھی پیش گوئی نہ تھی۔
دل گیر حاصل بزنجو کا کہنا ہے کہ ماہی گیری میں ایک خاص طرح کے جال برتنے کی بنا پر‘ جو Gill Net کہلاتے ہیں۔ وہ صرف جھینگے اور کھانے کی مچھلیاں ہی نہیں پکڑتے بلکہ وہ ننھی منھی مخلوق بھی جو ان کا کھاجا ہے‘ حتیٰ کہ ان کے انڈے بھی۔ بزنجو صاحب سے پوچھا گیا کہ اگر پابندی لگا دی جائے تو مچھیرے کیا بھوکے نہ مریں گے۔ اس پر وہ اور بھی آزردہ ہوئے اور کہا کہ ان بیچاروں کے پاس ایسے جال کہاں ۔ بڑے پیمانے پر مچھلیاں تو گہرے پانیوں میں پکڑی جاتی ہیں‘ جہاں ان غریبوں کی رسائی ہی نہیں۔ یہ تو دیو ہیکل کشتیوں کے مالکان کا کارنامہ ہے۔ 
بزنجو صاحب نے ٹھیک کہا تھا۔ نسل درنسل سمندر چھاننے والے عام ماہی گیر اس شام احتجاج کرتے دکھائی دیے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ کی عمارت کے سامنے بینر اٹھائے وہ چیخ چلا رہے تھے : ''نامنظور نامنظور‘‘۔ فریاد کا وہی آہنگ جو ملک کے ہر قصبے‘ ہر شہر ‘ہر شاہراہ کا معمول بنتا جا رہا ہے‘ حتیٰ کہ پولیس افسروں کو ڈپٹی کمشنروں سے بچنے کے لئے یہی راگ الاپنا پڑا۔
ستم یہ ہے کہ اس موسم میں بھی شکار جاری رہتا ہے‘ افزائش نسل کے لیے جس میں پابندی لگا دی جاتی ہے۔ ساری دنیا میں اس پابندی پر عمل ہوتا ہے‘ پاکستان میں کیوں نہیں؟ بزنجو صاحب نے بتایا: سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کو ہم نے مطلع کیا ہے‘ ان سے درخواست کی ہے۔
صوبائی حکومتوں کو پہلے سے کیا اطلاع نہ تھی؟ شہروں سے پرے ‘ ساحلوں اور سمندروں میں جینے والے‘ ناخواندہ یا نیم خواندہ مچھیروں کو جو معلومات مہیا تھیں‘ سندھ اور بلوچستان کے با جبروت حکمرانوں تک کیوں نہ پہنچ سکیں۔ نیند کے ماتوں کو جگا کیوں نہ سکے۔ اب ہمارے حاصل بزنجوکی وہ کیوں سنیں گے! 
سندھ اور بلوچستان کے وزراء اعلیٰ کیا کریں گے؟ اتفاقاً ایک فوجی افسر سے آمنا سامنا ہوا۔ ہمارے باوردی آفیسر آج کل تجارتی راہداری کے لیے بہت پرجوش ہیں‘ خاص طور پر بلوچستان اور اس میں گوادر کے بارے میں۔ جادوئی شہر‘ جہاں سے ملک کی معیشت ہی نہیں‘ سلامتی اور تحفظ کے لیے بھی غیب سے سامان ہونے والا ہے۔ گزارش کی کہ آپ کے خواب برحق۔ اخبارات آپ پڑھتے ہیں؟ ٹی وی آپ دیکھتے ہیں؟ گوادر کی سڑکیں برباد ہیں‘ ہسپتال اور سکول بھی۔ حد یہ ہے کہ ملاح کا حقہ خالی ہے۔ پینے کا پانی بھی میسر نہیں ۔ ناشاد ہوئے اور بولے: پانی صاف کرنے کی مشینری عرصہ سے بند پڑی تھی۔ خبر ہوئی تو ہمارے فوجی انجینئر وہاں پہنچے۔ کچھ بہتری اب آ چکی ہے۔
اگر پانی صاف کرنے کی ایک مشین کو حرکت میں لانے کے لیے فوجی مداخلت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر سرکاری محکمے‘ مہینوں تک کئی موسم بیت جانے پر یہ چھوٹا سا بند دروازہ نہیں کھول سکتے تو سمندری قزاقوں کا وہ کیا کریں گے؟ کہا جاتا ہے کہ سمندروں کے ڈاکو‘ صحرائوں‘ جنگلوں اور شہروں کے لوٹ مار کرنے والوں سے زیادہ بے رحم ہوتے ہیں۔
یونان کے قزاق کا قصہ یاد آیا۔ سکندر اعظم سے اس کا مکالمہ جو اقبال نے نظم کر کے لافانی کر دیا ہے۔فاتح نے اس سے کہا:
صلہ تیرا تری شمشیر یا زنجیر ہے میری
کہ تیری رہزنی سے تنگ ہے دریا کی پہنائی 
بے ساختہ اس نے جواب دیا:
سکندر! حیف، تو اس کو جواں مردی سمجھتا ہے
گوارا اس طرح کرتے ہیں‘ ہم چشموں کی رسوائی؟
ترا پیشہ ہے سفاکی، میرا پیشہ ہے سفاکی 
کہ ہم قزاق ہیں دونوں، تو میدانی میں دریائی
بلوچستان میں خزانے کا محکمہ اربوں روپے لوٹ کر لے جاتا ہے۔ وزیر مشیر اور سیکرٹری مل جل کر۔ وزیراعلیٰ کو خبر تک نہیں ہوتی۔ چیف سیکرٹری کو پتا نہیں چلتا۔ صوبے میں ماتم برپا رہتا ہے کہ ارکان اسمبلی کے لیے مختص کی جانے والی رقوم میں سے بہت سی ہڑپ کر لی جاتی ہیں۔ اخبارات اور ٹی وی پر پیہم دہائی کے باوجود وزیر اعلیٰ کیا کر سکے۔ چودہ برس پہلے دارالحکومت کوئٹہ کے چاروں طرف پھیلے‘ پورے بلوچستان کے لیے پولیس کی تربیت اور تنظیم کا فیصلہ ہوا تھا۔ دس ارب روپے اس پر خرچ کر دیئے گئے تھے۔ مقصود یہ کہ قبائلی سرداروں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی لیویز کی وہ جگہ سنبھالے۔ حکومت کو کم از کم جواب دہ تو ہو۔ سردار نہیں مانتے‘ سردار کیا ارکان اسمبلی تسلیم نہیں کرتے۔ وزیراعلیٰ بیچارہ کیا کرے‘ وہ مجبور ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ وزیراعظم تو کجا‘ فواد حسین فواد بھی ان کی نہیں سنتے۔ ملاقات کا وقت ہی عنایت نہیں کرتے۔ گاہے فون بھی نہیں سنتے۔ فائلیں ان کے پاس پڑی رہتی ہیں، انتظار میں وہ سوکھتے رہتے ہیں۔ ان افسروں کی فائلیں‘ صوبے کو جن کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم ان دونوں سے زیادہ دکھی ہیں۔ رواں سال اپنی فتوحات کے جھنڈے انہیں گاڑنا تھے۔ کچھ گاڑ بھی چکے۔ غضب یہ ہوا کہ محاصل سے اب تک کی آمدن 369 ارب اور اخراجات 413 ارب ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری 460 ملین ڈالر کی ہوئی۔ غیر ملکی سرمایہ کار منافع کے 591 ملین ملک سے باہر لے گئے۔ برآمدات 8.7 ارب ڈالر کی ہیں اور درآمدات 17.3 ارب ڈالر۔ 25 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے لینا پڑے۔ ادائیگی صرف 11.95 ارب کی ہو سکی۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے وزیراعظم بجلی سمیت‘ ترقیاتی منصوبوں کے لیے صرف 35 فیصد سرمایہ ہی جاری فرما سکے‘ 800 ارب میں سے صرف 279 ارب۔ دل تو ان کا چاہتا ہے کہ ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں ؎
ایک اک آنکھ میں ہو عیش و فراغت کا سرور
ایک اک جسم پہ ہو اطلس و کم خواب و سمور
کیا کریں کہ ٹیکس دینے والے ٹیکس ہی نہیں دے رہے۔ کہتے ہیں کہ بادشاہ ادا کریں تو وہ بھی کریں۔ بادشاہ سرکاری خزانہ خرچ کیا کرتے ہیں یا اپنی دولت اس میں انڈیلا کرتے ہیں؟ عجیب ناہنجار لوگ۔
اس پر یہ پاناما لیکس کا واویلا۔ عمران خان تو خیر ہے ہی پاگل۔ تندرستی اسے تنگ کرتی ہے مگر یہ سپریم کورٹ کو کیا ہوا۔ اچھی بھلی تھی۔ ازخود نوٹس لینے کی اسے کیا پڑی تھی۔ لے ہی لیا تھا تو چیف جسٹس صاحب نمٹا کر چلے جاتے۔ دوسروں کے لیے کیوں چھوڑ گئے۔ اوّل تو ہم سمجھے کہ اسی میں ہماری بھلائی ہے۔ لوگوں سے ہم نے کہہ دیا کہ طوفان گزر گیا۔ جنرل راحیل شریف سے جان چھوٹی اور اس قضیے سے بھی۔ اب پتا چلا کہ اس سے الٹا نیازی پٹھان کو فائدہ پہنچا۔ کچھ اور کاغذات اس نے مہیا کر دیے۔کل پرسوں سے چیخ رہا ہے کہ اب عدالت جانے اور نوازشریف جانے۔کس بدتمیزی سے میرا نام لیتا ہے۔ 
اور یہ وکیل لوگ! ایک ایک کو آزما کے دیکھ لیا‘ حتیٰ کہ اکرم شیخ کو بھی۔ ظالم تسلی تک نہیں دیتے۔ جھوٹ موٹ کا اطمینان بھی نہیں دلاتے۔ کہتے ہیں کہ کاغذات درکار ہیں۔ ثبوت چاہئیں عدالت کو۔ اس طرح کا سلوک‘ اس سے پہلے تو کبھی ہم سے نہ ہوا تھا۔ بچوں کے لیے الگ الگ وکیل‘ اپنے لیے الگ۔ اس مشرف کے ساتھی‘ اب اسے کیا کہوں اور خود کو کیا کہوں؟ کاش میری مجبوریاں میری قوم سمجھ سکتی۔
سبھی مجبور ہیں‘ سبھی لاچار۔ حاصل خاں بزنجو سے لے کر زہری صاحب‘ انور مجید اور ڈاکٹر عاصم کے دکھوں میں مبتلا آصف علی زرداری سے لے کر عمران خان کے زخم خوردہ وزیراعظم تک۔ قوم ان بیچارگان کی مدد کرے۔ ان مصیبت کے ماروں کی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved