تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     05-01-2017

عمران ‘ہاشمی مباحثہ

2014ء کی دھرنا بغاوت کے حوالے سے جاوید ہاشمی کے تازہ بیانات میں نیا انکشاف کیا تھا؟ دھرنا مہم جوئی سے اختلاف کرتے ہوئے انہوں نے میڈیا سے گفتگو اور پارلیمنٹ میں اپنی آخری تقریر میں بھی (جس میں انہوں نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا اور رخصت ہو گئے) یہی باتیں کی تھیں۔ ایک ہاشمی پر ہی کیا موقوف‘ دھرنے کی پُرجوش اور پُرشور وکالت کرنے والے کالم نویس‘ تبصرہ نگار اور تجزیہ کار بھی ایک اور انداز میں یہی بات کہہ رہے تھے کہ وزیر اعظم نواز شریف کا جانا ٹھہر گیا ہے‘ صبح گیا کہ شام گیا۔ نجی گفتگو میں اس کے لیے وہ اکتوبر میں ریٹائر ہونے والے جرنیلوں اور اُس دور کے ڈی جی آئی ایس آئی کی طرف سے دھرنے کی پشت پناہی کا ذکر کرتے۔ مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے اور نواز شریف حکومت کی ہندوستان/ افغانستان پالیسی کو وہ اس ناراضی کا سبب ٹھہراتے۔ ریٹائرڈ عسکری دانشوروں کا ''استدلال‘‘ بھی یہی ہوتا۔ شیخ رشید دھرنے میں جرنیلوں کے بچوں کی شرکت کا انکشاف کرتے۔ خود خان نے ہفتے کی رات ''امپائر کی انگلی‘‘ اٹھ جانے کی پیش گوئی کر دی تھی۔ ایک ٹاک شو میں احمد رضا قصوری کہہ رہے تھے‘ نواز شریف حکومت بچ سکتی ہے‘ بشرطیکہ وہ فون اٹھائے اور پرویز مشرف کو بتائے کہ اس کے خلاف غداری کا مقدمہ واپس لیا جا رہا ہے۔
اور حقیقت یہ ہے کہ جاوید ہاشمی اُن دنوں بھی جو کچھ کہہ رہے تھے‘ خود عمران خان کے حوالے سے ہی کہہ رہے تھے۔ ان کے بقول‘ تحریک انصاف کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں خان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد ''اپنا جج‘‘ آ رہا ہے‘ وہ نواز شریف کو چلتا کرے گا اور ٹیکنوکریٹس کی حکومت بنا کر 90 روز کے اندر نیا الیکشن کرا دے گا‘ جس میں ''سُنجیاں ہو جان گلیاں‘ وچ مرزا یار پھرے‘‘ کا منظر ہو گا (ویران گلیوں میں ہم ہی ہوں گے) اس سوال پر کہ نیا چیف جسٹس یہ سب کچھ کیسے کرے گا؟ ہاشمی کے بقول‘ خان کندھوں کی طرف (جرنیلوں کے سٹارز) اشارہ کرتے ہوئے کہتا‘ یہ سب کچھ ان کی تائید کے ساتھ ہو گا۔
ہاشمی نے اب بھی یہی باتیں کہی ہیں؛ البتہ قدرے تفصیل کے ساتھ‘ مثلاً اس میں انہوں نے جنرل طارق (تب کور کمانڈر منگلا) کا نام لیا ہے۔ ''اپنے جج‘‘ کے حوالے سے اشارہ واضح تھا (ظاہر ہے‘ یہ چیف جسٹس ناصرالملک تھے) البتہ اب ایک نئی بات انہوں نے یہ کہی ہے کہ خان سے ملاقات میں شاہ محمود قریشی نے بھی کہا تھا کہ پنجاب کی حد تک کوئی دھاندلی نہیں ہوئی۔
تحریک انصاف (اور اس کی صدارت) سے جاوید ہاشمی کی سبکدوشی پر‘ خان سے قربت کے دعویدار ہمارے بعض دوستوں کا کہنا تھا کہ ہاشمی کو عزت راس نہیں آئی۔ تحریک انصاف کی لیڈرشپ میں وہ واحد آدمی تھا‘ خان جس کی عزت کرتا۔ اور اب خان نے اس واحد آدمی کی عزت بھی اس کے ہاتھ میں پکڑا دی ہے۔ عمر کے اس حصے میں ہاشمی کا دماغی توازن درست نہ ہونے کی بات کرتے ہوئے خان نے اس پر ''جھوٹ پلس‘‘ کا الزام بھی لگا دیا‘ جھوٹ سے بڑھ کر جھوٹ... دماغی توازن بگڑنے کا سبب ''عمر کے اس حصے‘‘ کو ٹھہرانے کے جواب میں‘ ہاشمی کا کہنا تھا‘ میں عمر میں اس سے صرف ڈیڑھ سال ہی بڑا ہوں۔ انہوں نے دونوں کے دماغی معائنے کی پیشکش کرتے ہوئے ڈوب ٹیسٹ کی بات بھی کر دی؛ تاہم اگلے روز حامد میر کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ عمران نے خود ان کے سامنے کبھی نشہ نہیں کیا‘ لیکن چونکہ ان کے متعلق یہ بات عام ہے‘ اس لیے انہوں نے ڈوب ٹیسٹ کی بات بھی کر دی تھی۔ (البتہ خواجہ سعد رفیق بہت کھلے اشاروں میں یہ بات کہتے رہتے ہیں) دماغی معائنے کے حوالے سے بزرگ تجزیہ کار ظفر ہلالی کا نکتہ دلچسپ تھا‘ خان نے کرپشن کے خلاف تحریک میں آصف زرداری کی قیادت قبول کرنے کا اعلان کیا ہے‘ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ دماغی معائنے کی ضرورت کسے ہے؟
باقی رہی ''جھوٹ پلس‘‘ کی بات‘ تو ہاشمی کی سیاست سے‘ اس کے سیاسی فیصلوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے‘ لیکن اس کی شہرت ایک جھوٹے سیاستدان کی ہرگز نہیں۔ جھوٹے دعووں اور جھوٹے الزامات میں خان کے سیاسی حلیف (جو نجی حلقوں میں خود کو خان کا اتالیق بھی قرار دیتا ہے) کا مقام و مرتبہ کہیں بڑھ کر ہے۔ اور 35 پنکچروں سے لے کر افتخار چودھری اور خلیل الرحمن رمدے کی سازش تک‘ کتنے ہی الزامات ہیں‘ الیکشن2013ء میں ''دھاندلی‘‘ کے حوالے سے خود خان صبح شام جن کا اعادہ کرتے رہے‘ اور جیوڈیشل کمشن میں ان میں سے کسی کا ثبوت ان کے پاس نہیں تھا۔
''جیوڈیشل مارشل لا‘‘ کے حوالے سے ہاشمی نے 12 اکتوبر 1990ء کو نواز شریف کو پستول دکھا کر‘ وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ لینے کی‘ ایک جرنیل کی(ناکام) کوشش کا ذکر بھی کیا۔ ہاشمی کے بقول‘ یہ بات خود جنرل راشد قریشی نے عمران خان کو بتائی تھی (قارئین راشد قریشی کو بھولے تو نہ ہوں گے‘ پرویز مشرف کا ترجمان‘ جو ''باس کی خوشنودی‘‘ کا ہر طرح سے خیال رکھتا) سرور پیلس جدہ میں کبھی 12 اکتوبر کا ذکر چھڑ جاتا‘ تو میاں صاحب اس شب کا ذکر بھی کرتے‘ جب کال کوٹھڑی میں جنرل محمود‘ اپنے باوردی رفقا کے ساتھ تشریف لائے (12 اکتوبر کی شام بھی جنرل محمود ہی پرائم منسٹر کو حراست میں لینے کے لیے آئے تھے) کال کوٹھڑی میں ''معزول وزیر اعظم‘‘ کو رام کرنے کے لیے جنرل نے ''کیرٹ اینڈ سٹک‘‘ (ترغیب اور خوف) کے دونوں حربے اختیار کئے۔ مشرف کی برطرفی کے آئینی حکم پر جنرل کا کہنا تھا‘ سر! آپ نے یہ کیا کیا؟ اب آپ یوں کریں کہ ان کاغذات پر دستخط کر دیں‘ اس کے بعد آپ بھی آرام میں رہیں اور ہم بھی... پہلا کاغذ‘ مشرف کی برطرفی کا حکم واپس لینے کا تھا۔ دوسرا کاغذ قومی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس تھی اور تیسرا کاغذ وزارتِ عظمیٰ سے استعفے کا تھا۔ وزیر اعظم نے ایک ایک کرکے تینوں کاغذات پر نظر ڈالی اور کہا ‘ اگر میں سائن نہ کروں تو؟ اب جنرل دھمکی پر اتر آیا تھا لیکن وزیر اعظم کوئی اثر قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ آخر انہوں نے تینوں کاغذات سمیٹے اور انہیں میز پر مارتے ہوئے کہا‘ "over my dead body" (میری لاش پر)۔
جنرل محمود 12 اکتوبر کی کارروائی کا اہم ترین کردار تھے۔ تب وہ راولپنڈی کور کے سربراہ تھے‘ فوج کی اہم ترین کور‘ جسے Army within army بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں سے وہ آئی ایس آئی کے سربراہ بنے۔ نائن الیون کے وقت وہ واشنگٹن میں تھے۔ کہا جاتا ہے پاکستان کو پتھر کے دور میں دھکیلنے کی دھمکی رچرڈ آرمٹیج نے انہی کو دی تھی۔ کچھ عرصے بعد ان کی سبکدوشی پر‘ ایک دوست نے مشرف سے کہا‘ ''وہ تو آپ کے دوست تھے‘ 12 اکتوبر کا اہم ترین کردار‘‘... ''مجھے اور لوگوں کو بھی تو ایڈجسٹ کرنا تھا‘‘ ڈکٹیٹر اپنی خود غرضی کو چھپا نہ پایا تھا۔ ... سنا ہے‘ جنرل محمود اب باریش بھی ہو چکے‘ ریٹائرمنٹ کی زندگی میں ان کی ایک اہم مصروفیت تبلیغی جماعت کے چلّے ہیں۔ شادی کی ایک تقریب میں جناب رفیق تارڑ اور جنرل محمود کی ملاقات ہو گئی۔ اس موقع پر دونوں جاٹوں کی دلچسپ گفتگو‘ جناب تارڑ کی امانت ہے۔ وہ اجازت دیں تو ''افادۂ عام‘‘ کے لیے اسے منظر عام پر لے آیا جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved