تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     05-01-2017

سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان سے مولانا تک

بادشاہوں‘ راجوں‘ مہاراجوں کو چھوڑئیے‘ جس شہر کو غالبؔ جیسا ثنا خواں مل جائے‘ طبیعت للچائے گی ضرور۔ ذرا دیکھیں تو ان گلی کوچوں کو جن کے قصیدے پڑھ پڑھ کر غالبؔ ادھ موئے ہوئے جاتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی 1957ء میں بیگم رئیس احمد جعفری کا موقع نکل آیا تھا۔ پاسپورٹ اُس زمانے میں صرف ہندوستان کے لیے بھی بنا کرتے تھے‘ بنوا لیا تھا وہ بھی۔ اچانک اماّں بیمار پڑ گئیں‘ اباّ ویسے بھی نہیں چاہتے تھے میں کہیں جائوں۔ اب جو برسوں کے بعد رئیس امروہوی صاحب نے تحریک کی تو روکنے ٹوکنے والا مجھے میرا ضمیر تھا‘ اور کوئی نہ تھا۔ میں نے توکلّت علی اللہ تعالیٰ ‘دل ‘عشق کے دریا میں ڈال ہی تو دیا۔ میری زندگی‘ عملی زندگی جو محض چودہ برسوں پر مشتمل ہے اس میں تین معجزے سرزد ہو چکے ہیں۔ میں کم ہمت‘ کاہل الوجود کتابی آدمی بلکہ کیڑا۔ لکھنا پڑھنا‘ مشاہیر سے مراسلت اور استفادہ و خوشہ چینی۔ مہینوں گائوں سے شہر دس میل دُور نہ جانے والا ایکا ایکی یاروں خصوصاً اچھو میاں کے بھرّے میں آ کر انتخاب بنیادی جمہوریت میں حصہ لے بیٹھا۔ دستِ غیب کی کرامت دیکھیے‘ بڑے بڑے خرانٹوں کو شکست ہوئی اور چند اچھے دوست ملے۔ اپنے حلقۂ انتخاب سے بلامقابلہ آگے بڑھ کر مجلس کی صدارت پر بھی فروکش کر دیا میرے اللہ نے مجھے۔ صدرِ مجلس مفاہمت منتخب تو ہو گئے اور اصلاح معاشرہ کی اپنی ہمت اور حوصلے کے مطابق کچھ کوشش کرنا بھی چاہی مگر ہمیں صرف پُلیوں اور نالوں کی رقومات کی بندر بانٹ پر لگا دیا گیا۔ یہ تو ہمارے پیشرو سرکاری اہلکار کر ہی رہے تھے۔ ہمیں انتظامیہ کا رُکن شمار کیا جاتا۔ معاشرے میں پھیلنے والی بُرائیوں چوری‘ ڈاکہ‘ اغوائ‘ قتل و غارت گری‘ شراب و شاہد کے فروغ پر قدغن لگانے میں ہمیں دست و بازو بنایا جاتا۔ سرکاری اہلکار ہمیں بادل ناخواستہ مُنہ لگاتے۔ خصوصاً پولیس تھانے کو ہمارا حلیف بنایا جاتا۔ موجودہ شکل میں تو چوتھے درجے کا سپاہی بھی بزعم خود ہمارا حریف ہے۔ دوسرا کمال اسلحے کے اجازت نامے کا حصول اور رائفل کی خریداری۔ تیسری حرکت دَلّی کا سفر۔ دَلّی 
اور ہندوستان کی پہلی صبح طلوع ہوئی۔ اپنے گائوں میں تو دوپہر کو کہیں شہروں بڑے شہروں میں جائو تو آنکھ کھُلتے ہی دھیان اخبار کی طرف جاتا ہے۔ میری آنکھ کبھی دیر سے نہیں‘ صبح سویرے کھل جاتی ہے۔ اخبار والے کا انتظار کرنا پڑا۔ وہ آیا ہندی اور انگریزی اخبارات لٹکائے ہوئے‘ اُردو ندارد‘ میں نے تاکید کر دی کل سے دو تین چار جتنے بھی ممکن ہو سکیں اُردو اخبار لانا۔ ایک انگریزی اخبار رئیس صاحب کے ورو دہلی کی خبر سے خالی خرید بھی لیا۔ انگریزی اخبارات کی جان‘ کہتے ہیں مقالۂ افتتاحیہ ہوتا ہے۔ ہمیں تو رئیس صاحب کے قطعات کی چاٹ لگی ہوئی ہے اور یہ مبالغہ بھی ہرگز نہیں ہے۔ حضرت کے دو مصرعے طویل مقالات افتتاحیہ پر بھاری پڑتے ہیں۔
پچیس برسوں میں پہلا موقع تھا۔ اب تو قطعات کراچی کا کوئی اخبار ملے گا تو پڑھے جائیں گے۔ دو مہینوں کا سفر چونکہ طے ہو چکا تھا‘ یہاں کیا دیر لگتی ہے‘ دو مہینوں کے لیے باون قطعے اور آٹھ ہفتہ وار مضامین ایک ہی سانس میں گھسیٹ کر اپنے مُعتمد کے حوالے کیے تاکہ وہ باقاعدگی سے روزانہ دفتر جنگ میں جاتے اور چھپتے رہیں۔ رئیس صاحب کی قادر الکلامی میں کیسے کلام ہو سکتا ہے‘ یہ تماشے بارہا دیکھ چکا ہوں۔ ضرورت مند آیا اور کھڑے کھڑے سہرا قصیدہ مرثیہ جو چاہا لکھوا کر چلتا بنا۔ سینکڑوں غزلیں جنی اور کُند ذہن شاگردوں کے حوالے ہوتی رہیں۔ ایک سے زیادہ تو ''صاحب دیوان‘‘ ہو گئے۔ انگریزی اخبار پر رئیس اور محمود صاحب سے پہلے اختر فیروز جھپٹے۔ وہاں کچھ ہوتا تو پاتے‘مُنہ لٹکا کر رہ گئے‘ وہ جو ہوا باندھ کر ہم کراچی سے چلے تھے‘ ذرا سی کھسکتی ہوئی نظر آئی۔ شاعرِ پاکستان کے وردد ہندوستان کو کیوں خاطر میں نہیں لایا گیا۔ ان کے بارے دوسرے دن خبر چھپی‘ بلکہ چھپوائی گئی تو اشک شوئی ہوئی۔ میں نے تو اُٹھتے ہی نماز بھی پڑھ ڈالی تھی۔ رئیس صاحب شراب اور رت جگے کے مارے ہوئے ہاتھ مُنہ بھی کہاں دھو پائے تھے۔ یوگا اور سانس کی مشقوں اور چائے سے جی بہلایا۔ ایک اطمینان حضرت کو یہ تھا مزے سے لیٹے ہوئے ہیں‘ کوئی ذمہ داری نہیں۔ ماں...کراچی والے۔ میں اور محمود صاحب ڈاکخانے کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ کالے رنگ کی بھدّی موٹر رکشا جسے دلی والے سکوٹر کہتے ہیں‘ نیچے اُترتے ہی مل گئی تھی‘ ہندوستان ہی کی بنی ہوئی‘ نام ہے بجاج‘ اچھا ہے۔ کمانیاں کام میں لائی گئی ہیں‘ اس لیے بیٹھنے والے اُچھلتے کم ہیں۔ ایک خاص بات داہنی طرف کا ڈنڈا تھا نہ کوئی اُترے نہ سوار ہو سکے‘ یہ ترکیب بہت اچھی ہے۔ موٹروں کے سیلِ رواں سے کُچل جانے کے خدشات باقی نہیں رہتے۔ اشوک مہتہ کے چلانے کا انداز وہی تھا جو ہمارے یہاں ہے‘ تاہم جارحیّت ذرا کم کم۔ وہ ہمیں انگریزوں کی بنائی ہوئی دلی نئی دلی کے معروف خریداری مرکز کناٹ پیلس کے آس پاس اُتار کر چل دئیے۔ پوچھتے پاچھتے ہم دونوں ایک گلی میں ایک چھوٹے سے ڈاکخانے تک پہنچ تو گئے لیکن اسے بند پایا۔ معلوم ہوا یہ مہینے کا آخری ہفتہ ہے اور دو دن کی چھٹی ہے۔ لہذا یہ تو نہیں بڑا ڈاکخانہ کھلا ملے گا۔ اب ہم نے ٹہلنا شروع کیا۔ بازار بند لیکن چہل پہل اچھی خاصی۔ لیجیے ہم آمنے سامنے ایسٹرن کورٹ ویسٹرن کورٹ کے علاقے میں داخل ہو گئے۔ انگریز بہادر کے دور میں ان دونوں عمارتوں میں مجلس قانون ساز کے رُکن قیام فرمایا کرتے تھے۔ اب وہاں کاروباری اداروں کے دفاتر ہیں۔ ڈاک اور تار گھر بھی وہیں قائم ہیں۔ دس بجے یہ ڈاک خانہ کُھلا اور میں نے تیس چالیس روپے کے کارڈ لفافے اور ٹکٹ خریدے۔ ہم چالیس پیسوں کا رونا روتے ہیں وہاں مقامی لفافہ پچاس ساٹھ پیسے کا رائج ہے۔ محمود صاحب نے ایک تار کراچی چلتا کیا۔ سب ہدایات ہندی میں چھپی ہوئیں‘ اس لیے پہلو میں کھڑے ہوئے ایک صاحب سے محمود صاحب نے رہنمائی چاہی تو اُس نے چھوٹتے ہی کہا‘ آپ پاکستانی ہیں‘ وہاں تو فوجی حکومت ہے۔ آپ لوگ فوجیوں سے نجات کیوں نہیں حاصل کر سکے۔ محمود صاحب نے خاصا مسکت جواب دیا۔ بھائی یہ کیا فرمایا آپ نے‘ اگر جنرل ضیاء الحق ناپسندیدہ شخصیت ہوتے تو چھ سال کم نہیں ہوتے‘ ہٹائے جا چکے ہوتے۔ بھٹو صاحب جیسے ذہین و فطین بھی ہماری تاب کہاں لا سکے‘ یہ میں نے اضافہ کر دیا۔ زیادہ بحثنے کا وقت کہاں تھا۔ یہی دو جملے ایک میرا ایک محمود صاحب کا‘ کافی تھے۔ تار گھر میں اونچی اونچی میزیں تاکہ آپ کھڑے کھڑے لکھ سکیں اور کرسیاں بھی بچھی ہوئی تھیں۔ گوند بھی موجود جسے دلی والے بڑی بیدردی سے استعمال نہیں‘ ضائع کر رہے تھے۔ فوجی جھنڈا لہراتی ہوئی ایک موٹر تار گھر کے احاطے میں داخل ہوئی‘ ایک سکھ افسر اُترے اور عمارت میں چلے گئے۔ اکڑفوں نام کو نہ تھی۔ وہ کرنل تھے‘ بریگیڈیئر تھے کیا تھے‘ ڈرائیور سے میں نے پوچھا‘ وہ تو میری بات سمجھ گیا۔ میرے کانوں میں جو رس اُس نے گھولا‘ بہت گاڑھا تھا‘ کانوں میں اُتر ہی نہ سکا۔ بہرحال وہ کوئی بڑا عہدیدار تھا۔ جھنڈا ہر ایک کی کار پر تو نہیں لہرایا کرتا تھا وہ دھان پان ہی۔ کناٹ پیلس ہمارے کراچی کے صدر کی طرح کا ہے‘ کشادہ سڑکیں‘ بڑی بڑی دکانوں کے آگے اُونچے اُونچے برآمدے۔ بہت بڑھیا‘ بے حد شاندار‘ ہمارے صدر سے ذرا نکلتا ہوا۔ خطوں کے ڈول بیرون ملک اور اندرون ملک صوبوں کے لیے الگ الگ لیکن پلندوں (پیکٹس) کے لیے بھی مخصوص کئے گئے تھے۔ اس کا مطلب ہے اگر ہم بصیغہ رجسٹری کوئی چیز نہ بھیجیں تو وہ عام ڈاک سے بھی بخیریت تمام منزلِ مقصود تک پہنچ جاتی ہے۔ معلوم ہوا اپنا کے ڈی اے وہاں بھی ہے۔ کہیں سڑکیں اُکھاڑ کر موٹروں وغیرہ اور کہیں پیدل چلنے والوں کے لیے راستے مسدور کئے جا رہے تھے۔ پتلونیں چڑھی ہوئی‘ لنگوٹ کسے ہوئے‘ مزدور جگہ جگہ کھدائی میں مصروف‘ سفیدیاں بھی ایشیائی کھیلوں کی وجہ سے ہو رہی تھیں اور بجلی کے تاروں میں الجھے ہوئے درختوں کی تراش خراش جاری تھی۔ ٹہنیاں سمیٹنے اور بار برداری کا کام ہاتھیوں سے لیا جا رہا تھا...
بیچارے مولانا
یہ بہت زیادتی ہے کہ پہلے تو زرداری کو رام کرنے کا ٹاسک دیا گیا اور اس میں ناکام رہنے پر موصوف کو کوئی معاوضہ بھی نہیں دیا جا رہا۔ آخر مولانا نے کوشش تو پُوری کی ہو گی۔ اُوپر سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم مولانا کا بوجھ مزید نہیں اُٹھا سکتے۔ وزیراعظم سے ملاقات کے بعد بھی حکومت کی طرف سے یہی اعلان کیا گیا کہ موصوف کے مطالبات اتنے زیادہ اور اتنے بڑے تھے کہ حکومت کو اُن پر ہنسی آ گئی۔ ہنسی تو جناب آنا ہی تھی‘ زرداری صاحب اپنے آپ ہی نرم جو ہو گئے تھے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مولانا کو صاف ہی جواب دے دیا جائے۔ آخر ضمیر کی بھی کوئی قیمت ہوتی ہے کیونکہ مولانا نے بعض اوقات نہ چاہتے ہوئے بھی حکومت کا ساتھ دیا ہے جبکہ مولانا تو کشتیاں جلا کر حکومت کے ساتھ آئے تھے۔ کم از کم اُن کشتیوں کے پیسے ہی اُنہیں دے دیئے جاتے کیونکہ وہ کہیں اور اب جا بھی نہیں سکتے۔ یہ سلوک صریحاً ظالمانہ ہے۔!
آ ج کامطلع
یہاں کسی کو بھی کچھ حسبِ آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نے ملے اور ہم کو تُو نہ ملا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved