دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ ہمارا کوئی متفقہ بیانیہ یعنی (Narrative) ہونا چاہیے۔ جس میں وضاحت ہو کہ ہم بحیثیت قوم اور ملت کیا چاہتے ہیں اور اُس کے لیے ہمارا کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے۔ بہت سے اہلِ علم نے اس سمت میں کوششیں بھی کی ہیں لیکن تاحال کچھ حاصل نہیں ہو سکا۔ مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ (Narrative) کو آپ نے سوچ سمجھ کر بنا لیا مگر جن کے لیے بنایا گیا ہے کیا وہ اسے سمجھ بھی سکتے ہیں یا نہیں۔
کسی بھی بیانیے کے عوام میں پذیرائی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ عوام میں اپنی تاریخ کا صحیح شعور موجود ہو۔ اُن کو تعلیمی نظام کے ذریعے بچپن ہی سے اپنی تاریخ اس انداز میں پڑھائی جائے کہ اُن کو میٹرک تک پہنچتے پہنچتے یہ پوری طرح معلوم ہو جائے کہ دنیا میں مسلمان پیچھے کیوں رہ گئے ہیں۔
ہم کیوں اپنے بچوں کو یہ نہیں بتاتے کہ مسلمان معاشرہ بیسویں صدی کے آغاز تک اس قدر زوال کا شکار تھا کہ قائم نہیں رہ سکتا تھا۔ لہٰذا یورپی اقوام نے مسلمانوں کی برائے نام خلافت بھی ختم کر دی۔ جن مسلمانوں کی خلافت ختم ہوئی یہ وہی لوگ تھے جن کے آباؤ اجداد سے یورپی اقوام مسلسل خوفزدہ رہیں۔ لیکن یورپی اقوام نے علوم و فنون کا سہارا لیا اور مسلمانوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ علامہ اقبال کو مسلمانوں کے پیچھے رہ جانے کا بہت افسوس تھا اور انہوں نے مسلمانوں کو اپنی کمزوریوں کا علاج کرنے کے لیے نسخہ تجویز کیا تھا کہ مذہب کے حوالے سے مسلمانوں میں جو ایک جامد سی کیفیت پائی جاتی ہے وہ مذہبی فکر (Thought) کی تشکیل نو سے ختم کی جا سکتی ہے۔ یہ تشکیل نو کرے کون۔ مسلمان ملکوں میں یا تو ملوکیت جیسا نظام موجود ہے یا ملائیت کا نظام قائم کرنے کی کوششیں دکھائی دیتی ہیں یا ایرانی تجربہ ہے جو ماضی میں یورپ میں پاپائے روم کی حکومت کے نظام کے زیادہ قریب دکھائی دیتا ہے۔ مغربی اقوام، جو کہ مسلمان تہذیب کی دشمن ہیں، انہوں نے مسلمان ملکوں کو جمہوریت کی طرف راغب کرنا اس انداز میں شروع کیا ہوا ہے کہ جو جمہوریت اُن کی بات مانے وہ ٹھیک باقی سب غلط۔
ہمیں اپنے بچوں کو بڑی تفصیل سے مغربی اقوام کی تاریخ پڑھانی چاہیے کہ اِن اقوام نے کس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے پوری دنیا کو اپنا غلام بنایا۔ پھر اپنے بچوں کو یہ بھی پڑھانا چاہیے کہ مسلمانوں نے کس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی سے منہ موڑا اور زوال پذیر ہوتے گئے۔
جب ہمارے بچوں کو یہ سمجھ آئے گی کہ آج کل ترقی کرنے کا ہتھیار کلاشنکوف نہیں ہے بلکہ ٹیکنالوجی کے میدان میں نت نئی دریافتیں کرنا ہے تو پھر یہ بیانیہ اُن کی سمجھ میں آئے گا کہ بطور مسلمان ہم کس طرح آگے بڑھ سکتے ہیں۔ جو مذہبی تعلیم ہم اپنے بچوں کو دیتے ہیں اس میں کیوں حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے انہیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ مذہبی جوش و جذبے کی مدد سے آپ اپنے سے دوگنا طاقت والے دشمن پر تو ختم پا سکتے ہیں مگر جب دشمن کی طاقت آپ سے دس ہزار گنا زیادہ ہو تو پھر پہلے آپ کو اپنی طاقت بڑھانی چاہیے۔
آپ دیکھیں کہ سلطنت عثمانیہ کے دور میں اس کا ایک سلیم نامی بادشاہ ازحد عیاش تھا۔ اس کی فوجوں کا مقابلہ جب اُن ایرانی فوجیوں سے ہوا جن میں بڑی تعداد آذر بائیجان کے قزلباش سپاہیوں کی تھی تو جذبے کے اعتبار سے عثمانی فوجیں، قزلباشوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھیں۔ مگر عثمانیوں کے پاس توپیں تھیں‘ لہٰذا قزلباش فوجیوں کو شکست ہو گئی۔ اگر عثمانیوں کے پاس توپیں نہ ہوتیں تو پوری سلطنت عثمانیہ، ایران ہی کا حصہ بن گئی ہوتی۔
اسی طرح اگر ظہیر الدین بابر کے پاس توپیں نہ ہوتیں تو برصغیر کی تاریخ مختلف ہوتی ۔یہ حقیقتیں ہمارے بچوں کو سمجھائی نہیں جاتیں۔ علامہ اقبال نے اتنا کچھ لکھا ہے فارسی، اُردو اور انگریزی میں۔ اتنے واضح پیغامات دیے ہیں۔ گرے دے کہ ہمیں اُن کا جو شعر پسند آتا ہے وہ یہ ہے ؎
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
مجھے نہیں معلوم کہ علامہ نے کس کیفیت میں یہ شعر کہا اور اس کے ذریعے کیا پیغام دینا چاہتے تھے مگر اُن کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہو سکتا جو اکثر سمجھا جاتا ہے۔ یعنی محض قوت ایمانی سے اسلحے کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
کائنات میں سب سے بڑے مومن ہمارے نبیﷺ تھے۔ جتنے غزوات ہوئے اُن سب میں انہوں نے تیغ کا استعمال کیا۔ کہیں انہوں نے بے تیغ لڑنے کا نہیں کہا۔ خداوند کریم نے بھی قرآن پاک میں اپنے آپ کو دفاعی طور پر مضبوط رکھنے اور اپنی تیاری ایسی رکھنے کا کہا ہے کہ دشمن رعب میں رہے۔ آج کل دشمن کو راغب میں رکھنے کے لیے سب سے پہلے آپ کی معیشت مضبوط ہونی چاہیے۔
ہمیں چاہیے کہ اپنے بچوں کو شروع ہی سے یہ بات سمجھائیں کہ مغربی دنیا مسلمانوں کی تہذیب سے خوفزدہ ہو کر کس طرح اُن کو مزید شکنجوں میں کس رہی ہے۔ علامہ اقبال نے مغربی تہذیب کے بارے میں کہا تھا کہ یہ اپنے خنجر سے آپ خودکشی کرے گی۔ بچوں کو بتانا چاہیے کہ ابھی مغرب کی خودکشی کا موقع تو نہیں آیا۔ ہاں البتہ مغرب ہمیں ہمارے ہی خنجر سے خودکشی کروانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ جہاد کا پاک صاف نظریہ مسلمانوں کا صدیوں تک ایسا خنجر رہا ہے کہ اقوام عالم پر مسلمان راج کرتے رہے ہیں۔ اب مغرب ہمارے اسی خنجر سے ہمیں خودکشی کروا رہا ہے۔ مسلمان ملکوں میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر اس نظر سے ضرور غور کریں کہ جہاد کے نام پر خون خرابہ کرنیوالے مسلمان جتھوں کو یا تو امریکہ مدد پہنچاتا ہے یا اپنے زیرِ اثر مسلمان ملکوں کے مطلق العنان سربراہوں سے یہ کام لے رہا ہے۔
تاریخ کے اسباق ہمارے سامنے ہیں۔ یورپ نے تین صدیوں تک مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگیں کرنے کے بعد نتیجہ نکالا کہ یورپ اور اس کا نظام اُن کے مسئلے کا حل نہیں ہے۔ لہٰذا یورپ احیائے علوم کی طرف آیا اور چند صدیوں میں دنیا پر چھا گیا۔ ہمارے بچوں کو شروع ہی میں معلوم ہو جانا چاہیے کہ اس وقت دنیا میں جیسی پالیسیاں چین اور جاپان کی ہیں ویسی ہی مسلمان ملکوں کی بھی ہونی چاہئیں۔ اُن کو یہ بھی پتہ ہونا چاہیے کہ مسلمان ملکوں میں خون خرابہ ہو نہیں رہا کرایا جا رہا ہے۔ لہٰذا اس سے گریز کرنا ہی ہمارے حق میں ہے ۔ ہمارے بچے میٹرک تک جب یہ سب سمجھ چکے ہوں گے تو پھر شاید اُن کو کسی بیانیے کی ضرورت ہی نہ رہے۔
٭٭٭