تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     05-01-2017

مولانا بمقابلہ عمران خان

کوہاٹ کے ایک جلسہ عام میں مولانا فضل الرحمن نے عمران خان کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے اور ان کے دادا، اپنے اور ان کے والد اور خود کا ان سے مقابلہ و موازنہ کر لیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ کون اورکس کا خاندان اعلیٰ و برترہے۔ درحقیقت ان دونوں کا تو ایک دوسرے سے مقابلہ بنتا ہی نہیں۔ ایک جانب ایک خاص مکتب فکر سے تعلق رکھنے والا عالم دین اور دوسری جانب ہر قسم کے مسلک اورمکتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کا لیڈر؟۔ کہاں ایک مسلک کے قابل احترام دینی مدرسے کا فارغ التحصیل اور کہاں مغربی تہذیب اور پولیٹیکل سائنس میں برطانیہ کی آکسفورڈ جیسی یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ ؟۔ کہاں دارلعلوم دیو بند ہند سے منسلک سیا سی تربیت گاہ سے مستفید ہونے والے مولانا کا خاندان اور کہاں کرکٹ جیسے انگریزی کھیل اور ایچی سن سکول کی رسم و رواج کا رسیا؟۔ کہاں پاکستان بھر میں جگہ جگہ پھیلی ہوئی مساجد اور مدرسوں کا نگران اور کہاں صرف شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کا خالق؟۔ غرض مولانا فضل الرحمن سے عمران خان کا مقابلہ کسی صورت بنتا ہی نہیں کیونکہ ایک جانب دیوبند ہند سے سند یافتہ خاندان ہے تو دوسری جانب انگریزی تعلیمی اداروں کے دنیاوی علوم سے مستفید ہونے والا لبرل قسم کا خاندان،البتہ ان دونوں میں اگر کوئی فرق ہے تو صرف اتنا کہ مولانا فضل الرحمن کے والد گرامی حضرت مولانا مفتی محمود نے بڑے فخر سے اقرار کیا تھا '' خدا کا شکر ہے کہ وہ پاکستان بنانے والوں کے گناہ میں شامل نہیں رہے‘‘ جبکہ ان
کے مقابلے میں عمران خان کے والد گرامی اور ان کے خاندان کے افراد حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی زیر صدارت منٹو پارک( اقبال پارک) میں مسلم لیگ کے زیر انتظام قرار داد پاکستان کے نام سے ہونے والے جلسہ عام میں شریک تھے جہاں وہ لاکھوں کی تعداد میں جمع دوسرے لوگوں کے ساتھ ہم آواز ہو کر ''لے کر رہیں گے پاکستان اور بٹ کر رہے گا ہندوستان‘‘ کے فلک شگاف نعرے لگا نے والوں کا اعزاز حاصل کر رہے تھے۔عمران خان کا وزیرستان میں ننھیال تحریک پاکستان میں مسلم لیگ کے ساتھ تھا تو مولانا کا خاندان کانگریس کی حمایت میں مسلم لیگ کے خلاف تھا۔۔۔عمران کا خاندان سرحد میں ہونے والے ریفرنڈم میں پاکستان کی حمایت میں ووٹ ڈال رہا تھا تو مولانا کا خاندان خان عبد الغفار خان کے ساتھ مل کر کانگریس کی حمایت کر رہا تھا تاکہ صوبہ سرحد کا الحاق پاکستان کی بجائے ہندوستان سے ہو جائے۔۔۔بس اتنا '' معمولی سا‘‘ فرق ہے ورنہ کہاں بیچارہ عمران خان اور کہاں حضرت مولانا فضل الرحمن جیسے جید عالم دین؟۔ عمران خان اگر اپنا مقابلہ مولانا فضل الرحمن سے کرنا بھی چاہیں تو کسی طور بھی نہیں کر سکتے کہاں وہ اور کہاں مولانا ۔۔۔۔مسلم لیگ نواز کے ایم اپی اے انعام اﷲ خان نیازی راوی ہیں کہ وہ زماں پارک میں عمران خان
کے گھر میں موجود تھے اور اس وقت پاکستان کے سب سے طاقتور فوجی حکمران جنرل ضیاالحق بار بار عمران خان کو فون کر رہے تھے اور عمران ان کا فون سننے سے احتراز کئے جا رہا تھا اور میں جنرل ضیا الحق کے ملٹری سیکرٹری سے ہر بار یہی کہتا رہا کہ وہ واش روم میں ہیں اور یہ کہتے ہوئے مجھے فخربھی محسوس ہوتا تھا کہ ملک کا سب سے با اختیار شخص اس کے چچا زاد بھائی سے عمران خان سے فون پر بات کرنے کیلئے بے تاب ہے اور میرے بھائی کو کوئی پروا ہی نہیں ۔۔۔۔جبکہ دوسری جانب مولانا فضل الرحمن نے آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف تو بہت دور کی بات ہے کبھی اسحاق ڈار اورمرحوم میجر جنرل ضمیر کے فون سننے میںایک سیکنڈ کی بھی دیر نہیں کی۔اب دیکھئے کہ میاں
نواز شریف کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ اور ان کے ساتھیوں کو وزارتیں تقسیم کرنے والا جنرل ضیاالحق اور کہاں آصف علی زرداری اور اسحاق ڈار؟۔کہاں د س سالوں سے حکومت پاکستان کی سب سے اہم ترین کشمیر کمیٹی کے چیئر مین کے منصب اعلیٰ پر فائز ہستی اور کہاں ایک بے ترتیب تحریک انصاف جیسی سیا سی جماعت کا چیئرمین؟۔ اب اگر کشمیر کی بات کی جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ ایک نہایت ہی معمولی سا فرق ان دونوں خاندانوں میں ہو گا مثلاً۔۔۔ 1948ء میں کشمیر میں لڑی جانے والی جنگ میں عمران خان کا وزیرستان میں ننھیال حضرت قائد اعظم اور جنرل اکبر خان کی قیا دت میں سری نگر پہنچ کر کشمیری بھائیوں کی ہندو اور ڈوگرہ فوج کے خلاف مدد کرنے کیلئے پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کی سعادت حاصل کر چکا ہے۔۔۔بس ا س کے علا وہ عمران خان کے خاندان کے حساب کتاب میں کوئی بھی چیزحضرت مولانا فضل الرحمان کے مقابلے میں نہیں؟۔جب سے حضرت کی کوہاٹ والی یہ تقریر سامنے آئی ہے حضرت مولانا فضل الرحمن کے مریدین اور معتقدین کہہ رہے ہیں کہ جوش خطابت میں خود کو عمران خان جیسے ایک عام سے شخص کے مقابلے میں لا کر انہوں نے دانستہ یا نا دانستہ طورپر وزیر اعظم کوخوش کرنے کی خاطر اپنے دینی منصب اور رتبے کو گہنانے کی کوشش کی ہے ۔ 
عمران خان اور مولانا فضل الرحمن میں ایک تھوڑی سی قدر بھی مشترک ہے کہ دونوں اکتوبر1999ء میں میاں محمد نواز شریف کو
اقتدار کے ایوانوں سے باہر نکالنے والے جنرل پرویز مشرف کے حامی اور مدد گار رہے ہیں ۔۔۔لیکن یہاں پر بھی عمران خان مولانا سے شکست کھا جاتے ہیں کیونکہ وہ جنرل مشرف کے ساتھ صرف اور صرف ایک سال تک ہی رہے جبکہ ان کے مقابلہ میں مولانا فضل الرحمن کو یہ سعادت نصیب ہے کہ وہ ایم ایم اے کی صورت میں دس سال تک جنرل مشرف کا بھر پور ساتھ دیتے رہے جس دوران کے پی کے میںان کے اکرم خان درانی پانچ سال تک وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز رہے اور مولانا کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ ان کے ہی دور میں صوبہ سرحدکے پی کی اسمبلی میں کالا باغ ڈیم کے خلاف متفقہ قرار داد بھی منظور ہو ئی تھی۔ جس میں خیر سے پی پی پی اور مسلم لیگ نواز کے لوگ بھی شامل تھے ۔جب جنرل مشرف کے خلاف تحریک چلائی جا رہی تھی تو اس وقت مولانا اور ان کے ساتھیوں کے مقابلے میں اس تحریک میں شامل عمران خان کوجنرل مشرف کے حکم خاص پر اسلام آباد سے گرفتار کر کے ڈیرہ غازی خان کی بد بو دار جیل میں پھینک دیا گیا تھا۔۔۔بس یہ معمولی سا فرق ہے ورنہ کہاں بے چارہ عمران خان اور اس کا خاندان اور کہاں حضرت مولانا فضل الرحمن کا جید اور دیندار خاندان؟۔ ویسے ڈرتے ڈرتے مولانا سے ایک چھوٹی سی بات کی وضاحت چاہوں گا'' کیا یہ درست نہیں ہے کہ اﷲ کے نزدیک عربی اور عجمی کے طور پر نہیں بلکہ اس کے اعمال کی بنیاد پر پوچھ گچھ ہو گی؟۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved