یہ مت دیکھئے کہ عمران خان اپوزیشن کا لیڈر ہے‘ لیڈر بہت سے ہوتے ہیں۔ جتنے عزم و استقلال اور یکسوئی سے عمران خان نے وزیراعظم ‘ میاں نوازشریف کے خلاف نقاب کشائی کی مہم چلارکھی ہے‘ اس کی مثال ہمارے ہر شہر‘ ہر گائوں اور ہر قصبے میں دکھائی دیتی ہے۔کہیں کوئی سر پھرا نوجوان‘ سماجی طاقتوں سے ٹکر لے کر ‘اپنی جان گنوا بیٹھتا ہے اور کہیں اسلام آباد کی طیبہ‘ معاشرے کے سب سے طاقتور طبقے کا ظلم و ستم برداشت کرتے ہوئے زندہ رہنے کا جہاد جاری رکھتی ہے۔ ایک دن اس کی سنی جاتی ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان‘ جسٹس ثاقب نثار کو اس معصوم بچی پر ڈھائے گئے مظالم کے بارے میں علم ہوتا ہے تو بلاتاخیر از خود نوٹس لیتے ہوئے اس کو انصاف دینے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔اس بچی پر جو گزری اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔اس کی تصویر دیکھ کر ہی ساری دردناک کہانی سامنے آجاتی ہے۔ اس کی چیخیں بھی سنائی دیتی ہیں۔ اس کے زخموں کا درد بھی سارے جسم میں کانٹوں کی طرح چبھنے لگتا ہے۔اس کے جلے ہوئے ہاتھوں کا درد بھی ہمیں اپنے ہاتھوں کے اندر کراہتا محسوس ہوتا ہے۔ صدیوں سے جبر و ظلم کے سہارے کھڑا یہ معاشرہ‘ ہر وقت کمزوروں کی تاک میں رہتا ہے اور اکثر اپنا شکار ڈھونڈ کر انسانیت کشی کو کچلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔بہت کم ایسے سر پھرے ہوتے ہیں جو ظلم سے ٹکر لے کر اس کا شکار کھیلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔جب آمر ضیا الحق نے پی ٹی وی پر کام کرنے والی خواتین کو کیمر ے کے سامنے ڈوپٹے اوڑھنے کا حکم دیا تو ایک سرپھری خاتون نے جو محکمہ تعلیم کی اعلیٰ افسر بھی تھیں‘ اپنی دوہری ملازمت یعنی سرکاری نوکری اور بطور ٹی وی آرٹسٹ کی پروا کئے بغیر‘ ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ ردعمل میں گزرے ہوئے ڈکٹیٹر کا سرگھوم گیا کہ ایک معمولی سی خاتون نے (پاکستان کے ہر حکمران کے نزدیک ہر خاتون معمولی ہوتی ہے) آمریت کے غرور کو پارہ پارہ کر کے پھینک دیا۔اسے حکم ملا تھا کہ وہ ڈوپٹہ اوڑھ کر کیمرے کے سامنے آئے۔ عام زندگی میں وہ ایسا ہی کرتی تھی لیکن جابرانہ حکم کے جواب میں‘ وہ کیمرے کے سامنے آنے سے قبل ڈوپٹہ اتار کے رکھ دیتی تھیں۔ ظاہر ہے آمرانہ غیظ و غضب کو للکارا۔اس پرہر طرح کا دبائو ڈالا۔ اس کی ملازمت بھی خطرے میں آگئی۔ ایک دن آمر خود ہی ریزہ ریزہ ہو کر فضائوں میں بکھر گیا لیکن صنف نازک کی یہ بہادر خاتون اپنے موقف پر ڈٹی رہی۔
ہر معاشرے میں ایسے سر پھرے اور باغی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں۔سیاسی کارکن مظلوموں کے حقوق کی خاطر بے شمار قربانیاں دیتے آئے ہیں۔ اکثر کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔حسن ناصر پر فوجی آمریت نے ایسا بھیانک تشدد کیا کہ وہ جانبر نہ ہو سکا لیکن اس نے جھکنے سے انکار کر دیا۔ مجھے گوجرانوالہ کا وہ حافظ قرآن یاد آرہا ہے جسے گستاخ رسولؐ کا نام دے کر‘ ہجوم نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ اسے گلیوں میں گھسیٹا۔ پتھر مارے۔ یہاں تک کہ وہ تشدد کے ہاتھوں دم توڑ گیا۔ بعد میں جب حقیقت سامنے آئی تو پتہ چلا کہ وہ شخص حافظ قرآن تھا۔ کسی نے ذاتی دشمنی میں اس پر گستاخ رسولؐ کا الزام لگایا۔ عقل کے اندھے شہری اس الزا م پر وحشت کا شکار ہوئے اور انہوں نے ''ملزم‘‘ کو گلیوںمیں گھسیٹ کر تشدد کر کے مارڈالا۔ راز کھلا تو حقیقت اس کے برعکس تھی۔گوجرانوالہ کے شہریوں کو یہ ''سانحہ‘‘ابھی تک یاد ہو گا۔
پاکستان میں ظالم اور مظلوم کی جنگ کئی عنوانوں سے چلی آ رہی ہے۔ان گنت مظلوم مختلف عنوانوں سے ظلم و جبر کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ حال میں اسلام آباد کی طیبہ نے بھی اسی ظلم کے ہاتھوں اذیت برداشت کی۔ اگر پاکستان کے نیک دل چیف جسٹس‘ جسٹس ثاقب نثار اس کی مدد کو نہ آتے تو اس کے ظالم مالکان نے بے بس بچی پر ایسے ایسے مظالم ڈھائے کہ انسانیت بھی کانپ اٹھی ہو گی‘ عوام کو کیسے پتہ چلتا؟۔ لیکن وہ خاندان جو ہمارے ظلم کی مشینری میںڈھل کردرندگی کی لپیٹ میں آچکا تھا‘ اسے انسانیت کا ذرا بھی احساس نہ رہا اوراس بچی کو مسلسل تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ پاکستان کا دارالحکومت جسے ہمارے حکمرانوں نے ''اسلام کی محبت‘‘ میں اسلام آباد کا نام دیا تھا ‘ اس میں جو کچھ ہوا۔ وہ کم از کم اسلام آباد میں نہیں کیا جا سکتا تھا۔لیکن ہوا۔ اس شہر کے حکمرانوں نے اس مظلوم بچی کی مدد کے لئے جو کچھ کیا‘ وہ محض گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے والی بات تھی۔
میں نے ظلم کے خلاف لڑنے والے بیشتر مظلوموں کے حوالے دئیے ہیں۔ یہ سب کے سب ایک ہی مشن پر تھے۔ ان کی جدو جہد ایک ہی طاقت کے خلاف تھی اور ہے۔میں عمران خان کو بھی ایسے ہی مجاہدین میں شمار کرتا ہوں۔ دیکھنا یہ نہیں کہ عمران نے حاصل کیا کیا؟ دیکھنا یہ ہے کہ عمران نے ظلم کے خلاف لڑنے والے دوسرے جانبازوں کی طرح ‘کس طرح بے جگری سے طاقت کا مقابلہ کیا اور کر رہا ہے۔عمران کرکٹ میں بھی ہیرو تھا۔ سیاسی جدوجہد میں بھی ہیرو ہے۔ اور ہیرو ناکام نہیں ہوا کرتے۔حسن ناصر نے موت کو گلے لگا کر بھی ظالموں کو شکست دی۔ بھگت سنگھ پھانسی کے پھند ے میں جھول کر بھی امر ہو گیا۔ذوالفقار علی بھٹو بھی صدیوں سے پسے ہوئے عوام کی زنجیریں توڑنے کے لئے میدان میں اترا اور پھانسی پر چڑھ گیا لیکن ہمیشہ کے لئے امر ہو گیا۔ بھٹو کو قبر میں اتارنے والے بھی آج تک اس کے خوف سے لرز رہے ہیں۔ بے شک وہ اس گمان میں ہیں کہ انہوں نے بھٹو کو شکست دے دی لیکن شہید مرا نہیں کرتے۔ان دنوں عمران خان ایک ڈرائونا خواب بن کر حکمرانوں کی نیندیں حرام کر رہا ہے۔ ان کے پالتو کوے عمران کو ہر چوٹ لگنے پر کائیں کائیں کرتے ہوئے‘ ناچتے ہیں لیکن ابھی تک اسے شکست دینے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ہم تماشا دیکھنے والے کم ہمت لوگ ‘صرف تماشائی ہیں لیکن ایسے تماشائی جو مظلوموںکی آواز بلند کرنے والے کی فتح دیکھنے کے آرزو مند ہیں۔کاش تاریخ کے اس تماشے میں شریف خاندان کا کردار مختلف ہوتا۔