نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پچھلا ہفتہ فلوریڈا میں واقع مارالاگو نامی اپنی شاندار اور وسیع و عریض اقامت گاہ میں گزارا۔ بہت سے ایسے مسائل ہیں جو انہیں اس وقت درپیش ہیں اور ان کے دردِ سر میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ امریکہ سے روسی اہلکارو ں کو ہیکنگ اور جاسوسی کے الزامات میں باہر نکالا جا رہا ہے۔ روس اس پہ سیخ پا تو ضرور ہوا ہے؛ تاہم روسی صدر ولادی میر پیوٹن امریکی صدر بارک اوباما سے زیادہ ہوشیاری کا ثبوت دے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ امریکی اہلکاروں کو روس سے نہیں نکالیں گے۔ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کا انتظار کر رہے ہیں کہ جب وہ امریکی باگ ڈور سنبھال لیں گے تو پھر حالات کا جائزہ لے کر وہ کچھ فیصلہ کریں گے۔ اقوامِ متحدہ میں اسرائیلی آبادکاری کے خلاف دیا گیا ووٹ ایک اور بڑا مسئلہ ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور صدر بارک اوباما جاتے جاتے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو پہ آخری وار کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا اقوامِ متحدہ کے بارے میں تبصرہ یہ ہے کہ یہ ادارہ مؤثر ہو سکتا ہے لیکن اسے غلط طریق پہ استعمال کیا جا رہا ہے اور یہ وسائل اور وقت کا ضیاع ہے۔ برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے بھی امریکی وزیر خارجہ پہ نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں کسی بھی ملک اور اس کے جمہوری طور پر منتخب شدہ لیڈروں کو لیکچر دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سب کچھ بڑا ہی گنجلک ہو گیا ہے۔ امریکہ میں اقتدار کی منتقلی کا عمل ہمیشہ بڑا ہی ہموار رہا ہے‘ لیکن آج کل ایسا لگ رہا ہے کہ یہ چوہے بلی کا کھیل بن گیا ہے۔ صدر اوباما کی میعاد میں صرف دو ہفتے باقی بچے ہیں تو یہ سب کچھ ابھی ہی کیوں ہو رہا ہے؟ کیا اس کا مقصد یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے مسائل کے حل کے لئے راستے محدود تر کر دیے جائیں تاکہ انہیں پھر شرمندگی اٹھانی پڑے؟ روسی جاسوسوں کا پتہ تو عرصہ پہلے لگایا جا چکا تھا۔ انہیں امریکہ بدر کرنے کا یہ وقت کیوں چنا گیا؟ اوباما نے یہی وقت کریملن پہ چڑھائی کے لئے مناسب کیوں سمجھا ہے؟ اس ساری کارروائی کا سبب در اصل کچھ اور ہے۔ اسی طرح اقوامِ متحدہ میں اسرائیلی آباد کاری کے خلاف دیا جانے والا ووٹ پہلا موقع ہے جب امریکہ نے اسرائیل کا ساتھ نہیں دیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ امریکہ نے کچھ غلط کیا ہے‘ لیکن اس کی بدولت ڈونلڈ ٹرمپ مجبور ہوئے کہ وہ ٹویٹر پہ آ کے اسرائیل کو تسلی دیں کہ وہ ہمت نہ ہارے کیونکہ بیس جنوری کچھ زیادہ دور نہیں! ڈونلڈ ٹرمپ اپنے لئے خود اپنے ہی ہاتھوں سے ایک گڑھا کھود رہے ہیں۔ نیویارک ٹائمز میں ہال ہی میں ایک خبر چھپی ہے جس کے مطابق امریکی یہودیوں کی اکثریت اسرائیلی آباد کاری اور دو قومی ریاست کی تخلیق کے حق میں نہیں۔ اس پیچیدہ معاملے میں ڈونلڈ ٹرمپ بالکل ایک کونے میں گھسٹ گئے ہیں۔ فلسطینی بھی کوئی خاموش بیٹھ کر نیتن یاہو کی گیدڑ بھبکیاں نہیں سہتے رہیں گے۔ حالات اس نہج پہ پہنچ کر امریکہ اسرائیل اور روس کے درمیان ایک بار پھر سرد جنگ آغا زکر سکتے ہیں۔ کسی بھی بیرونی حکومت کے لئے یہ انتہائی غلط بات ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے اندر جمہوری عمل پہ کسی طرح اثر انداز ہونے کی کوشش کرے یا جیسا کہ اس معاملے میں کہا جا رہا ہے کہ روس نے کمپیوٹرز ہیک کرکے ڈونلڈ ٹرمپ کو جیت دلوانے میں مدد دی ہے؛ تاہم امریکہ میں انٹیلی جنس والوں کو چاہئے تھا کہ یہ معاملہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حلف اٹھانے تک راز ہی رہنے دیتے۔ ڈونلڈ ٹرمپ پیوٹن کے بڑے ہی مداح ہیں، تو جس شخص کے وہ اس قدر مداح ہیں‘ اسے ہیکنگ کے معاملے میں وہ قابل تعزیر گردانتے؟ بطورِ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو یوں کنویں اور کھائی کے بیچ گھرے دیکھنا شاید بڑا ہی لطف انگیز ہوتا۔ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کے سفارتی تدبر کی پہلی آزمائش ہوتی۔ اس سے امریکیوں اور دنیا بھر کو بھی معلوم ہو جاتا کہ وہ بین الاقوامی امور نمٹانے میں کس قدر نااہل ہیں۔ یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ پیوٹن سے زیادہ چالاکی کا مظاہرہ کرکے سبھی کو حیران کر دیتے! خیر، بیس جنوری سن دو ہزار سترہ کو امریکی باگ ڈور ایک اور ری پبلکن صدر کے ہاتھ آ جائے گی۔ نئے صدر کو خود اپنی ہی جماعت میں کوئی زیادہ مقبولیت حاصل نہیں اور انہیں اکثریتی ووٹ بھی نہیں ملا۔ پھر بھی سبھی کی نظریں نئے صدر پہ جمی ہیں جن کا وعدہ ہے کہ وہ میکسیکو کی سرحد پہ ایک بڑی دیوار تعمیر کریں گے، گیارہ ملین کی تعداد میں ہسپانوی نسل کے جن افراد کو دستاویزی حیثیت حاصل نہیں ہوئی انہیں واپس اپنے اپنے ملک بھجوا دیں گے، ملازمتوں کے مواقع تخلیق کریں گے، داعش کا خاتمہ کریں گے، روس کو پیچھے دھکیل کر اسرائیل نیتن یاہو اور پوری دنیا کے ساتھ تمام معاملات طے کریں گے، اوباما کیئر منسوخ کر دیں گے اور امریکہ میں پہلے سے رہنے والے مسلمانوں کے لئے ایک رجسٹری قائم کرنے کے ساتھ ساتھ 1.7 ملین مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پہ پابندی لگا دیں گے۔ امریکی صدر کا عہدہ ایک بڑا ہی طاقت ور عہدہ ہوتا ہے؛ تاہم طاقت کے ساتھ ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں۔ امریکی عہدہء صدارت کی طاقت اپنے ساتھ تنہائی بھی لے کر آتی ہے۔ اس عہدے پہ متمکن ہونے والا فیصلہ نہیں کر پاتا کہ کس پہ وہ بھروسہ اور اعتماد کر سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ بلندیوں پہ تنہائیاں ہوتی ہیں اور ماہِ رواں کی بیس تاریخ کو جو شخص امریکی صدر بننے جا رہا ہے اس سے زیادہ تنہا کوئی بھی نہیں۔ ٹویٹر پہ آئے دن لفظی جنگوں میں ملوث ہونے کی بجائے بہتر ہو گا کہ یہ صاحب ان چند دنوں میں کچھ آرام کر لیں۔ پاکستان میں بھی شاید ایک نیا طوفان آیا ہی چاہتا ہے۔ سپریم کورٹ میں پاناما گیٹ کا معاملہ ایک بار پھر زیر غور لایا جا رہا ہے۔ گزشتہ سال اپریل میں یہ قضیہ شروع ہوا‘ اور اب سننے میں آ رہا ہے کہ نئے چیف جسٹس ثاقب نثار جلد از جلد اس معاملے کو نمٹانا چاہتے ہیں۔ یہ معاملہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے تینوں بچوں کی بیرون ملک جائیدادوں اور بینک کھاتوں سے متعلق ہے۔ ٹیکس چوری ایک ایسا جرم ہے جو انسان کو جیل پہنچا سکتا ہے۔ پاناما معاملے کی تحقیقات کرنے والوں کو چاہئے کہ وزیر اعظم کے تینوں بچوں سمیت جو دو سو پاکستانی ٹیکس چوری میں ملوث ہیں ان کی بھی چھان بین کریں۔ ظاہر ہے کہ ان کے یہ لاکھوں کروڑوں روپے کوئی پر لگا کر تو بیرون ملک نہیں پہنچے اور ایسا بھی نہیں کہ ان کا یہ پیسہ کہیں درختوں پہ اُگا ہو۔ کہیں نہ کہیں سے تو یہ لیا گیا ہے، کہیں نہ کہیں تو وہ ذریعہ ہو گا ہی جہاں سے یہ کمایا گیا۔ کیا یہ بیرون ممالک پاکستان سے گیا ہے؟ کیا یہ پیسہ پاکستان میں کمایا گیا تھا؟ یہ معاملہ کچھ زیادہ ہی طوالت کا شکار ہو گیا ہے اور ہمیں خدشہ یہ ہے کہ اس پیسے کی موجودگی کے ثبوت ہی کہیں تحلیل نہ ہو چکے ہوں۔ پچھلے سال کی مثال ہی دیکھئے کہ جب پاناما دستاویزات کے افشا ہونے کے فوری بعد معائنہء قلب کے بہانے وزیر اعظم صاحب لندن پہنچے تو بعد میں ان کی ایسی تصاویر سامنے آئیں‘ جن میں و ہ مہنگی مہنگی دکانوں میں بیش قیمت گھڑیاں دیکھ رہے تھے۔ شاید اپنی کچھ دولت ایسی مہنگی مہنگی چیزیں خریدنے میں لگا کر اپنا کھاتا صاف دکھانے کے لئے حساب کتاب میں کچھ توازن لانا چاہتے تھے۔ بہرحال، فتحمندی کے باوجود بے خوابی در بہشت نواز شریف اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں کا ہی مقدر محسوس ہوتی ہے۔