تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     06-01-2017

نظامِ عدل

نئے چیف جسٹس آف پاکستان، جنہوں نے 2017ء کے آغاز سے اپنے منصب اور فرائض کا آغاز کیا ہے، ملک کے نظامِ انصاف پر عمیق نظر اور تنقیدی رائے رکھتے ہیں۔ انصاف کے حصول‘ اور انصاف کی فراہمی کے راستے میں موجود تمام رکاوٹوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ وہ تمام عدالتوں سے گزر کر عدالتِ عظمیٰ تک پہنچے‘ اور اب پاکستان کے نظامِ عدل کے سب سے بڑے عہدے پر فائز ہیں۔ ہمارے ہاں اشخاص پر گفتگو زیادہ ہوتی ہے اور اداروں کو درپیش مسائل پر کم۔ اگر ادارے کام نہیں کر رہے تو ان کو فعال بنانے کے لیے اصلاحات ضروری ہوتی ہیں۔ ہم کتنے ہی قابل جج کیوں نہ لے آئیں‘ نظامِ انصاف میں ضروری اصلاحات کے بغیر وہ بھی نتائج نہیں دے پائیں گے۔ ججوں کا انتخاب تو آج کل آئین کے تحت عدلیہ کے پاس ہی ہے اور پارلیمنٹ یا حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ جتنے کیس نمٹائے جاتے ہیں اس سے کئی زیادہ ہر سال ہر سطح پر لیے جاتے ہیں۔ اس طرح تمام عدالتوں کی کارکردگی ہر سال بہتر ہونے کے باوجود کیسز کے التوا کے مجموعی اعداد و شمار کے لحاظ سے منفی ہوتی جاتی ہے۔ حصولِ انصاف کتنا مہنگا ہے اور کیسز کیوں جلدی ختم نہیں ہوتے‘ اس کی بڑی ذمہ داری عدلیہ کی بجائے وکلا پر عائد ہوتی ہے۔ انصاف کی فراہمی کی راہ میں بطور رکاوٹ نظام کے فرسودہ ہونے کے علاوہ وکلا کے رویے کا بھی بہت عمل دخل ہے۔ تاریخیں لینے کا علاوہ معاملات کو الجھانے اور تیاری نہ کرنے سے لے کر جھگڑوں میں اپنے موکلوں کو الجھائے رکھنے تک وہ ہر جگہ کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ رقم حاصل کی جا سکے۔ جو لوگ وکالت کے پیشے میں آ رہے ہیں‘ ایک تو ان کی تعداد خاصی زیادہ ہے اور اس پر مستزاد تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کی کمی۔ ہر عدالت میں بے شمار کیسز اور اس سے زیادہ وکلا اور موکل ہوتے ہیں۔ دلخراش مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
نظامِ عدل میں کس طرح کی اصلاحات درکار ہیں‘ جن سے یہ صورتحال بہتر ہو سکے؟ ہر سال ہم لمبی لمبی تقریریں سنتے ہیں کہ یہ پہلے سے بہتر ہو گیا ہے‘ اور بعد میں آنے والے دنوں میں یہ مزید بہتر ہو جائے گا‘ مگر حقیقت میں صورتحال اس کے برعکس جا رہی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں پچاس کے قریب ججز کے باوجود کیسز التوا کا شکار ہیں‘ اور یہ صورت حال ہر ہائی کورٹ میں ہے۔ ماتحت عدالتوں کا تو حال ہی نہ پوچھیے۔ لوگ انصاف کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں اور ججز باوجود کوشش کے روزانہ کی کاز لسٹ کا دس فیصد بھی نہیں دیکھ پاتے۔ ارجنٹ کیس کے بعد ریگولر کیسز کے لیے وقت بہت مشکل سے بچتا ہے‘ اور اس میں بھی adjournment اور وکلا کی غیر حاضری یا تیاری نہ ہونے کے بہانے بنائے جاتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ میں البتہ کم کیسز کی وجہ سے تمام کام روزانہ کی بنیاد پر ہو جاتا ہے۔ مگر مجموعی ڈسپوزل کے مقابلے میں نئے کیسز زیادہ فائل ہونے کی وجہ سے ہر سال زیر التوا مقدمات کی تعداد پہلے کی نسبت زیادہ ہی رہتی ہے۔
ہمارے ہاں ریاستی اداروں، حکومتِ وقت اور افراد کے درمیان قانونی جھگڑوں کا لامتناہی سلسلہ کئی سالوں سے جاری
ہے۔ نئے سے نئے قوانین اور ان کا غلط استعمال۔ مروجہ قوانین پر یا تو عمل درآمد نہیں یا ناجائز طور پر غاصبوں کو فائدہ۔ ٹیکس کے قوانین کی مثال لے لیں۔ ان پر کیا عمل ہو رہا ہے؟ ساری آبادی میں قابل ٹیکس افراد کا دس فیصد ریٹرن دیتے ہیں اور نوے فیصد کو کوئی نہیں پوچھتا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ٹیکس وصول کرنے والوں کو خوش رکھتے ہوں۔ جو دس فیصد ریٹرن دیتے ہیں ان میں سے جو ''خوش‘‘ نہیں رکھتے ان سے ایسا سلوک کیا جاتا ہے کہ وہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں کہ انہوں نے گوشوارے کیوں ادا کیے۔ کوئی ٹیکس حکام کے اس رویے کو روکنے کو تیار نہیں۔ زیادہ تر کیسز میں یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ حکومتی وسائل کا معاملہ ہے۔ مظلوم ٹیکس گزار کی بات نہیں سنی جاتی۔ کیسز میں یہ ثابت ہونے کے باوجود کہ اصل قصور ٹیکس حکام کا تھا‘ ان کو کوئی سزا تجویز نہیں کی جاتی۔
ٹیکس کے معاملات تو خراب ہیں ہی‘ آپ ذرا دیکھیے کہ پچھلے دنوں کتنے لوگوں کو پھانسی کی سزا کے بیس سال یا اس کے بعد رہائی ملی۔ اس میں کئی تو اﷲ کو پیارے بھی ہو چکے تھے۔ اگر انصاف کی فراہمی اس کو کہتے ہیں تو پھر ہمارا نظام کیا ہے۔ کیا اس کو نظام کہنا بھی چاہیے جس میں جائیداد کی ملکیت کے جھگڑے کئی نسلوں کے گزر جانے کے بعد ہوتے ہیں۔ فیملی کورٹس سے لے کر ریونیو کورٹس تک ہر جگہ زیر التوا کیسز کی بھرمار اور ہر طرف بے چینی اور نظام پر بے اعتمادی اور استحصال کے نئے نئے راستے بذریعہ قوانین جنہیں عوام سمجھ ہی نہیں سکتے۔
ان حالات میں نئے چیف جسٹس آف پاکستان کو اپنے دو سالہ دور میں ٹھوس بنیادوں پر اصلاحات کرنا ہوں گی۔ اصلاحات کے لیے کئی قابل لوگ موجود ہیں۔ مرحلہ وار تجاویز اور ان پر عمل درآمد کی کمیٹیوں کے ذریعے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ حکومتوں کو ہر سال حصول انصاف کے لئے ذرائع دینا ہوں گے اور عدلیہ کو اصلاح کرنا ہو گی کیونکہ ہمارا معاشرہ انصاف نہ ہونے کا نمونہ بن چکا ہے۔ چونکہ پاکستان میں طاقتور طبقے قانون کی دھجیاں اڑاتے ہیں‘ قانونی بالادستی ہمارا وتیرہ نہیں‘ اس لئے بحیثیت معاشرہ ہم زوال پذیر ہیں۔ عدل کا بہترین نظام جمہوریت کی بھی شرط اول ہے۔ اگر ہم انصاف پر مبنی معاشرہ قائم نہیںکریں گے تو جمہوریت کے ثمرات کبھی حاصل نہیں کر پائیں گے۔ امید ہے کہ نئے چیف جسٹس ان معروضات کو زیر غور لائیں گے اور اصلاحات کا آغاز جلد از جلد کریں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved