مفتی طفیل گوئندی سرگودھا کے نامور وکیل ‘ مسلم لیگ کے رہنما اور تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن تھے۔ مفتی صاحب بتایا کرتے تھے کہ انیس سو چھیالیس میں جب سرگودھا کے نوجوان ' لے کے رہیں گے پاکستان اور بٹ کے رہے گا ہندوستان ‘ کے نعرے لگاتے سرگودھا کی سڑکوں پر آتے تو شہر میں متعین مسلمان اسسٹنٹ کمشنر‘ پولیس کے ذریعے ان نوجوانوں کو پہلے تو سڑکوں پر پٹواتا اور پھر جو ہاتھ آجاتے انہیں کچہری کے احاطے میں لے جاکر تشدد کا نشانہ بناتا۔ اسے پاکستان کے تصور سے ہی اتنی نفرت تھی کہ سرگودھا کا ہر وہ شخص جو مسلم لیگ سے وابستہ تھا اس کے عتاب کا نشانہ بنتا رہتا۔ شہر کے مسلمان نوجوان سوچا کرتے تھے کہ پاکستان بننے کے بعد مسلمانوں کی حکومت جن چند مسلمان افسروں کو سب سے پہلے ان کے عہدے سے ہٹائے گی ان میں سے ایک یہ اسسٹنٹ کمشنر بھی ہوگا۔ خیر پاکستان بن گیا تو سرگودھا کے مسلم لیگیوں نے اپنی اعلیٰ قیادت کو اس کانگریسی افسر کے بارے میں تحریری شکایات روانہ کیں اور انتظار کرنے لگے کہ کب اس کی برطرفی کا پروانہ آتا ہے۔ ان شکایات کے جواب میں حکومت کی طرف سے جو پیغام آیا وہ یہ تھا کہ اسسٹنٹ کمشنر موصوف کو ترقی دے کر ڈپٹی کمشنر بنا دیا گیا اور وہ ایک بار پھر پولیس کا ڈنڈا لے کر مسلم لیگ کارکنوں کے درپے ہوگیا۔وہ شخص جس کے ظلم وستم سے ہر شخص تنگ آیا ہوا تھا، مزید تین سال ضلعے کا حکمران بن کر لوگوں کے سینے پر مونگ دلتا رہا اور بعد میں اعلیٰ ترین سرکاری عہدوں تک پہنچ کا ریٹائر ہوا۔
سرگودھا کے اسسٹنٹ کمشنر کی کہانی معمولی فرق کے ساتھ پورے پاکستان کی کہانی ہے۔ وہ تمام افسر جو پاکستان بننے سے ایک دن
پہلے تک تاجدارِ برطانیہ کے وفادار تھے‘ اگلے روز نئی اسلامی فلاحی مملکت کے قیام کے لیے جو ت دیے گئے۔ ہمارے بزرگوں نے یہ فیصلہ کرتے ہوئے اتنا بھی نہ سوچا کہ ان افسروں کو تو تربیت ہی مقامی لوگوں کو خوئے غلامی میں پختہ کرنے کی دی گئی ہے، ایک آزاد نظریاتی ریاست میں اپنے شہریوں کے ساتھ سلوک کے بارے میں تو انہیں کچھ پتا ہی نہیں۔ اس فیصلے کے جو نتائج ہوئے وہ ہم سب کے سامنے ہیں۔ انگریز سے پائی افسر شاہی مکھی پر مکھی مارتی رہی اور یہی تربیت نئے آنے والوں کو دیتی رہی۔افسر شاہی نے بڑے منظم انداز میںیہ پروپیگنڈا بھی کیا کہ مقابلے کا امتحان پاس کرنے والے افسر غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں جبکہ سیاستدان کمتر درجے کے لوگ ہیں جو ان سے کام ہی نہیں لے سکتے۔ یہ پروپیگنڈا اس تواتر اور جانفشانی سے کیا گیا کہ ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت بھی افسر شاہی کے مقابلے میں احساسِ کمتری کا شکار ہوگئی۔ روزِ اوّل سے آج تک پاکستان میں جتنی بھی سیاسی حکومتیں آئیں ان کے سربراہوں نے اپنے وزراء سے بھی زیادہ ان افسروں پر اعتماد کیا اور منہ کی کھائی۔ ان افسروں کی رعونت نے ملک توڑا، ملک کے پسماندہ علاقوں میں نفرت پیدا کی ، ہر مارشل لاء کے سامنے یہ لوگ حالت رکوع میں چلے گئے اور ہر ادارہ اپنی نام نہاد انتظامی صلاحیتوں کے بھینٹ چڑھا دیا۔ ملک میں جب بھی بلدیاتی اداروں کی صورت میں جمہوری روح پھونکنے کی بات ہوئی تو انہی لوگوں کی ریشہ دوانیوں سے یہ کوششیں ناکام ہوئی۔ افسوس ، ہزار بار افسوس کہ انہیں ہر دور میں کوئی نہ کوئی شہباز شریف میسر رہا جو ان
کی خوشامد اور رنگ برنگی پریزینٹیشن سے متاثر ہوکر ان کے مفادات کا محافظ بنا رہا اور بلدیاتی اداروں کو قتل کرتا رہا۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے مخالف اور بیوروکریسی کے ڈی ایم جی افسروں کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔ دو ہزار آٹھ میں اقتدار سنبھالتے ہی بلدیاتی اداروں پر چڑھ دوڑے۔ ان کی مبینہ کرپشن کے خلاف بڑے بڑے اشتہار دیے ، ان کے ترقیاتی فنڈز روک دیے اور اس وقت چین لیا جب یہ ادارے مکمل طور پر ختم نہ کرلیے، یہ الگ بات ہے کہ آٹھ سالوں میں موصوف ایک دھیلے کی کرپشن ان اداروں میں ثابت نہ کرپائے۔اس کے بعد نئے بلدیاتی انتخابات کا تقاضا ہونے لگا تو اس وقت تک ٹالتے رہے جب تک سپریم کورٹ نے مجبور نہ کردیا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرنے سے پہلے صوبائی اتھارٹیاں بنا کر تعلیم، صحت اور دیگر خدمات کی فراہمی اپنے اختیار میں کرلی اور نہایت کم اختیارات کے حامل بلدیاتی ادارے بنا کر انتخابات کرادیے۔ اسی پر بس نہیں کی ایں و آں کرکے بلدیاتی اداروں کی تشکیل کا معاملہ ایک سال تک لٹکائے رکھا۔ جب وزیراعظم نواز شریف نے ان اداروں کی تکمیل کے لیے دباؤ ڈالا تواپنے ہی بنائے ہوئے قانون کو سول ایڈمنسٹریشن آرڈیننس جاری کرکے اس طرح توڑ مروڑ دیا کہ جو تھوڑا بہت اختیار بلدیاتی اداروں کوحاصل ہوا تھا ، وہ ذاتی وفادار ڈپٹی کمشنروں کے سپرد کردیا۔ اس آرڈیننس کی روح یہ ہے کہ جب بھی ڈپٹی کمشنر یا اس سے نچلے درجے کا کوئی سرکاری گماشتہ کسی بھی بلدیاتی ادارے کے سربراہ کو اپنے دفتر بلائے تو اسے ریکارڈ سمیت حاضر ہوکر صاحب بہادر کو اطمینان دلانا ہوگا کہ و ہ خوئے غلامی میں پختہ ہوچکا ہے۔ اگر کوئی منتخب نمائندہ ایسا نہ کر سکا تو عوامی فلاح وبہبود کا جوکوئی کام بھی وہ کررہا ہے اس کے لیے سرمائے کی فراہمی بند کردی جائے گی ۔ سازش کی طرح خاموشی سے بنائے گئے اس قانون کے ذریعے بلدیاتی اداروں کے ساتھ ساتھ پولیس کو بھی ڈپٹی کمشنر کا دربان بنانا مقصود تھا۔ ہمارے افسر پسند وزیراعلیٰ کچھ دُم ہلاتے ہوئے دمدار ستاروں کے جھرمٹ میں بیٹھ کر اس کی منظوری بھی دے چکے تھے لیکن پولیس والوں نے صاف لفظوں میں وزیراعلیٰ کو بتا دیا کہ موجودہ پولیس اتنی تذلیل برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی اس لیے وہ کسی نئی پولیس کا بندوبست کرلیں۔ اس احتجاج پر پولیس تو بیوروکریسی کی اس خطرناک سازش سے نکل گئی مگر بلدیاتی ادارے پھنس کر رہ گئے۔
پاکستان اور پاکستانیوں کی بدقسمتی ہے کہ یہاں بلدیاتی اداروں کی مخالفت آمریت میں نہیں ہوتی بلکہ جمہوریت میں ہوتی ہے۔ستم ظریفی ہے کہ دنیا بھر میں جمہوریت کی روح سمجھے جانے والے ادارے پاکستان میں فوجی آمروں نے ہی مضبوط کیے ہیں۔ جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے بتدریج بلدیاتی نظام کو بہتر بنایا اوربلا شبہ جنرل مشرف کا دیا ہوا نظام تو دنیا بھر میں سراہا گیا،جو صرف دس سال چلا اور ملک کی بیشتر بستیوں کی حالت بدل گئی۔ کراچی سے لے کر پشاور تک بلدیاتی نمائندوں نے اپنے اپنے حلقوںمیں اتنے ترقیاتی کام کیے پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہ ہوئے تھے۔ جیسے ہی جنرل پرویز مشرف نے سیاستدانوں کو وفاق اور صوبے میں حکومتیں بنانے کا موقع دیا تو انہوں نے سب سے پہلے بلدیاتی اداروں کو کمزور کیا اور جب مکمل جمہوریت آئی تو ان اداروں کی تباہی بھی مکمل ہوگئی۔جنرل پرویز مشرف کے بعدپاکستان میں واقعی عوام کو اختیار دینے والا کوئی بلدیاتی نظام بنا ہے تو خیبر پختونخوا میں عمران خان کی رہنمائی میں تحریک انصاف نے بنایا ہے۔ جنوبی ایشیا میں پہلی بار اس نظام کے تحت خیبرپختونخوا کے بلدیاتی نمائندوں کو یہ حق دیا گیا ہے کہ اگر وہ اپنے علاقے میں کسی صوبائی سرکاری ادارے کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تو براہ راست اس کی شکایت اوپر تک پہنچا سکتے ہیں۔ان نمائندوں کے اختیار کی وجہ سے ہی خیبر پختونخوا کے سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی حاضری بہتر ہوئی، ہسپتالوں کا عملہ وقت پر آنے لگا حتٰی کہ پولیس والوں کا رویہ بھی ٹھیک ہوگیا۔ اس نظام نے کوہستان کے برف پوش پہاڑ سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان تک صوبے کے باسیوں کو اتنا خودمختار اور باوسیلہ بنا دیا ہے کہ وہ بغیر کسی مدد کے اپنے اپنے علاقوں میںنئے پاکستان کی تعمیر کررہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں پنجاب والے ہیں جن کا وزیراعلیٰ انہیں سو سال پرانے نظام‘ ڈپٹی کمشنر کی غلامی میں دینا چاہتا ہے۔