تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     07-01-2017

تو کیا؟

یہ وہ ریاستی مشینری ہے‘ جس نے ذوالفقار علی بھٹو جیسے مقبول ترین لیڈر کو پھانسی دے کر ہضم کر لیا۔ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ میاں نواز شریف واحد سیاسی لیڈر ہیں جو آمرِ مطلق‘ ضیاالحق کے حلیف تھے اور عین ایسے وقت پر جب بھٹو صاحب کے حامی انتہائی طیش کی حالت میں تھے‘ اور خلقِ خدا کی اکثریت‘ ضیاالحق اور اس کے کارندوں سے ٹکر لینے پر تلی ہوئی تھی۔ مجھے وہ زمانے یاد ہیں جب بپھرے ہوئے عوام سے ٹکر لینا جناتی ہمت اور حوصلے کا کام تھا۔ سیاست میں دلچسپی لینے والے لوگوں کو اچھی طرح یاد ہو گا کہ نواز شریف واحد سیاست دان تھے‘ جنہوں نے عوام کے اندر جا کر ضیاالحق کی حمایت کا حوصلہ کیا۔ وہ لاہور‘ لائل پور اور کئی دیگر شہروں میں تھوڑے سے لوگوں کے جلوس لے کر میدان میں اترتے رہے۔ جو عوامی مزاج کے رمز شناس تھے‘ سب کہہ رہے تھے کہ نواز شریف دیوانگی سے کام لے رہا ہے‘ لیکن وہ اپنی دھن میں مگن‘ عوام کے جنونی جذبوں سے ٹکرا رہا تھا اور سچ کہوں تو جان پر کھیلنے کے لئے تلا ہوا تھا۔ اسے آپ دلیری اور جرات مندی نہ مانیں تو آپ کی مرضی لیکن بپھرے ہوئے عوامی طوفان کے سامنے کھڑے ہو جانا ہمت اور حوصلے کا کام ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ نواز شریف نے عوامی جوش و جذبے سے ٹکرانے کا جو حوصلہ کیا‘ بلاشبہ ایسا دائو تھا جس کا تکا لگ گیا اور لگتا چلا گیا۔ غیر مقبول سیاسی مقاصد کے ساتھ بپھرے ہوئے عوام کے سامنے کھڑے ہونا آسان کام نہیں تھا۔ یہ کام یا کوئی نوآموز سیاسی لیڈر کر سکتا ہے یا عقل و ہوش سے رخ موڑ کر‘ شدتِ جذبات کی طوفانی لہروں پر سوار ہو کر بلا خوف و خطر مخالف قوتوں کی یلغار کو للکارنے کا حوصلہ رکھنے والا کوئی مردِ ناداں۔
اگر آپ میاں نواز شریف کی سیاسی زندگی کا جائزہ لیں تو قدم قدم پر ایسے مواقع یاد آئیں گے‘ جب بظاہر عوامی طاقتیں ایک طرف تھیں تو نواز شریف ان کے مقابل ڈٹ کر کھڑے ہوئے تھے۔ نواز شریف میں تاجرانہ ذہانت اور حوصلے کی خداداد صلاحیتیں پائی جاتی ہیں۔ ان کی سیاست‘ طاقت کے اصل جوہر سے کام لینے کی ہنرمندی پر چلتی آرہی ہے اور آج بھی چل رہی ہے۔ اگر آپ قومی زندگی کے المناک واقعات کا تجزیہ کریں تو کامیابی کا ایک ہی نکتہ نظر آتا ہے اور وہ ہے ریاستی طاقت کا بے رحمانہ استعمال۔ بدنصیبی سے جن جذباتی لہروں کی لپیٹ میں آ کر ہمارے عوام نے انقلابی راہوں پر چلنے کی کوشش کی‘ جلد ہی انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ میں یہ باتیں عوامی جذبات کو نظر انداز کرتے ہوئے لکھ رہا ہوں‘ لیکن میں نے اپنے وطن میں مختلف طاقتوں کے ٹکرائو کے جو مناظر دیکھے ہیں‘ وہ درد ناک ہیں اور تکلیف دہ بھی۔ جس طرح قائد اعظمؒ نے حصولِ پاکستان کے عظیم مقصد میں کامیاب ہونے کے بعد‘ بے بسی سے جان دی‘ اسے فراموش کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ اور قائدؒ کے بعد‘ ان کے دست راست‘ نوابزادہ لیاقت علی خان کا جامِ شہادت نوش کرنا اور بھی زیادہ تکلیف دہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کی روایتی زور آزمائی میں‘ لیاقت علی خان بے حد جرأت مند اور بہادر سیاست دان تھے۔ بھارت نے جب اپنی ریاستی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ ہماری سرحدوں پر پہلی مرتبہ فوجوں کا اجتماع کیا تو نوابزادہ لیاقت علی خان نے مکا لہرا کر عوام کے جذبات کی خاطر خواہ ترجمانی کی۔ اس ایک مکے کے ساتھ ہمارے عوام نے جذباتی مقابلے بازی کا پہلا رائونڈ بلا مقابلہ جیت لیا‘ مگر اس کے نتیجے میں ہمیں جن صدمات کا شکار ہونا پڑا‘ انہیں بھولنا بھی آسان نہیں۔
ہمارے ملک میں عوام دشمن قوتوں کی تاریخ بھی دیرینہ ہے۔ جب بھی عوام اور ان کے دشمنوں کے مابین مقابلہ ہوا تو عوام دشمنوں کو ہمیشہ غداروں کی مدد ملتی رہی اور اس ناپسندیدہ خفیہ مدد کے ذریعے عوام کو شکست سے دوچار کیا جاتا رہا۔ اگر میں شہید ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کے انجام کو یاد کروں تو بہت دکھ ہوتا ہے۔ ان کی ساری جائیداد اور اثاثے ہندوستان میں رہ گئے تھے‘ اور پاکستان ایک ایسے اجنبی خطے پر قائم کیا گیا تھا جہاں مسلمانوں کی سیاسی اور عوامی جدوجہد کی کوئی مثال موجود نہیں تھی۔ لیکن ہمارے خطے میں عوامی جدوجہد کے جو چھوٹے چھوٹے جزیرے پائے جاتے تھے‘ ان کی جڑیں معاشرے کے طاقتور حلقوں میں نہیں پھیلی تھیں۔ جدوجہدِ آزادی میں حصہ لینے والے جو سیاسی کارکن‘ جدوجہد کا تجربہ رکھتے تھے‘ ان میں نوے فیصد کانگرسی تھے۔ ہماری بدنصیبی تھی کہ مسلمانوں نے بطورِ اقلیت‘ اپنے لئے جو کچھ بھی کیا‘ وہ سیاسی اعتبار سے موثر ثابت نہ ہوا۔ برصغیر میں مسلمانوں نے ایک منظم سیاسی قوت کی حیثیت میں کبھی علیحدہ وطن کا تصور نہیں کیا تھا۔ یہ تصور پنجاب کے اقبالؒ اور سندھ کے محمد علی جناحؒ نے پیش کیا لیکن اس کی جڑیں گہری تھیں‘ نہ ہی یہ پورے برصغیر کے مسلمانوں تک پہنچ پائی تھیں۔ ہم نے پاکستان قائم کرکے مسلم قوم کا جو نظریہ تیار کرنے کی کوشش کی‘ وہ آج بھی ٹھوس حقیقت میں نہیں بدل پایا۔ ہمارے ساتھ پہلا سانحہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں پیش آیا۔ اب ہم مسلم قومیت کے تصورات کی روشنی میں پاکستان کو تلاش کریں تو بنگلہ دیش میں اس کا وجود نظر نہیں آتا۔ موجودہ پاکستان میں واحد مسلم قوم تلاش کریں تو وہ بھی دکھائی نہیں دیتی۔ ہمارا وفاق مختلف جغرافیائی اکائیوں کا مجموعہ ہے جنہوں نے سمجھوتے کے تحت ملک کا آئین بنایا۔ یہ آئین جغرافیائی اکائیوں کا ایک مجموعہ تو پیش کرتا ہے لیکن مسلم قومیت کے جس خیال کے تعاقب میں ہم بھٹک رہے ہیں‘ اس کی تکمیل ہوتی نظر نہیں آتی۔ تاریخ میں مذہب کی بنیاد پر کسی یکجہتی کی مثال موجود نہیں اور ایسا ہوتا بھی کیوں؟ بے شمار جغرافیائی اکائیاں مذہب کی بنیاد پر موجود ہیں لیکن یہ ایک امت میں کبھی نہیں ڈھل پائیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان اور افغانستان کی تاریخ ہی دیکھ لیجئے۔ افغانستان ہمارا قریبی ترین مسلمان پڑوسی تھا لیکن اس نے پاکستان کی شدید مخالفت کی اور آج تک وہ اسی ڈگر پر چل رہا ہے۔ مختلف قبیلوں کا یہ مجموعہ جو عقائد کے جمگھٹے کی صورت میں موجود ہے‘ اسے نہ ایک قوم کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی ملت۔ ملت کا تصور‘ حقیقت کی صورت میں کبھی ہمارے سامنے آیا ہی نہیں۔ اور پاکستان‘ جسے ہم قدیم تہذیبی کشمکش کے نتیجے میں اپنی علیحدہ جغرافیائی شناخت کے طور پر حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے‘ اسے حقائق کی تجربہ گاہ میں کامیاب نہ کر پائے۔ ہم نے پاکستان میں جو تاریخی‘ تہذیبی اور سماجی ڈھانچے بنانے کی کوشش کی‘ اس میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے۔ ہمارا واحد نظریہ بھارت کے غلبے سے نجات حاصل کرنا ہے۔ یہ منفی مقصد پورا بھی ہو جائے تو حاصل کیا ہو گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved