تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     07-01-2017

بلوچستان کا حصّہ

یارب! وہ دن کب آئے گا، اہل وطن جب وطن میں آسودہ ہو سکیں گے؟ یقین ہے کہ اگر وہ وقت آیا اور انشاء اللہ ضرور آئے گا تو اس میں بلوچستان کا حصہ ہو گا۔ دوسروں سے زیادہ!
اب اس میں تو کوئی کلام نہیں کہ تجارتی راہداری کا منصوبہ ایک عظیم موقع ہے‘ جو قسّام ازل نے ہم پہ ارزاں کیا ہے۔ پہلے سے یہ آشکار تھا۔ پاکستان سے نفرت کرنے والی بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو یہ منصوبہ بہت ناگوار تھا۔ اب دوسری نشانی سامنے آئی ہے۔ حکمران جماعت کے بعد اب پیپلز پارٹی اس پر داد سمیٹنے کے لیے بے تاب ہے۔ اس کے ترجمان کو اصرار ہے کہ اس کا آغاز زرداری صاحب نے کیا تھا۔
اجتماعی خواب‘ کسی ایک شہ دماغ کے مرہونِ منت نہیں ہوتے۔ قوم ہی اسے انجام دیتی ہے۔ ثانیاً وصالِ یار فقط آرزُو کی بات نہیں ہوتی۔ کتنے ہی سپنے بن کھلے مر جاتے ہیں کہ کامرانی کی سب سے بڑی شرط ریاضت ہے۔ مستقل مزاجی کے ساتھ ایک سرفراز جستجو۔ نگاہ ہدف سے ہٹنے نہ پائے۔ پگڈنڈیوں پہ بھٹک نہ جائے۔ 
مواقع سبھی کو نصیب ہوتے ہیں۔ آخری نتیجے کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ انہیں برتا کس طور گیا۔ سب جانتے ہیں کہ قومی زندگی میں ظفرمندی‘ عدل ہی سے ممکن ہے۔ فقط انصاف ہی نہیں‘ مشاورت اور شفافیت۔ شاخوں سے بیج نوچ کر ہوا سرزمینوں میں لیے پھرتی ہے۔ سب کے سب شجر نہیں بن جاتے۔ بونے ہی کی نہیں‘ سینچنے کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ کہر اور دھوپ سے حفاظت کی۔
کتنے ہی وسائل قومیں برباد کر دیتی ہیں۔ عربوں کی دھرتی نے سونا اگلا مگر وہ تہی دست ہیں۔ سہارے ٹوٹ چکے۔ خوف کے عالم میں ایک سپاہ کی تشکیل کے لیے بالآخر انہیں ہاتھ پھیلانا پڑا۔ صدیوں تک جنہوں نے دنیا پر حکومت کی تھی۔
تجارتی راہداری کی اصطلاح ادھوری ہے۔ اسے چینی سرمایہ کاری کہیے۔ محض سڑکوں کا جال نہیں‘ یہ صنعت کاری کا ایک عظیم منصوبہ ہے۔ کیا وہ پاکستان کو ایک مستحکم‘ معتبر‘ معزز اور مربوط قوم میں ڈھال سکے گا۔ اس سوال کا جواب بہت سادہ ہے۔ اگر یہ کسی ایک لیڈر یا پارٹی کا پروگرام دکھائی نہ دے، بلکہ پوری قوم کا۔ اگر چاروں صوبے اسے اپنا لیں۔ اگر اپنی ہی نہیں‘ دوسروں کی منفعت کا بھی خیال رکھا جائے۔ اپنے حق پہ اصرار کریں‘ مگر دوسروں کا حق بھی تسلیم کریں۔ 
احسن اقبال نے ڈنکے کی چوٹ کہا تھا کہ لاہور کی اورنج لائن ٹرین سی پیک کا حصّہ نہیں۔ ذرا سی شرمندگی کے بغیر‘ بعد میں انہوں نے مان لیا۔
یہ اندازِ فکر کا مسئلہ ہے۔ اوّل اوّل وزیر اعظم‘ ان کے دوست اور عزیز و اقارب ہی چین کا قصد کرتے رہے۔ دو طرح کے رویّے ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی عظیم حکمران‘ اپنی قوم پہ کرم فرما ہو۔ دوسرا یہ کہ اجتماعی جدوجہد میں لیڈر‘ قوم کی امنگوں کا نمائندہ اور علامت ہو جائے۔
بدقسمتی سے ہمارا حکمران طبقہ وقت کے تیور نہیں پڑھ سکا۔ بنیادی وجہ تو وہی ہے۔۔۔۔ جاگیردارانہ ذہنیت‘ جو ملوکیت میں پیدا ہوتی اور آسانی سے ٹلتی نہیں۔ ایک دوسرا سبب یہ بھی ہے۔ بیرون ملک قیام کے طویل مہ و سال نے بعض لیڈروں کو قومی مزاج میں برپا تبدیلیوں کا ادراک ہونے نہیں دیا۔ وہ سمجھ نہیں رہے کہ وقت کے ساتھ جو ہم آہنگ نہیں ہوتا‘ اسے وہ پامال کرتا ہوا گزر جاتا ہے۔ کمشنری نظام کا پھر سے اجرا ایک علامت ہے‘ قیادت کی نرسری بنانے کی بجائے‘ بلدیاتی اداروں کو کارندہ بنانے کا ارادہ۔ دوسری قوم‘ خصوصاً ایک نئی قوم کی تشکیل امن کے سائے میں ہوتی ہے۔ مشاورت سے‘ تال میل سے‘ ایک خاندان کی طرح وہ جڑتی جاتی ہے۔ تاریخ کے بہترین گروہ کے بارے میں کہا گیا تھا: ''وَ اَمرُھُم شُورٰی بَینَھُم‘‘۔
یہ محض ایک فضیلت نہیں‘ لازمی اصول ہے۔ پیغمبروں کو اگر مشورے کی ضرورت ہوتی ہے تو حکمرانوں کو کیوں نہیں؟ جن میں سے اکثر تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔ ابدیت سفر کو ہے‘ مسافر کو نہیں۔ اگر کوئی شخص اصولوں کی علامت ہو جائے تو دوسری بات ہے۔ ڈیگال فرانس بن جائے تو فرانس ڈیگال ہو جاتا ہے۔ ساری زندگی صلاح الدین کے ساتھ بتانے والے اس کے سوانح نگار نے لکھا ہے کہ وہ دنیا سے اٹھا تو خلق دمشق کی گلیوں میں تھی‘ گھروں میں نہیں۔ غم گسار اور ماتم کناں ہجوم اس لیے کہ درہم و دینار نہیں‘ وہ ایثار و قربانی کے مہ و سال چھوڑ گیا تھا۔
مواقع پر اچھلنا کودنا بچوں کا کام ہے۔ ہوش مند ان کے تقاضوں پر ریاضت کرتے ہیں۔ دیوار برلن گری تو مغربی جرمنی نے مشرق کے لیے ایثار کیا۔ پاکستان کے خوشحال علاقوں کو کمزور اور پسماندہ علاقوں کے لیے قربانی دینا ہو گی۔ یہ رفاقت کے ماحول میں ہونا چاہیے۔ کشیدگی اور سودے بازی میں یہ ممکن نہ ہو گا۔
جس طرح کوئی شخص کسی دوسرے کو کما کر نہیں دیتا‘ اسی طرح کوئی قوم کسی دوسری قوم پر کامرانی کا در نہیں کھولتی۔ چینی سرمایہ کاری اگر پاکستانی صنعت کاری کا میدان کشادہ نہیں کرتی تو نتیجہ کیا ہو گا؟ بتایا گیا ہے کہ ابتدائی طور پر ستر فیصد ملازمتیں چینیوں کو دی جائیں گی۔ ایسے منصوبے بھی تو ہونے چاہئیں جن میں پاکستانی کھپیں۔ 
چینیوں نے آپ کے ہاتھ نہیں پکڑ رکھے۔ اپنا گوشوارہ انہوں نے پیش کر دیا۔ پاکستانی منصوبہ خود ہمیں بنانا ہو گا۔ پاک چین آزادانہ تجارت میں ہمارا خسارہ 6.5 ارب ڈالر ہے۔ ہم خود اس کے ذمہ دار ہیں۔ آئی ٹی اور الیکٹرونکس کے خالی پڑے میدان میں بروقت ہم داخل نہ ہوئے‘ اب بھی اس کی منصوبہ بندی نہیں کر رہے۔ ہم منتظر لوگ جو غیب سے کسی کے نازل ہونے کی امید پالتے ہیں۔ 
تعلیم! نہ جمہوریت اس کے بغیر پنپتی ہے، کاروبار اور نہ صنعت۔ اسی سے فرقہ واریت‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نجات ممکن ہے۔ وہی رواداری کا دروازہ کھولتی ہے۔ بلوچستان کے صدر مقام کو لوکل ٹرین مبارک ہو۔ اگر آئی ٹی اور انجینئرنگ کی بہترین یونیورسٹیاں ترجیح ہوتیں تو زیادہ مسرت ہوتی۔ کاکول میں زیر تربیت 2000 کیڈٹوں میں سے 232 بلوچ ہیں۔ دوسرے میدانوں میں کیوں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ شرط یہ ہے کہ درد سے بازو سے چھڑا لیا جائے، خود ترحمی سے۔ زندگی‘ امید کے ساتھ پرواز کرتی ہے۔
قابل اعتماد پولیس اور نتیجہ خیز عدالتوں کے بغیر کبھی کسی ملک کو استحکام نصیب نہیں ہوا۔ ہر بار جب میں بلوچستان آتا ہوں تو ایک سوال پوچھتا ہوں۔ کرپشن اور لیویز کو محدود کرنے کا عمل کتنا آگے بڑھا؟ واپس آتا ہوں تو یہ وہیں کوئٹہ کے ہوائی اڈے پر پڑا ہوتا ہے۔
معجزوں کی امید میں خود فریب جیتے ہیں۔ وہی جملہ ایک بار پھر دہراتا ہوں: ''راہ محبت میں پہلا قدم ہی شہادت کا قدم ہوتا ہے‘‘۔ بہت سے کانٹے چن لیے گئے۔ امن اور امید کی راہ پر یہ بلوچستان آ گے بڑھا ہے۔ مگر امتحان باقی ہے۔ پہاڑوں سے لوگ اتر رہے ہیں۔ بھارت بوکھلا کر بھونڈی حرکتوں پر اتر آیا ہے۔ وحشت کا شکار ہوئے بغیر دانائی کے ساتھ مقابلہ کر سکے تو آنے والا کل ہمارا ہے۔ وہ دن بیت گئے جب وہ بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کو پکے پھل کی طرح گود میں گرتا دیکھ رہا تھا۔ ہمیں خود کو تھامے رکھنا چاہیے۔ عرصہ امتحان میں ہوش اور حکمت کی ضرورت شجاعت سے کم نہیں ہوتی۔ کبھی تو اس سے بہت زیادہ۔ دانش کے بغیر دلاوری پاگل پن کے سوا اور کیا ہوتی ہے؟
کائنات کا مرکز و محور آدمی ہے اور آدمی علم سے سنورتا ہے۔ تاریخ اس کی شہادت دیتی ہے اور اس سے بڑھ کر اللہ کی کتاب۔ اس ملّا کی مت سنیے جو دین و دنیا کی تقسیم کا قائل ہے۔ ایسا آدمی دنیا کو پا سکے گا نہ دین کو۔ دانا لوگ اپنے زمانے میں جیتے ہیں، ماضی میں نہیں۔
کل دوپہر کوئٹہ کے شہر کی درخشاں دھوپ میں ایک لمحہ بہت بھاری تھا۔ بہت دُور مغرب میں جا اترے ایک خاندان کے بارے میں بتایا گیاکہ بچے‘ بڑے صرف ڈبل روٹی پر بسر کر رہے ہیں۔ ماں نے کہا: میرے بچے اچھے ہیں‘ روتے نہیں، شور نہیں مچاتے۔ اس جملے نے دل میں کہرام اٹھایا۔ 
یارب! وہ دن کب آئے گا، اہل وطن جب وطن میں آسودہ ہو سکیں گے؟ یقین ہے کہ اگر وہ وقت آیا اور انشاء اللہ ضرور آئے گا تو اس میں بلوچستان کا حصہ ہو گا۔ دوسروں سے زیادہ!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved