تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     07-01-2017

عمل یا ردِ عمل

بریکنگ نیوز سے آگاہ ہو کر نیدرلینڈ فون کیا‘ جہاں گلموٹ میں اسلامک سنٹر کو آگ لگ گئی تھی۔ اسد مفتی لائن پر تھے۔ اسد‘ گلموٹ‘ ایمسٹرڈم سے کتنی دْور ہے؟ آپ تو یہاں آئے ہیں اور میرے ساتھ گاڑی میں گھومے پھرے بھی ہیں‘ آپ جانیں کہ پورا نیدرلینڈ یا ہالینڈ (پٹرول کے) ایک ٹینک کی مار ہے اور جرمن سیاح اپنے ساحل چھوڑ کر ہالینڈ کی بیچوں کا رخ کرتے ہیں۔ کیوں‘ اکمل‘ گلموٹ میں کیا ہے؟ ''گلموٹ میں عالی شان اسلامی مرکز ہے جو آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہے اور بریکنگ اردو نیوز کے مطابق یہ آگ لگی نہیں‘ لگائی گئی ہے اور ایک برطانوی اخبار کے دعوے کے مطابق شر پسندوں نے بھڑکائی ہے‘‘۔ توقع ہے کہ یورپی ٹیلی وژن اس آتشزنی کو لائیو کور کر رہا ہو گا۔
اسد کا جواب غیر متعلق تھا‘ اس لئے دونوں صحافیوں نے اصل موضوع پر توجہ دی جو ''رد عمل‘‘ تھا۔ یورپ اور شمالی امریکہ میں ہمارے خلاف ان دس برسوں میں بہت سی فرقہ وارانہ کارروائیاں ہوئی ہیں‘ لیکن یہ عمل تھا یا رد عمل؟ نامور امریکی مستشرق اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی واشنگٹن میں تاریخ اسلام کی پروفیسر یو وان حداد Yvonne Haddad لکھتی ہیں اس سرزمین پر اکا دکا مسلمانوں کی آمد تو امریکہ کی مبینہ دریافت سے پہلے شروع ہو گئی تھی‘ اور ان میں 1717ء میں عربی بولنے والے مسلمان‘ غلاموں کی حیثیت سے درآمد ہونے لگے تھے‘ لیکن مسلمان تارکینِ وطن کی پہلی باقاعدہ لہر شام کے سقوط پر 1875ء میں آئی اور باقی ماندہ شام‘ لبنان‘ اردن اور فلسطین کے مسلما نوں نے تلاشِ معاش کے سلسلے میں نوزائیدہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا رخ کرنا شروع کیا۔ پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو برٹش انڈیا کے توسط سے افغانستان سے کچھ شتربان امریکہ لائے گئے۔ وہ سب انگریزی زبان سے ناواقف تھے۔ انہوں نے امریکی فوج کے اونٹوں کی دیکھ بھال کے علاوہ کھیتوں‘ کانوں اور فیکٹریوں میں مزدوری کی‘ پھیری لگا کر سودا بیچا اور گروسری سٹور چلائے۔ چونکہ ان لوگوں کے ساتھ دانشور افغانستان سے نہیں آئے تھے اس لئے رفتہ رفتہ وہ اپنی ثقافتی اقدار بھول گئے اور ان کی اولاد اپنے آبائی دین سے بھی لاتعلق ہو کر امریکی ثقافتی کٹھالی میں گھل گئی یعنی اپنے مذہب سے بیگانہ ہو گئی۔
دانشوروں سے پروفیسر حداد کی مراد دینیات کے ماہر ہیں یعنی علمائے دین۔ شمالی امریکہ اور یورپ میں علمائے دین تو خال خال ہیں علمائے سْو بکثرت دکھائی دیتے ہیں اور ان چار عشروں میں مسلم آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ ستر کے عشرے میں جب میرا نزول ہوا تو ہمارے سفارت خانے میں اکرم شیخ ہیڈ آف دی چانسری تھے (وہ سفیر بھی رہے اور سینیٹ کے رکن کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے) ایک بار وہ امریکی یہود کو پاکستان کے موقف کا قائل کرنے کے لئے واشنگٹن سے متصل میری لینڈ کے ایک علاقے سناگاگ گئے تو مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ واپسی پر ہم نے ایک یہودی کی دکان سے گول روٹی خریدی‘ جسے یہاں پیٹا بریڈ اور مشرقِ وسطیٰ میں خبز کہا جاتا ہے۔ واشنگٹن میں‘ جہاں ہماری رہائش تھی‘ گول روٹی کا کوئی سٹور نہیں تھا۔ اب واشنگٹن کے علاوہ متصلہ میری لینڈ اور ورجینیا میں ایسی دکانیں بکثرت ہیں جہاں روٹی کی کئی اقسام کے علاوہ پراٹھے‘ نان‘ پوری اور لاواش دستیاب ہیں۔ یہ اس علاقے میں مسلم آبادی میں غیر معمولی اضافے کا نشان ہیں۔ جوں جوں پاکستان میں روزگار کی سہولتیں کم ہوئیں‘ مغربی ملکوں کی مسلم آبادی زیادہ ہو گئی ہے۔ پہلے پڑھے لکھے لوگ امریکہ آتے تھے اور کالجوں میں ملازمت کرتے تھے۔ دو ڈھائی عشروں سے نیم خواندہ لوگ بھی بکثرت وارد ہوئے ہیں۔ وہ گروسری سٹور کھول کر یا ٹیکسی چلا کر گزر اوقات کرتے ہیں اور ان کے ساتھ یا ان کے پیچھے پیچھے ایسے عناصر بھی آئے‘ جنہوں نے رنگ برنگی ٹوپیاں پہن کر اور پگڑیاں باندھ کر مذہب کی دکانیں کھول لی ہیں۔ اواخر ہفتہ یہ لوگ ان مذہبی دکانداروں کے گاہک بنتے ہیں۔
نوّے کے عشرے میں‘ جب سوویت یونین ٹوٹ چکی تھی‘ ڈلس ایر پورٹ (واشنگٹن) پر ایک کانفرنس ہوئی جس میں سنا گیا کہ اب جب کہ سوویت نظام رخصت ہو چکا‘ دنیا میں تہذیبوں کا تصادم ہو گا کیونکہ اشتراکیت کو ایک دشمن کی تلاش ہو گی۔ ان دنوں ایک امریکی رسالے میں SP Huntington کا وہ مضمون شائع ہوا‘ جس کا عنوان تھا: The Clash of Civilizations اس وقت سے اس مضمون کی دھوم ہے اور ''دہشت گردی‘‘ اسی مضمون کا شاخسانہ ہے۔ جیسا کہ اس کانفرنس میں ہوا تھا‘ کئی مذہبی عناصر‘ جو پبلک میں دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں‘ درِ پردہ دہشت گردی یا دہشت پسندی کی داد دیتے ہیں۔ ان ملکوں کے بہت سے نوجوانوں میں مذہب دین نہیں فیشن بن گیا ہے اور داڑھی سے وہ جدید فیشن کا کام لیتے ہیں۔ ایک بار ایک عورت نے لکھا: پاکستان میں تھے تو کرکٹ کے کھلاڑیوں کی تصویریں تکیے کی اوٹ میں چھپایا کرتے تھے‘ اب کیا کریں؟ انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کی رپورٹ کے مطابق اس سال دہشت گردی سے اموات میں ریکارڈ توڑ اضافہ ہوا۔ سن پندرہ میں 32658 لوگ مرے تھے۔ چھوٹی سی تعداد غیر مسلموں کی ہے ‘ جن کی موت پر کہا گیا: خس کم جہاں پاک۔ اکثریت مسلمان ہے جنہیں فرقہ وارانہ یا نظریاتی بنیادوں پر قتل کیا گیا۔ وہ مرنے والوں کو مسلمان نہیں کہتے۔ یہ پرلے درجے کی ستم ظریفی ہے جس کا سامنا ان حروف کے لکھنے والے کو بھی ہوا۔ میں مذہبی کانفرنس میں شرکت کے لئے کئی بار شکا گو گیا تو اکثر کانفرنس کے لیڈروں کو یہ کہتے سنا گیا کہ یہ لبرل ہے اسے کانفرنس کے پینل پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ مغرب میں رہ کر لبرل سے مراد وہ شخص لی جاتی ہے جو بنیادی انسانی حقوق کا پاسدار ہو۔ اسد بولے: وہ تو تمہیں جبہ و امامہ سمیت دیکھنا چاہتے ہیں۔
مسلم اکثریت کی بہت سی ریاستوں میں حکمرانوں کا رویہ بھی مبہم ہے جو بعض ہمسایہ ملکوں اور بڑی طاقتوں کے نزدیک پوشیدہ نزاع کا باعث بن رہا ہے۔ امریکی تھنک ٹینک کو اندیشہ ہے کہ دہشت گردی کا جتنا خطرہ مشرق وسطیٰ کو ہے یورپ یا امریکہ کو نہیں۔ وہ اس کی نظیر یمن‘ شام‘ عراق اور لیبیا کی سلگتی دیواروں سے دیتا ہے‘ اور حوالے کے لئے ان لاکھوں افراد کو پیش کرتا ہے جو ہاتھوں میں پناہ کی عرضیاں لئے مغربی یورپ کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ پاکستان میں سال نو کا استقبال دھوم دھا م سے ہوا مگر یورپ میں معمولات تلپٹ ہوئے اور یہی دہشت پسند چاہتے ہیں۔ بلجیم‘ ترکی اور فرانس سب سے زیادہ متاثر تھے۔ جرمن لیڈر انجلا مرکل بولیں: ہماری جمہوری اقدار‘ دہشت گردی سے زیادہ مضبوط ہیں۔ کاش ایسا ہی ہوتا۔ بغداد میں دکھی لوگ نئے سال کی خوشیاں منا رہے تھے جب ان پر ہم مذہبوں کے دو دھماکے ہوئے جو 21 افراد کی جان لے گئے۔ ایسی ہی مسرت باسفورس کے پْل کے شمال مغربی سرے پر ایک مشہور نائٹ کلب رائنا میں استنبول کے شہری کم از کم آٹھ ملکوں کے سیاحوں کے ساتھ مل کر منا رہے تھے جب کرسمس کے ایک باامن کردار کے بھیس میں ایک حملہ آور کی زد میں آئے اور کم و بیش چالیس افراد مارے گئے۔ اس ذہنیت کا صفایا کون کرے گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved